مستقبل طے شدہ ہے، مگر ہمیں معلوم نہیں
ہماری کہکشاں کے پہلو میں جو قریب ترین کہکشاں ہے اُس کا نام ہم نے اینڈرومیڈا گلیکسی رکھا ہوا ہے، ستاروں کا یہ جھرمٹ زیادہ نہیں فقط پچیس لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔میں نے خود تو کوئی تجربہ نہیں کیا البتہ سنا ہے کہ جس دن فضا صاف ہو، آسمان پر نگاہ پھسلتی جاتی ہو، آلودگی کم ہو تو اِس کہکشاں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اِس کہکشاں کو ’دیکھنے‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو روشنی وہاں سے پھوٹ رہی ہے وہ پچیس لاکھ سال بعد ہم تک پہنچی ہے۔ عین ممکن ہے کہ جب ہم اِس کہکشاں کا نظارہ کر رہے ہوں تو اُس کا وجود ختم ہو چکا ہوکیونکہ لمحہ موجود میں ہونے کے باوجود ہم اس کہکشاں کو پچیس لاکھ سال ماضی میں دیکھ رہے ہیں۔یعنی ہمار ے ’وقت‘ کے حساب سے اینڈرومیڈا گلیکسی ابھی ’موجود‘ ہے مگر اِس بات کا امکان موجود ہے کہ ’حقیقت‘ میں فنا وہ ہو چکی ہو۔اینڈرومیڈا گلیکسی کے حوالے سے ایک بہت دلچسپ ’پیرا ڈوکس‘ بھی سائنس دانوں نے تخلیق کیا ہے۔ پیرا ڈوکس کا سیدھا سا ترجمہ فدوی کے نزدیک تو معمہ ہے مگر کچھ بزرگ باراں دیدہ اسے ’تضاد امری‘ بھی کہتے ہیں۔بہر کیف،فرض کریں کہ اینڈرو میڈا گلیکسی پر ایک بے حد ترقی یافتہ مخلوق بستی ہے اور یہ مخلوق فیصلہ کرتی ہے کہ زمین پر چونکہ ہم انسانوں نے خواہ مخواہ ہڑبونگ مچا کر کائنات کا آہنگ برباد کر رکھا ہے تو بہتر ہے کہ اِن پر حملہ کرکے نیست و نابود کر دیا جائے۔فیصلے پر عمل درآمد کی غرض سے وہ مخلوق اپنی فوجیں چوبیس گھنٹے کے بعد زمین کی جانب بھیجے گی۔اب یاد رہے کہ آئن سٹائن کے خصوصی نظریہ اضافیت کی رُو سے زمان و مکان ’اضافی‘ یعنی relativeہیں۔ مطلب یہ کہ کسی شخص کے ساکن اور حرکت میں ہونے کا انحصار اِس بات پر ہے کہ اُس کا مشاہدہ کہاں سے کیا جا رہا ہے۔اسی طر ح وقت بھی اضافی ہے،مثلاً روشنی کی رفتار کے قریب سفر کر نے والے کے لیے وقت سست پڑ جاتا ہے۔سو،اِس نظریے کے مطابق اگر زمین پر کوئی ریل گاڑ ی تیزی سے حرکت کرتی ہوئی پلیٹ فارم پر ساکن کھڑے شخص کے پاس سے گذررہی ہو تو بوگی میں بیٹھے مسافروں کے حساب سے اینڈرومیڈا گلیکسی والے ابھی زمین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے مرحلے میں ہیں جبکہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر نان کباب کھانے والے شخص کے حساب سے فوجیں اُس کہکشاں سے زمین کی جانب چل پڑی ہیں۔یعنی ایک وقوعہ بیک وقت پیش بھی آ چکا ہے اور نہیں بھی پیش آیا۔گویا مستقبل دیکھ بھی لیا گیا ہے اور حال سے گذرے بھی نہیں۔اسے اینڈرومیڈا کہکشاں کا معمہ کہتے ہیں۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کا وقت اور مقام چونکہ relativeہے اِس لیے کسی بھی طرح کا کوئی ماضی، حال اور مستقبل وجود نہیں رکھتا یا یوں کہیے کہ ماضی، حال اور مستقبل ’بیک وقت‘ وجود رکھتے ہیں، ہم ایک ایسی کائنات میں زندہ ہیں جہاں تمام واقعات جو پیش آ چکے ہیں یا پیش آنے والے ہیں،سب ایک ساتھ متوازی چل رہے ہیں، ہم لوگ جو گھڑیاں اور کیلنڈر دیکھ کر وقت کا حساب لگاتے ہیں وہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ کائنات میں ہونے والے کسی واقعے کے وقت کا تعین کرنے کا انحصار اِس با ت پر ہے کہ اِس واقعے کا مشاہدہ کرنے والا کس زمان و مکان میں ہے اور خود کس رفتار سے اور کس سمت میں حرکت کر رہا ہے۔یہ بات اگر درست مان لی جائے،اور یہ درست ماننے پڑے گی،کیونکہ ابھی تک آئن سٹائن کی تھیوری کو سائنسی طور پر رد نہیں کیا جا سکا،تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مستقبل نام کی کوئی چیز اُس لحاظ سے وجود نہیں رکھتی جیسے ہم سمجھتے ہیں،اور اگر مستقبل وجود رکھتاہے تو پھر وہ کائنات میں کہیں نہ کہیں وجود میں بھی آ چکا ہے۔
آپ کی طرح میرے لیے بھی یہ بات بہت عجیب ہے کہ ہمارامستقبل طے شدہ ہے۔ آخر ہم صبح شام اپنی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں، یہ فیصلے مختلف نتائج کے حامل ہوتے ہیں، اِن نتائج کے اثرات ہماری زندگیو ں پر مرتب ہوتے ہیں، اِن سے ہماری زندگیوں میں مثبت یا منفی تبدیلیاں آتی ہیں اور پھراِن تبدیلیوں کی مسرت یا اذیت ہمیں حقیقت میں محسوس بھی ہوتی ہے۔اینڈرومیڈا گلیکسی میں بسنے والی مخلوق چاہے کوئی بھی فیصلہ کرے،اُن کی فوجیں پچیس لاکھ نوری سال بعد پہنچیں یا نہ پہنچیں، ہماری صحت پر اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمیں تو اِس سے فرق پڑتا ہے کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہے یا نہیں، ہم کسی بیماری کا شکار تو نہیں ہوں گے، ہمارے پیاروں کا نام لا پتہ افراد کی فہرست میں تو شامل نہیں ہوگا، ہم کسی سانحے میں بے بسی کی موت تو نہیں مر جائیں گے! سائنسی تھیوریاں اور نت نئے فلسفے ہمارے ذہنوں پر خراشیں تو ضرور ڈالتے ہیں مگر کیا ایسی بحثوں سے حقیقی غموں اور تکالیف سے نجات پائی جا سکتی ہے؟اپنے لا پتہ بھائیوں کے لیے در بدر ٹھوکریں کھانے والی بہن کو کیا اِن تھیوریوں اور فلسفوں سے بہلایا جا سکتا ہے کہ مبارک ہو مستقبل کا کوئی وجود نہیں یا وہ طے شدہ ہے، جبر و قدر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے، تم گھر جاکر سکون سے جاؤ، نظریہ اضافت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وقت صرف واہمہ ہے، تمہارے بھائی کائنات میں اگر کہیں ہوئے تو مل جائیں گے اور اگر خدا نخواستہ نہ ہوئے تو بھی تمہیں ملال نہیں ہونا چاہیے کیونکہ لمحہ موجود سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔سائنس اور فلسفے کی یہ حیران کُن تھیوریاں مجھے بہت متاثر کرتی ہیں، میرا محبوب مشغلہ آج کل اسی قسم کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے، مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی دماغ میں کلبلا تا ہے کہ ایسے لچھے دار اور پُر مغزتصورات سے مصیبت کے مارے انسانوں کا کیا بھلا ہو رہا ہے،کہیں ایسے فلسفے بھگار کر ہم افتادگان خاک کے زخموں پر نمک تو نہیں چھڑک رہے، آخر اِن تھیوریوں کا ہماری حقیقی زندگی سے کیا لینا دینا؟اگر کسی خلائی مخلوق نے ہمارا مستقبل طے کر ہی دیا ہے تو اب اس سے چھٹکارہ کیوں کر ممکن ہے؟
معاملہ اتنا سادہ نہیں۔سائنس، مذہب، فلسفہ، اخلاقیات، معاشیات، نفسیات، یہ تمام علوم بظاہر جدا جدا ہیں مگر اصل میں یہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور اِن میں ایک خاص ربط ہے۔ ایک شعبے کی تحقیق کسی نہ کسی انداز میں دوسرے علوم پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔مثلاً میڈیکل سائنس کی ترقی سے انسانی کے موذی امراض کا علاج سہل ہو گیا ہے، نتیجتاً انسانوں کی عمریں طویل ہو گئی ہیں، اسی طرح سائنس کی مادی ترقی سے اقوا م نے خوشحالی کی منازل طے کیں
جس کے براہ راست ثمرات انسانوں نے سمیٹے۔معاشیات،نفسیات اور اخلاقیات کے نئے اصول بھی انسانوں نے وقت کے ساتھ وضع کئے جن کی مدد سے غربت،ظلم اور جبر میں کمی واقع ہوئی،گو کہ ہنوز دلی دور است۔جہاں تک زمان و مکان اور فلسفے کی اِن دقیق تھیوریوں کا تعلق ہے تویہ مباحث دراصل ہماری توجہ اُن لا محدود امکانات کی طرف دلاتے ہیں جن کی طرف سے ہم نے آنکھیں موند رکھی ہیں یا اُن پر بحث کرنے سے کچھ ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جوا ب تلاش کرنے کے لئے بہت سے بُت گرانے پڑتے ہیں۔غیر عقلی ’دلائل‘ کو رد کرنے لیے ضروری ہے کہ سائنس اور فلسفے کی اِن گتھیوں پر بحث کی جائے،ذہنوں کو کھنگال کے دیکھا جائے کہ کہیں ہم کنوئیں کے مینڈک تو نہیں جو کنوئیں کو ہی کُل کائنات سمجھ بیٹھے ہیں۔جب ایک مرتبہ ہم یہ بات تسلیم کر لیں گے کہ اِس کنوئیں کے باہر ایک اینڈرومیڈا گلیکسی بھی ہے تو ہمارے سوچنے کا پیمانہ بدل جائے گا۔ یہی کافی ہے۔بس اتنا ہی چراغ روشن کرنا ہے۔روشنی جتنی زیادہ ہوگی، اندھیرا اتنا ہی کم ہوگا، اندھیرے میں ظلم جنم لیتا ہے، لا پتہ افراد کی تعداد بڑھتی ہے۔اینڈرومیڈا گلیکسی سے تو روشنی پچیس لاکھ برس میں پہنچ ہی جاتی ہے، ہم تک علم اور انصاف کی روشنی نہ جانے کب پہنچے گی!