گزشتہ جمعہ کی سہ پہر میں نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے تیار کردہ بجٹ کو حماد اظہر کی زبانی اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھ کر ٹی وی کے ذریعے سنا۔ معاشیات کے علم کی بابت قطعی جاہل مجھ جیسے شخص کو اعدادوشمار کی بنیاد پر اٹھائی کہانی سمجھ ہی نہیں آئی۔حماد اظہر کی پڑھی ایک گھنٹہ لمبی تقریر کو سنتے ہوئے البتہ کئی بار ’’سوت نہ کپاس کولہوسے لٹھم لٹھا‘‘ والا محاورہ یاد آتا رہا۔
پاکستان ٹیلی وژن کو میسر جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اپوزیشن کی جانب سے اٹھایا شورشرابہ گھروں میں موجود ناظرین کو سنائی ہی نہ دیا۔کیمرہ بھی حماد اظہر پر ہی فوکس رہا۔کبھی کبھار اضافی کیمرے کے ذریعے ’’پیشہ وارانہ تقاضوں‘‘ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ذہن کوتھکاتی ’’ایک ہی تصویر‘‘ سے توجہ ہٹانے کے لئے لانگ شاٹس اور Panکی سہولت استعمال کرتے ہوئے ایوان کا ’’عمومی منظر‘‘ اگرچہ دکھایا جاتا رہا۔اپوزیشن بنچوں کی جانب مگر یہ کیمرہ رُخ ہی نہیں کرپایا۔ تاثر یہ اجاگر ہوا کہ وزیر اعظم سمیت ایوان میں موجود تمام اراکین بھرپور توجہ سے حماد اظہر کا خطاب سن رہے تھے۔ بجائے فکر مند ہونے کے وہ مطمئن تھے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود IMFکے فراہم کردہ ٹیکنوکریٹس نے نیا بجٹ تیار کرتے ہوئے کوئی ’’نیا ٹیکس‘‘ نہیں لگایا ہے۔یہ فراخدلی برتنے کے باوجود بہت اعتماد سے یقین دلایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے اختتام پر ملک میں شرح نمودو سے اڑھائی فی صد شمار ہوگی۔ گزرے مالیاتی برس میں ہم منفی سے نیچے پھسل گئے ہیں۔کرونا کو اس پستی کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
کسی زمانے کے چیکوسلاوکیہ سے ایک ناول نگار اُبھرا تھا۔نام ہے اس کا میلان کندیرا۔ ’’باغیانہ تحریروں‘‘ کی وجہ سے اسے اپنا وطن چھوڑنا پڑا تھا۔وہ فرانس میں پناہ گزین ہوا معرکتہ الآرا ناول لکھتا رہا۔ اس کے ایک ناول کا عنوان ہے:”The Book of Laughter and Forgetting”۔اس کے ذریعے کندیرا نے بنیادی پیغام یہ دیا کہ ہم جیسے ممالک کی سیاسی اشرافیہ نہایت ڈھٹائی سے جی کو خوش رکھنے والی کہانیاں پھیلانے میں اس لئے کامیاب رہتی ہے کیونکہ عوام کی اجتماعی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ وہ روزمرہّ مسائل میں جکڑے فقط ’’حاضر‘‘ پر توجہ مبذول رکھنے کو مجبور ہوتے ہیں۔
ڈاکٹرحفیظ شیخ اور ان کے ہم نوائوں کو یادہی نہیں رہا کہ IMFسے 6ارب ڈالر کی رقم حاصل کرنے کی خاطر گزشتہ سال جو بجٹ تیار ہوا تھا اس کے اطلاق نے کرونا کی آمد سے قبل ہی ہماری چیخیں نکلوادی تھیں۔ سرمایہ کار بلبلارہے تھے کہ بینکوں سے لئے قرض پر جو شرح سود لگائی گئی ہے اس کے ہوتے ہوئے کاروبار پھیلانا ممکن نہیں رہا۔ روزگار بڑھنے کے بجائے تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں نے متوسط طبقے اور خاص کر تنخواہ داروں کو اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کی فکر میں مبتلا کردیا۔کرونا تو بجٹ تیار کرنے سے تین ماہ قبل نمودار ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے جو نیم دلانہ لاک ڈائون متعارف کروایا گیا اس کا مؤثر اطلاق دو ماہ سے زیادہ نظر نہیں آیا۔محض کرونا کو ملک کی معاشی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانا قطعاََ ناانصافی ہے۔ غلط بیانی ہے۔
تسلیم کرلیتے ہیں کہ مجھ جیسے علم معاشیات سے قطعی بے خبر صحافی شعور کی اس بلندی سے دُنیاوی مسائل پر غور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیںجو ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ان کے ہم نوائوں کو نصیب ہوئی ہے۔ ہمارے ذہن ’’لفافہ صحافت‘‘ کی وجہ سے بھی گمراہ ہوچکے ہیں۔جان کی امان پاتے ہوئے مگر یاد کرنے کو مجبور ہوں کہ بجٹ پیش ہونے سے چند ہی روز قبل وزیر اعظم عمران خان صاحب ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے تھے۔قوم سے براہِ راست گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اصرار کیا کہ کرونا وطن عزیز میں جو تباہی پھیلارہا ہے اس کے حقیقی اثرات کا اندازہ جولائی گزرنے کے بعد اگست کے وسط تک ہی لگایا جاسکتا ہے۔کرونا ہی اگر ہماری معاشی مشکلات کا واحد سبب ہے تو اس کے حتمی اثرات کا ٹھوس تخمینہ لگائے بغیر ہم کس بنیاد پر اپنی شرح نمو کو منفی سے دو سے اڑھائی فی صد تک لے جانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟
فقط کرونا ہی ہماری مشکلات کا واحد سبب ہوتا تو مجھ جیسا جاہل اور بدعنوان صحافی شاید اپنا منہ بندرکھتا۔گزشتہ ہفتے مگر ایک نہیں دو بار خوراک کے امور پر نگاہ رکھنے والے وزیر سید فخرامام قومی اسمبلی میں کھڑے ہوئے تھے۔محض اپوزیشن اراکین ہی نہیں حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی معزز اراکین بھی وہاں ٹڈی دل کے تباہ کن اثرات کی بابت دہائی مچارہے تھے۔فخر امام ایک باوقار شخص ہیں۔ روایتی سیاست دانوں کی طرح جھوٹ پر مبنی تسلیاں دینے کے عادی نہیں۔ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے حقائق بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ انتہائی فکر مند لہجے میں قوم کو متنبہ کرتے رہے کہ جون کے آخری دنوں میں افریقہ کے صحرائوں میں پلتا ٹڈی دل ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوسکتا ہے۔پاک فوج کے 8ہزار جوان ہمہ وقت ہمارے یار چین کی فراہم کردہ ادویات کو ٹڈی دل کے ممکنہ اہداف تصور ہوتے لاکھوں ایکڑ اراضی تک پھیلے رقبوں پر سپرے کررہے ہیں۔ان کی کاوشوں کے باوجود فی الوقت اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ ٹڈل دل کس شدت کے ساتھ ہماری زمینوں پرحملہ آور ہوگا۔بارہا وہ اس خدشے کا اظہار بھی کرتے رہے کہ ٹڈی دل اگر بے قابو ہوگیا تو پاکستان کے چند علاقوں میں اس کے جھرمٹ ایک ایسے بادل کی صورت اختیار کرسکتے ہیں جس کا حجم ماسکو شہر کے برابر ہوگا۔ دُنیا کا نقشہ کھول کر ماسکو شہر کا پھیلائو دیکھ لیں۔اس کے برابر ٹڈی دل کا جھرمٹ ذہن میں لائیں تو دل خوف سے کانپ جاتا ہے۔فقط ربّ کریم سے رحمت کی دُعا ہی مانگی جاسکتی ہے۔
کرونا کا حملہ جاری ہے۔ٹڈی دل اس مہینے کے اختتامی دنوں میں ہمارے ہاں آنے کی تیاری کررہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی محکمہ موسمیات والے یہ بتانا بھی شروع ہوگئے ہیں کہ رواں برس کے ساون بھادوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوسکتی ہیں۔بے موسم کی بارشوں نے گندم جیسی فصلوں کو پہلے ہی کافی نقصان پہنچایا ہے۔معمول سے ہٹاساون بھادوں نجانے کیا قیامت ڈھائے گا۔ہمارے لئے مگر ’’گھبرانا نہیں‘‘کا حکم ہے خود کو ’’محب وطن‘‘ ثابت کرنے کے لئے بھی ضروری ے کہ سرجھکا کر تسلیم کرلیا جائے کہ آئندہ مالیاتی سال کے اختتام پر ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب اپنی ذہانت سے IMFکی رہ نمائی میں پاکستان کی معیشت کو منفی پستی سے اُٹھاکر مثبت راہوں پر چلاتے ہوئے شرح نمو کو دوسے اڑھائی فی صد تک لے جائیں گے۔
’’محض کرونا‘‘ کی بدولت پاکستان کی شرح نمو پر نازل ہوئی پستی ہماری معیشت پر 68سال بعد نظر آئی ہے۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار ایسی بدحالی 1951-52کے مالیاتی سال کے اختتام پر نظر آئی تھی۔قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کے راولپنڈی میںقتل کے بعد یہ پستی نمودار ہوئی تو ملک کا حقیقی انتظام وانصرام انگریز کی سدھائی افسر شاہی کے ملک غلام محمد جیسے ’’جید‘‘ افسران کے سپرد ہوگیا۔ہماری معیشت کو’’سنبھالنے‘‘ کے لئے ان کی ذہانت سے سردجنگ کے ابتدائی ایام ہی میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوکر کمیونسٹ روس کو تباہ برباد کرنے کا تہہ کرلیا گیا۔
قائد اعظم کی رحلت کے ایک برس بعد امریکہ کے فوجی کمانداروں Joint Chiefs of Staffکی پالیسی سازی میں معاونت پر مامور ایک کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر کو تحفظ دینے اور وسطی ایشیاء میں کمیونسٹ ریاستوں پر ممکنہ فضائی حملوں کے لئے پاکستان میں فوجی اڈے درکار ہوں گے۔ پاکستان کو فوجی اڈوں کی فراہمی پر رضامند کرنے کے لئے ’’اقتصادی امداد‘‘ دینا ہوگی۔ اس تصور کے تحت نام نہاد ’’بغداد پیکٹ‘‘ ہوااور پاکستان ترکی اور ایران سمیت ’’سینٹو(Cento)‘‘کے نام پر بنے فوجی اتحاد کا حصہ بن گیا۔اس اتحاد کے خلاف عراق میں فوجی بغاوت ہوئی۔اس کی ’’سامراج دشمن‘‘ کہانی صدا م حسین تک چلی۔مصر میں جمال عبدالناصر نمودار ہوا۔
ہمارے ہاں مگر فیلڈمارشل ایوب خان نے 1958کے ’’انقلاب‘‘ کے ذریعے ’’بنیادی جمہوریت‘‘ پر مبنی ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے قیام کا عمل شروع کردیا۔1951-52کے مالیاتی سال میں نمودار ہوئی منفی شرح نمو نے پاکستان سے مصر تک پھیلے خطے میں جو مناظر تخلیق کئے تھے،اب تاریخ ہیں۔یقین مانیں 2019-20کے مالیاتی سال کے اختتام پر ہمارا مقدر ہوئی منفی شرح نمو ایک نئی تاریخ مرتب کرنے جارہی ہے۔کاش میرا کوتاہ خیال ذہن آئندہ تاریخ کے ممکنہ خدوخال کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوتا۔