جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: ’ماضی کی جمہوری حکومت ججوں کی جاسوسی کرنے پر جا چکی ہے‘
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا ہے کہ ججوں کی نگرانی اس معاملے میں ایک اہم نکتہ ہے۔
جمعرات کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران 10 رکنی بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل اور سابق وزیرِ قانون فروغ نسیم کو مخاطب کر کے کہا کہ انھیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ماضی میں ایک جمہوری حکومت کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کرنے پر ختم کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت کو جب ختم کیا گیا تھا تو دیگر الزامات کے ساتھ یہ الزام بھی تھا کہ اُنھوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کی تھی۔
یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے چیمبر سے جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے تھے۔
صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں بدنیتی کا نکتہ بھی نہایت اہم ہے اور وفاق کے وکیل نے اب تک نہیں بتایا کہ ججوں کی بیرون ممالک جائیدادوں کے بارے میں شواہد کیسے اکھٹے کیے گئے۔
سماعت میں کیا ہوا؟
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اعلی عدلیہ کے دو ججز کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔
بیرسٹر فروع نسیم دلائل دینے کے لیے روسٹم پر آئے تو بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اُن کے دلائل تفصیل سے سنے گی۔
’لیکن اب تک کے دلائل میں اس ریفرنس کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں‘۔ جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے۔
وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدغن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرتے جبکہ درخواست گزار یعنی قاضی فائز عیسی کا موقف ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں ہے بلکہ جج کے مس کنڈّکٹ کا ہے اور آئین کے آرٹیکل 209 میں کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کے بارے میں بڑا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ بیرسٹر فروع نسیم کا کہنا تھا کہ جج کے خلاف کارروائی صرف اسی صورت ہوگی جب جج مِس کنڈکٹ کا مرتکب پایا جائے گا۔
بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مِس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کے بجائے بہتر ہو گا کہ آئین کے تحت ہی دیکھی جائے جس پر وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین میں زیر کفالت اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ بچوں کے لیے تو پھر بھی زیر کفالت یا خود کفیل کا ایشو ہے، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں۔
بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس جائیداد کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کی اہلیہ سے کسی نے نہیں پوچھا جس پر فروع نسیم کا کہنا تھا کہ جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضا پورا نہیں کیا۔
فروع نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں اور اس مقدمے میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی ایمنسٹی سکیم قانون سے جج، ان کی بیگمات یا ان کے زیر کفالت بچے فائدہ نہیں لے سکتے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں جس کے تحت ججوں اور ان کی بیگمات کے لیے اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہویے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل ہے لیکن ججوں اور ان کے اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل نہیں ہے۔
بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ ان کی اس دلیل کا اس ریفرنس سے کیا تعلق ہے۔
وفاق کے وکیل نے اس بارے میں تو کوئی جواب نہ دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے ان کی اہلیہ یا زیر کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھا جاسکتا تو یہ بڑی تباہی ہو گی۔‘
وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار جج کے بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں اور معزز جج کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثوں کی کوئی مورگیج بھی نہیں ہے۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ایک خودمختار بیگم اپنی آمدن سے جائیداد خریدتی ہے تو وہ کل اس کی وضاحت بھی دے سکتی ہے۔‘
بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ کیا معزز جج کی بیگم سے پوچھا گیا کہ جائیداد کہاں سے خریدی گئی جس پر وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ انضباطی کارروائی میں بیگم صاحبہ سے نہیں پوچھا جاتا۔
اُنھوں نے کہا کہ گریڈ 22 کے سیکریٹری کے لیے بنائے گئے قوائد ججز پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری کے لیول کے آفیسر کے لیے بنائے گئے قواعد مراعات سے متعلق ہیں نہ کہ کنڈکٹ سے متعلق۔ اُنھوں نے کہا کہ ججوں کے کنڈکٹ سے متعلق صرف آئین میں درج ہے جبکہ باقی کہیں بھی نہیں ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ریفرنس میں بنیادی ایشو ٹیکس قانون کی شق 116 کی خلاف ورزی ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کا عدالت سے وعدہ ہے کہ شق 116 پر بھی بھرپور دلائل دیے جائیں گے۔
بینچ کے سربراہ نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج آپ کو مکمل وقت دیا گیا لیکن آپ ایک نکتے پر بھی دلائل مکمل نہ کر سکے۔‘ جس پر وفاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اگلے دو روز میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔