Site icon DUNYA PAKISTAN

برطانیہ عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے 15 پاکستانی نژاد امیدواروں میں کون کون شامل ہے؟

Share

برطانیہ کے سنہ 2019 کے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے ممبران پارلیمان میں 15 پاکستانی نژاد برطانوی بھی شامل ہیں جنھوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور پارلیمان پہچنے میں کامیاب ہوئے۔

جیتنے والے زیادہ تر پاکستانی نژاد سیاستدانوں کا تعلق برطانیہ میں حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی سے ہے تاہم پانچ پاکستانی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹس پر جیتے ہیں۔

ان عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے 12 پاکستانی نژاد امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے جن میں سے 10 کامیاب ہوئے ہیں جبکہ کنزرویٹیو پارٹی نے 19 پاکستانی نژاد سیاستدانوں کو پارٹی ٹکٹ دیے تھے جن میں صرف پانچ امیدوارن ہی ممبر پارلیمان منتخب ہو سکے ہیں۔

جیتنے والے 15 پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدانوں میں سے نو مرد جبکہ چھ خواتین ہیں۔

لیبر پارٹی کی طرف سے جیتنے والوں میں بریڈ فورڈ ویسٹ کی ناز شاہ بھی ہیں جو 33 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائی ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ سنہ 2015 میں ممبر پارلیمان منتخب ہوئی تھیں اور اس کے بعد سے اب تک تین مرتبہ اپنے حلقے سے الیکشن جیت چکی ہیں۔

خالد محمود نے مخالف امیدوار کو 15 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی

برمنگھم سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیاستدان خالد محمود بھی اپنی برمنگھم پیری بار کی نشست کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے کنزرویٹیو پارٹی کے راج شامجی کو 15 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی ہے۔

خالد محمود سنہ 2011 سے برطانوی سیاست میں سرگرم ہیں اور سنہ 2015 میں انھیں برٹش مسلم ایوارڈز میں سال کے بہترین سیاستدان کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

برطانیہ کے علاقے بولٹن کے حلقے جنوب مشرقی بولٹن سے لیبر پارٹی کی امیدوار یاسمین قریشی باآسانی جیت گئیں۔

یاسمین قریشی 21516 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں ہیں ان کا تعلق پاکستان کے شہر گجرات سے ہے

اگرچہ لیبر پارٹی کے لیے انتخابات کی رات کافی بھاری رہی لیکن اس کا اثر سابق قانون دان یاسمین قریشی پر نہیں ہوا اور وہ 21 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔

یاسمین کا تعلق پاکستان کے شہر گجرات سے ہے۔ وہ گجرات میں پیدا ہوئی تھیں مگر نو سال کی عمر میں وہ برطانیہ آ بسیں۔ نو سال قبل انتخابات میں پہلی مرتبہ منتخب ہونے کے بعد وہ برطانوی پارلیمان میں آنے والی پہلی مسلمان خاتون بنیں۔ وہ بولٹن میں لیبر کی واحد ممبر پارلیمان ہیں۔

ایک اور پاکستانی نژاد سیاستدان جو بہت بھاری اکثریت سے جیت کر پارلیمان آئے ہیں، وہ ہیں مانچیسٹر سے تعلق رکھنے والے لیبر رہنما افضل خان۔

انھوں نے اپنے حلقے مانچیسٹر گورٹن سے 34 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدِ مقابل کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار کو صرف 4244 ووٹ ملے۔

افضل خان سنہ 2005 اور سنہ 2006 کے دوران مانچسٹر کے لارڈ میئر تھے اور سنہ 2014 سے لے کر سنہ 2017 تک وہ شمال مغربی انگلینڈ کے یورپی پارلیمان میں نمائندے بھی رہے ہیں۔

افضل خان نے 34 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدِ مقابل کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار کو صرف 4244 ووٹ ملے

اسی برمنگھم کے ہال گرین حلقے سے لیبر پارٹی کے طاہر علی اپنے حلقہ انتخاب سے 67.83 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ ممبر پارلیمان منتخب ہوئے ہیں۔

طاہر علی کا الیکشن شروع ہی سے تنازعات کا شکار رہا اور الیکشن کے دن بھی پولیس کو نظر رکھنی پڑی کہ ان کے حلقے میں کوئی بدمزگی نہ ہو جائے۔ طاہر علی نے 35889 ووٹ حاصل کیے۔

بیڈ فورڈ کے لیبررہنما محمد یاسین اپنی سیٹ مشکل سے ہی بچا پائے ہیں۔

میر پور سے تعلق رکھنے والے محمد یاسین انتخابات میں 20491 ووٹ حاصل کیے جبکہ کے حریف کنزرویٹو پارٹی کے ریان ہینسن 20346 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔ اس طرح یاسین صرف 145 ووٹوں سے سبقت لے گئے۔

بریڈ فورڈ ایسٹ سے لیبر جماعت کے عمران حسین 27825 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔

کوینٹر ساؤتھ سے لیبر کی سیٹ پر زارا سلطانہ پہلی مرتبہ پارلیمان کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ وہ اپنی مخالف کنزرویٹو کے امیدوار میٹی ہیون سے 401 ووٹوں سے جیتیں۔

زارا سلطانہ پہلی مرتبہ پارلیمان کی رکن منتخب ہوئی ہیں، انھوں نے اپنے مخالف امیدوار کو صرف 401 ووٹوں سے ہرایا ہے

زارا کو اس وقت تنازع کا سامنا کرنا پڑا جب سنہ 2015 میں ان کا ایک ٹویٹ منظرِ عام پر آ گیا جس میں انھوں نے چند عالمی رہنماؤں کے متعلق کہا تھا کہ وہ ان کی موت پر ’خوشیاں‘ منائیں گی۔

انھوں نے بعد میں اس کی معافی مانگی اور کہا کہ یونیورسٹی کے دنوں میں لکھی گئی ٹویٹ تھی جب وہ دنیا میں پریشانی، تشدد اور ناختم ہونے والی ہلاکتوں پر غصے میں تھیں۔

برمنگھم سے تعلق رکھنے والی شبانہ محمود نے بھی اپنی برمنگھم لیڈی وڈ سیٹ جیت لی ہے۔ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی شبانہ 33 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائیں۔ وہ سنہ 2010 سے سیاست میں ہیں اور سنہ 2014 میں سب سے کامیاب مسلم سیاستدان کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔

شبانہ محمود نے 33 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے، وہ سنہ 2014 میں کامیاب مسلم سیاستدان کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں

لیبر کی روزینہ شینٹیل ایلن خان نے اپنی ٹوٹنگ کی نشست 30811 ووٹ حاصل کر کے جیت لی ہے۔ وہ سنہ 2016 سے ٹوٹنگ کی ممبر پارلیمان ہیں اور وہ میئر لندن صادق خان کی چھوڑی ہوئی نشست پر الیکشن لڑ کے رکن پارلیمان منتخب ہوئی تھیں۔

ان کی والدہ پولش تھیں جبکہ ان کے والد کا تعلق پاکستان سے تھا۔

کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر ویلڈن کے حلقے سے جیتنے والی نصرت غنی سنہ 2015 سے ممبر پارلیمان ہیں۔ انھوں نے 37 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامبیابی حاصل کی۔ نصرت 11 جولائی 2019 کو حکومت کی وِپ بھی تعینات ہوئی تھیں۔

نصرت برمنگھم میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے والدین کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔ نصرت غنی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ بطور وزیر ٹرانسپورٹ وہ پہلی مسلم خاتون تھیں جنھوں نے دارالعوام میں سوالوں کے جواب دیے۔

نصرت غنی برمنگھم میں پیدا ہوئی تھیں، ان کے والدین کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے

نصرت بی بی سی ورلڈ سروس میں بھی ملازمت کر چکی ہیں۔

کنزرویٹو کے نئے ممبر پارلیمان عمران احمد کا تعلق ویکفیلڈ سے ہے۔ انھوں نے سنہ 2019 کے انتخابات میں لیبر کی میری کریگ کو 3358 ووٹوں سے شکست دے کر تاریخ رقم کی ہے۔ ویکفیلڈ کی سیٹ لیبر پارٹی کے پاس سنہ 1932 سے تھی اور اس پر لیبر پارٹی کے امیدواران گذشتہ 87 برسوں سے جیتتے آ رہے تھے۔

عمران احمد نے جیتنے کے بعد کہا کہ ’جو پہلی چیز ہمیں کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ویکفیلڈ کے لوگوں کا اعتماد برقرار رہے اور بریگزٹ کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔

بورس جانسن کی کابینہ کے چانسلر آف دی ایکسچیکر اور سابق وزیرِ داخلہ ساجد جاوید اپنی برومزگرو کی نشست 23 ہزار سے زائد ووٹوں کی بڑی برتری سے جیت کر ایک مرتبہ پھر ممبر پارلیمان بن گئے ہیں۔

انھوں نے 34408 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے لیبر پارٹی کے حریف 11302 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے۔

ساجد جاوید نے 34408 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے حریف کو صرف 11302 ووٹ ملے

ساجد جاوید پہلے ایشیائی نژاد برطانوی تھے جو برطانیہ میں حکومت کے اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ انھیں بورس جانسن کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ آنے والی کابینہ میں بھی وہ کسی اہم عہدے پر فائز ہوں گے۔

ساجد جاوید کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ لنکا شائر کے علاقے راشڈیل میں پیدا ہوئے تھے۔

سیاست سے پہلے ان کا تعلق بینکاری کے شعبے سے تھا اور وہ ڈوشے بینک کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔

کنزرویٹیو کے گلینگہم اور رینہم حلقے سے جیتنے والے پاکستانی نژاد رحمان چشتی کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے جہاں وہ اس کے دارالحکومت مظفر آباد میں پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے 28 ہزار سے زائد ووٹ لے کر لیبر پارٹی کے اینڈی سٹمپ کو شکست دی جو صرف 13054 ووٹ حاصل کر پائے۔

رحمان چشتی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں پیدا ہوئے تھے

رحمان چشتی پہلے بھی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ سنہ 2010 میں گلینگہم اور رینہم سے ممبر پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔

وہ برطانیہ کے مذہب اور عقائد کے خصوصی مشیر اور کنزرویٹو پارٹی کے برادریوں کے وائس چیئر بھی رہے ہیں۔ چشتی پاکستان کے لیے برطانوی وزیرِ اعظم کے تجارتی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔

برمنگھم کے نزدیک میریڈیئن کے حلقے سے کنزرویٹو پارٹی کے ثاقب بھٹی نے 34358 ووٹ حاصل کر کے لیبر کی ٹریزا بیدیز کو شکست دی۔ ٹریزا صرف 11522 ووٹ حاصل کر پائیں۔

ثاقب پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور گریٹر برمنگھم چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

Exit mobile version