’اسلام بمقابلہ اسلام‘
تاریخ کا معاملہ عجیب ہے۔ ہر کسی کی حمایت میں کھڑی ہو جاتی ہے۔
اب اسی سوال کو دیکھیے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ آج تک یہ بحث جاری ہے اور اب اس میں اسلامی سوشلزم کا قصہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ اسلامی ریاست، سیکولرزم، اسلامی سوشلزم، ان سب تصورات پر ایک سے زائد بار سیر حاصل بحث ہو چکی لیکن طبیعتیں ابھی سیر نہیں ہوئیں۔ آج بھی سب کا یہ دعویٰ ہے کہ تاریخ ان کی ہم نوائی میں کھڑی ہے۔
تاریخی بحثیں کیوں زندہ ہوتی ہیں؟ عموماً اس کے دواسباب ہوتے ہیں۔ ایک‘کوئی محقق ماضی کے کھنڈرات سے ایسی شہادت دریافت کرلاتا ہے جو مروجہ تاریخی تعبیرات کی نفی کرتی ہو۔ دوسرا‘ علوم کاعصری تناظریاواقعات، سوچ کا ایک نیازاویہ اجاگرکردیتے ہیں۔ دوسری ضرورت موقع فراہم کرتی ہے کہ تاریخی واقعات کی تفہیمِ نو کریں۔ تاریخِ پاکستان اور افکارِ قائد کے باب میں اگر اس بحث کا بار بار احیا ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔
مجھے اس سوال کے احیا کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے، وہ دورِ جدید میں ایک نظریاتی ریاست کا جواز ہے۔ سوویت یونین کا خاتمہ اور ایران کا انقلاب، ایک سال میں دو اہم واقعات ہیں۔ ایک طرف ایک نظریاتی ریاست کا چراغ گل اور دوسری طرف ایک نظریاتی مملکت کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے نے ایک نظریاتی ریاست کے جواز کو چیلنج کر دیا اور ایران کے انقلاب نے ایسی ریاست کو جواز بخشا۔
کئی سال نظریاتی ریاست کے جواز اور عدم جواز کی بحث میں گزر گئے۔ یہاں تک کہ ایرانی انقلاب کے نتائج بھی لوگوں نے بچشمِ سر دیکھ لیے۔ ایران کا تجربہ، نتائج کے اعتبار سے سوویت یونین سے مختلف ثابت نہیں ہوا۔ اس دوران میں سرمایہ دارانہ نظام دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ وہ انسان کی حرص و طمع اور آگے بڑھنے کی خواہش کا فطری جواب ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام، کسی نظریاتی تشکیل کا نتیجہ نہیں۔ یہ کسی آدرش کے بجائے، انسانی نفسیات کے مادی تجزیے کا حاصل ہے۔ آدم سمتھ جیسوں نے معیشت کے ساتھ وہی کچھ کیا جو میکیاولی نے سیاسیات کے ساتھ۔ اقتدارکی انسانی خواہش کوکیسے امرِ واقعہ بنایا جاسکتا ہے؟ میکیاولی نے اس کا جواب دیا ہے۔ مال جمع کرنے کے خواب کی تعبیر کیاہوسکتی ہے؟ آدم سمتھ نے اسکا جواب دیا ہے۔ انسان کو اگر اخلاقی وجود ماننے سے انکار کر دیا جائے تو یہ دونوں سوالات فطری ہیں۔ اخلاقی قدروں سے بے پروا ہو کر، اکثریت نے دونوں کو اپنا امام مان لیا۔
جب دنیا میں یہ بڑی تبدیلیاں آ رہی تھیں تو پاکستان بھی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا۔ ایک طرف اشتراکیت پسندوں میں مایوسی کا غلبہ تھا اور دوسری طرف اسلام پسندوں میں جوش کا وفور تھا۔ وہ بزعمِ خویش یہ خیال کر رہے تھے کہ سوویت یونین کا خاتمہ دراصل ان کا کارنامہ ہے۔ اس پر مستزاد ایرانی انقلاب۔ یوں پاکستان میں اسلامی انقلاب کے داعی مضبوط ہوئے اور اشتراکیت پسندوں کو نظریاتی محاذ پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
سوویت یونین کے خاتمے سے اسلام پسندوں کو جو فائدہ پہنچ سکتا تھا، جنرل ضیاالحق نے اسے اپنے شخصی اقتدار کے لیے خاص کر لیا۔ یوں اسلام پسندوں کے حصے میں بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ جو زیادہ جذباتی تھے، انہوں نے عسکریت پسند تنظیموں کا رخ کیا اور جو قدرے معتدل تھے، انہوں نے خاموشی اختیار کر لی یا سابقہ روش پر چلتے رہے۔ اشتراکیت پسندوں نے لبرل ازم کا لبادہ اوڑھ لیا اور سول سوسائٹی کی پناہ گاہ کا رخ کیا۔ یہ پناہ گاہ بھی دراصل سرمایہ داری ہی کی ایک کالونی ہے۔
خواب کا معاملہ مگر یہ ہے کہ مرتا نہیں۔ یہ بات کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، کبھی مرا نہیں۔ تاہم اشتراکیت اور ‘سیاسی اسلام‘ کی ناکامی نے نظریاتی ریاست کا مقدمہ اتنا کمزورکر دیا کہ عملاً اس کی افادیت باقی نہیں رہی۔ اس باب میں بحث کا ایک زاویہ البتہ ایسا ہے جو افکارِ قائد سے جڑا ہوا ہے۔یوں اس سوال کی افادیت باقی ہے۔
مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک نے جس طرح اس سوال کو موضوع بنایا اور اس کے ہمہ جہتی پہلوئوں کو اجاگر کیا، ہمارے قومی لٹریچر میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ چند ماہ پہلے، اس موضوع پر ان کی نئی انگریزی کتاب شائع ہوئی ہے ”اسلام بمقابلہ اسلام‘‘ (Islam versus Islam) اس کا ذیلی عنوان ہے ‘پاکستان میں نظریاتی تصادم (1947-1977)‘۔ یہ ملک صاحب کے پرانے مضامین ہیں لیکن ان کی فکری تازگی برقرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس جاری بحث میں اس کتاب کی اہمیت کیا ہے؟
ملک صاحب کا مقدمہ دو نکات پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ قائد اعظم بھی ایک اسلامی ریاست چاہتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد علما بھی یہی چاہتے ہیں؛ تاہم قائد کا تصورِ ریاست علما سے مختلف ہے۔ دوسرا یہ کہ قائد اعظم کا تصورِ ریاست روایتی علما کے ساتھ، ان جاگیرداروں اور سیاست دانوں کے مفادات سے بھی متصادم تھا جو اس نئی مملکت کو اپنے مفادات کی آبیاری کا مسکن بنانا چاہتے تھے۔ ان گروہوں نے نظری اور سیاسی محاذوں پر، عسکری و غیر عسکری مقتدرہ کے تعاون سے، اس طرح قبضہ جمایا کہ قائد اعظم کا تصورِ ریاست کبھی واقعہ نہ بن سکا۔ ملک صاحب کے خیال میں، جن علما نے تحریکِ پاکستان کا ساتھ دیا، وہ بھی نظری طور پر روایتی علما ہی کے ہم خیال تھے جنہوں نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اِن علما نے علما کے دوسرے گروہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے، اسلام کے نام پر کچھ غیر اسلامی مطالبات حکومت کے سامنے رکھے۔ 1948ء میں مولانا شبیر احمد عثمانی کی رہائش گاہ پر علما کا ایک اجلاس ہوا جس میں ایک نیم خود مختار وزارتِ مذہبی امور کا خاکہ ترتیب دیا گیا۔
13 جنوری 1948ء کو جمعیت علمائے اسلام کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور ہوئی۔ اس میں حکومتی سطح پر شیخ الاسلام کے عہدے کا مطالبہ کیا گیا‘ جس پر کسی معروف عالم کو تعینات کیا جائے۔ اس منصب کو قاضیوں کے باب میں وزارتی اختیارات حاصل ہوں۔ ملک صاحب کا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے ایک گروہ نے ان علما کو مطمئن کرنے کے لیے بورڈ تعلیماتِ اسلامی اور اسلامی ایڈوائزری کونسل جیسے ادارے بنائے۔ جواباً علما نے بطور اظہارِ تشکر اسلام کی ایسی تعبیر پیش کی جس میں نجی ملکیت اور وراثتی و جاگیردارانہ مفادات کو تحفظ دیا گیا۔ اس طرح اسلامی ریاست اور اسلامی طرزِ حیات جیسے تصورات تنازعات کی نذر ہو گئے۔
ملک صاحب نے ڈاکٹرجاوید اقبال پرتنقید کی ہے جنہوں نے ایوب خان کی خواہش کے زیرِاثر نظریہ پاکستان کی تعریف کی‘پھر اسلام پرامریکی سامراجیت کی مہرلگائی۔ اور اشتراکیت کیخلاف پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ خلیفہ عبدالحکیم کی ‘اسلامک آئیڈیالوجی‘ پر اظہارِافسوس کرتے ہیں۔ وہ مسلم لیگ کی داخلی سیاست کے تضادات کو بھی نمایاں کرتے ہیں جن کے نتیجے میں پارٹی کے دروازے، ترقی پسندوں کیلئے بند کر دیے گئے۔
پاکستان کی نظریاتی ساخت کے باب میں جاری بحث کا یہ وہ زاویہ ہے جس پر کم بات ہوئی۔ ایک گروہ نے قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور دوسرے نے یہ ثابت کرنے پہ اپنی توانائی صرف کر ڈالی کہ قائد اعظم ویسی اسلامی ریاست چاہتے تھے، جس کا تصور علما یا مولانا مودودی نے پیش کیا۔ پروفیسر فتح محمد ان دونوں باتوں کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں قائد اعظم اسلامی ریاست چاہتے تھے لیکن یہ تصور، فکرِ اقبال سے پھوٹا ہے نہ کہ روایتی یا کسی دوسرے فہمِ اسلام سے۔
بحث یہاں پہنچی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ علامہ اقبال کا تصورِ ریاست کیا تھا؟ ملک صاحب اپنی کتابوں میں اس سوال کو بھی موضوع بناتے ہیں لیکن، اس کا مطالعہ کسی دوسرے کالم میں۔