اُداس نسل کے لوگ
کون سی خوشیاں تھیں جو اَب ختم ہو گئی ہیں؟ کون سے شادیانے بجتے تھے جو اَب رُک گئے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں خوشی کے پیمانے ہی اور ہیں۔ کڑاہی گوشت کے ڈھابوں پہ رش ہو شاید اُسے ہم خوشی کا ایک پیمانہ سمجھتے ہیں۔ اس بیماری کی حالت میں بھی آئے روز سب سے نمایاں اشتہارات اخبارات میں ریئل سٹیٹ کے بارے میں ہوتے ہیں کہ فلاں سوسائٹی میں پلاٹ یا گھر لے لیں تو خوشی آپ کی دہلیز پہ پہنچ جائے گی۔
فکر کی ماری قوم ہے۔ ایک تو حالات کبھی زیادہ پُرمسرت نہیں رہے۔ اوپر سے اُداسی کا لبادہ معاشرے نے اوڑھا ہوا ہے۔ ایک فکرِ دنیا، دوسری فکر آنے والے دنوں کی۔ پلندہ اخباروں کا پڑھنا ہماری پروفیشنل مجبوری ہے۔ ایک سرے سے دوسرے کونے تک گھسی پٹی خبریں اور ثقیل تبصرے۔ جس کو ڈپریشن نہ بھی ہو ان کو پڑھ کے طاری ہو جائے۔ بھونڈی سیاست کے علاوہ ہم اخبار نویسوں نے کسی اور چیز پہ لکھنے کا سیکھا ہی نہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں آرٹ اور کلچر پہ لکھا جاتا ہے، ٹریول کے بارے میں لوگ رائے دیتے ہیں، اچھے پکوان کے بارے میں لمبے لمبے مضامین چھپتے ہیں۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ بس فلاں نے یہ کہا اور وہ کہا۔ لیڈران کا اپنا طرز خطاب ہے اور عموماً اُن کا زور مستقبل پہ رہتا ہے کہ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ ساری بڑھکیں اور سارے افسانے آئندہ پہ محیط ہوتے ہیں۔
سوچا جائے تو جو خطۂ زمین تقسیمِ ہند کی وجہ سے ہمیں ملا وہ اُس وقت کی آبادی کیلئے بہت ہی وافر تھا۔ مشرقی پاکستان کو چھوڑئیے، اس کا جو ہم نے حشر کیا تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ یہ جو مغربی پاکستان تھا اس کی کل آبادی 1947ء میں ساڑھے تین کروڑ تھی۔ دور دراز علاقوں کو رہنے دیجیے، راولپنڈی سے لاہور کا سفر ہوتا تو میلوں میل راستے میں کوئی آبادی نہ ہوتی۔ دیگر کسی میدان میں ہم اپنی اجتماعی توانائیاں دکھا نہ سکے لیکن آبادی کے ضمن میں ہم نے کمال ہی کر دیا۔ مردانگی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے گئے۔ وہ جو ساڑھے تین کروڑ کی آبادی تھی وہ اب بائیس تئیس کروڑ ہو چکی ہے۔ اگر کوئی اجتماعی تمغۂ حسن کارکردگی ایجاد ہو سکتا ہے تو پاکستانی قوم سے زیادہ اس کا حقدار کوئی نہیں۔ خوشحالی کے دروازے جو ہم ڈھونڈنا چاہتے ہیں وہ اتنی آبادی کے بوجھ تلے مشکل سے ہی دستیاب ہو سکیں گے۔ قوم شاباش کی اس لئے بھی مستحق ہے کہ جہاں آبادی پہنچ چکی ہے ہم اب بھی مطمئن نہیں۔ اسے بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہماری افزائش آبادی کا ریٹ دنیا میں سب سے اونچا ہے۔ حکومتیں جو اس بدبخت قوم کو نصیب ہوتی رہی ہیں‘ اُن کی دلیری کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے کنٹرول کا انہوں نے کبھی نام تک نہ لیا۔ کچھ کرنا تو دور کی بات ہے۔
ہمارے قومی افسانوں میں ایک افسانہ یہ ہے کہ قدرت ہم پہ بہت مہربان ہے۔ قرض کی مے ہم نے کیا پینی ہے قرض کی باقی ہر چیز پہ یہ معاشرہ چل رہا ہے۔ ترقی کے گہوارے دیگر ممالک میں، انسان کی ہر تخلیق کردہ نعمت اُن کی دسترس میں، ہم مانگے تانگے پہ جی رہے ہیں لیکن افسانہ پھر بھی ہمارا یہ کہ قدرت ہم پہ مہربان ہے۔ یہ تو دیکھا جائے کہ کون سی ہماری حرکات ہیں جن کو دیکھ کے قدرت ہم پہ فریفتہ ہو جائے۔ اجتماعی زندگی میں جھوٹ کا عمل دخل اتنا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ہمارے سارے فوجداری اور سول قوانین انگریزوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ انگریز جب یہاں آئے اور انہوں نے جھوٹ کے پیمانے دیکھے تو اپنے تشکیل کردہ قانونِ شہادت میں انہوں نے یہ شق رکھی کہ کسی مجرم کا پولیس کے سامنے بیان عدالت میں کوئی حیثیت نہیں رکھے گا‘ یعنی پولیس کے سامنے دیا گیا بیان admissible نہیں ہو گا۔ آج تک ایسا ہی چل رہا ہے اور اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انگلستان میں البتہ پولیس کو دیا گیا بیان عدالت کے روبرو اپنی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گو ہم بڑے دیندار بنتے ہیں چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا جھوٹ ہمارے معاشرے میں بُرا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ دیگر معاشروں میں بھی جھوٹ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ مکاری اور فریب وہاں بھی چلتے ہیں‘ لیکن اُن معاشروں میں کوئی خوشی کا سامان بھی ہوتا ہے۔ لوگ ہنستے کھیلتے ہیں۔ ہم نے اُداسی کا لبادہ چڑھایا ہوا ہے۔ کھل کے بات نہیں ہو سکتی۔ انسانی فطرت سے پیدا شدہ ہر اچھائی یا برائی ہمارے ہاں ہے لیکن بہت سی چیزیں کو پردوں کے پیچھے رکھنا پڑتا ہے۔
اس سے منافقت پیدا ہوتی ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے‘ لیکن جب ایسی پردہ داری لازمی سمجھی جائے تو معاشرے کی ناہمواری کو مزید تقویت ملتی ہے۔ پردہ داری جب لازمی ٹھہرے تو امیر طبقات ایسی پردہ داری بہتر انداز سے کر سکتے ہیں۔ گلی محلوں میں آپ کیا پردہ داری رکھیں گے‘ لیکن جب رہائشیں وسیع ہوں اور اُن کے ارد گرد دیواریں اونچی ہوں تو ان دیواروں کے پیچھے آپ ہر چیز کر سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ویسے ہی ناہموار تھا‘ لیکن مصنوعی پاکیزگی کے نفاذ سے یہ ناہمواری زیادہ بڑھ گئی ہے۔
گزرے زمانوں کے حالات کا کیا تذکرہ کیا جائے۔ یہاں ماحول ہم ایسا بنا چکے ہیں کہ بہت سی عام چیزوں کا ذکر آسان نہیں رہا۔ گول مول انداز سے بات کرنا پڑتی ہے۔ اتنا میں کہوں کہ جب ہم فوج میں نئے نئے گئے تو لیفٹین کی تنخواہ ساڑھے پانچ سو تھی اور کپتان کی ساڑھے سات سو۔ 1971ء کی جنگ میں ہم لاہور بارڈر پہ تعینات تھے۔ جب جنگ ختم ہوئی اور چھٹی لے کر لاہور آتے تو 100 روپے میں بہت کچھ ہو جاتا۔ کھانا سستا تھا۔ ایبٹ روڈ، صفاں والا چوک اور لکشمی چوک میں آپ دس یا بیس روپے میں جی بھر کے کھا سکتے تھے۔ سفر کیلئے ٹیکسی کاریں دستیاب تھیں۔ ٹیکسی میں بیٹھتے تو ڈرائیور میٹر گھما دیتا۔ اسے کہنا نہیں پڑتا تھا کہ ایسا کرو۔ دس بیس روپے میں آپ مخصوص محلوں کی سیر کر سکتے تھے۔ اب بعض اشیاء جو ممنوع تصور کی جاتی ہیں اُن پہ تب ایسی قدغن نہ تھی۔ آج کل آپ یہ سارے لوازمات کریں تو آپ کو یا تو ہائوسنگ کے شعبے سے وابستہ کوئی شخص ہونا چاہئے یا آپ کسی ایسے محکمے کے ایس ڈی او اور ایکسیئن ہوں جن پہ قدرت کی خاص مہربانی رہتی ہے۔
یہ جو پیسے اور مال و دولت کی ریل پیل پاکستان میں آج ہے تب ایسا نہ تھا۔ معاشرہ زیادہ سادہ تھا۔ تہذیب کا معیار قدرے بہتر تھا لیکن آج کل کی نمائشِ دولت نہ تھی۔ گاڑیوں کی تعداد مختصر تھی، پبلک ٹرانسپورٹ بہتر تھی۔ لاہور جیسے شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ تانگے ہوتے اور اُن میں گھنٹی لگی ہوتی۔ سائیڈوں پہ بتیاں ہوتیں۔ یہ میں کسی افسانے سے پڑھ کے چیزیں نہیں سنا رہا۔ ان چیزوں کو ان گناہگار آنکھوں نے خود دیکھا۔ ہم نے سب پرانی روایات کا ستیاناس کر دیا اور اس عمل کو ترقی کا نام دیتے ہیں۔
ایک اشتہار نظر سے گزرا‘ پڑھ کے میری روح جو جلد کانپتی نہیں‘ کانپ اُٹھی۔ یہ دریائے راوی کے کنارے ایک وسیع پراجیکٹ کے بارے میں تھا‘ جس کی کل لمبائی چالیس کلومیٹر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس میں بننے کیا جا رہا ہے، وہی ہاؤسنگ سوسائٹیاں، شاپنگ مال اور تفریح کے نام پہ بڑے بڑے سینما گھر۔ لاہور کا پہلے والا حسن بہت حد تک برباد ہو چکا ہے۔ یہ پراجیکٹ تشکیل پائے گا تو پتا نہیں کیا کیا تباہیاں اپنے ساتھ لائے گا۔
کچھ جنگلات لگائے جاتے، کچھ باغات کی تشکیل ہوتی۔ پہلے ہی شاپنگ مال وغیرہ کیا کم ہیں اور گاڑیوں کی بھیڑ تھوڑی ہے کہ آپ اس ہڑبونگ میں مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے خیالات ہمارے ذہنوں میں پتا نہیں کہاں سے آتے ہیں۔