جنسی مسائل کا علاج کرنے والے دیگر سیکس تھراپِسٹ کی طرح پیٹر سیڈنگٹن کی اپنے مریضوں سے گفتگو ہمیشہ خفیہ رہتی ہے اور وہ ان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیں گے۔
اپنےمریضوں کی جو کہانیاں وہ مندرجہ ذیل تحریر میں بیان کر رہے ہیں ان کی بنیاد نوجوان افراد کے ساتھ سالہا سال سیکس تھیراپسٹ کے طور پر ان کے کام سے متعلق ہیں۔
میں نے ان افراد سے ان کے بہت ہی ذاتی قسم کے رازوں پر ان سے بات چیت کی، لیکن وہ میرے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، اور یہ تعلق ایسا ہی ہونا چاہیے۔
میں ایک سیکس تھیراپِسٹ ہوں، اس لیے لوگ میرے پاس عضوِ تناسل، ایریکٹائل ڈسفنکشن یا ایستادگی کی قوت سے محروم لوگوں سے لے کر ویجائینسمس یعنی وہ بیماری جس میں عضوِ تناسل کے دخول کے وقت اندامِ نہانی سُکڑ جاتی ہے، جیسے مسائل کا علاج کرانے آتے ہیں۔
اگر علاج کے لیے آنے والا کوئی شخص یہ پوچھے کہ ‘کیا میں شادی شدہ ہوں’ تو میں ان سے کہتا ہوں کہ جی ہاں، کیونکہ ان سے یہ چھپانا عجیب بات ہوگی، لیکن اس سے آگے میں ہر بات پیشہ ورانہ حدود کے اندر رکھتا ہوں۔ میں ان لوگوں سے ایک معالج یا تھیراپِسٹ کی طرح گفتگو کرتا ہوں، نہ کہ ایک دوست کی طرح۔
ظاہر ہے کہ آپ کی اپنے چند مریضوں کے ساتھ ایک خاص قسم کی اُنسیت پیدا ہوجاتی ہے، لیکن یہ تعلق اس علاج کے دور کی حد تک رہتا ہے جسے زیرِ علاج افراد کو اپنی بیماری پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
میں جس کلینک میں کام کرتا ہوں، اس میں وہ کمرہ جہاں علاج کیا جاتا ہے ایک گھر کی عام سی بیٹھک جیسا ہے لیکن اس گھر میں رہتا کوئی نہیں ہے۔ اس کمرے میں تین آرام دہ کرسیاں ہیں، ایک میرے لیے اور دو علاج کے لیے آنے والوں کے لیے۔
میں نے اس کمرے میں اپنے خاندان کی تصویر یا ذاتی نوعیت کی کوئی شہ نہیں سجائی ہوئی، ایسا اس لیے کہ میں اپنے زیرِ علاج افراد سے ایک فاصلہ بھی رکھ سکوں۔
میں انفرادی مسئلہ بھی دیکھتا ہوں اور جوڑوں کا علاج بھی کرتا ہوں، کیونکہ ایک فرد کو بھی علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے اور ایک جوڑے کو بھی جس میں سے کوئی ایک علحیدگی میں بھی بات چیت کرنا چاہتا ہو۔
چند برس پہلے ایک 29 برس کا روب نامی مرد مجھ سے اکیلا ملنے آیا کیونکہ اسے اپنی نئی اور خود سے زیادہ تجربہ کار خاتون دوست کے ساتھ اپنی جنسی کارکردگی پر پریشانی ہو رہی تھی۔ وہ اپنے علاج کے دوران اپنی دوست کو شریک نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اسی پریشانی کی وجہ سے اپنے آپ سے شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔
علاج کے ایک سیشن کے دوران میں نے روب سے پوچھا کہ اگر کیلی (اس کی دوست) کم تجربہ کار ہو تو کیا اسے اچھا محسوس ہوگا، میں نے اُس سے ایک دوسرے کی تجربے کاری کے کردار بدلنے کے بارے میں سوال کیا۔ اس نے جواب دیا بے شک، اور پھر ساتھ ہی اسے محسوس ہونے لگا کے وہ ایک معمولی سی بات پر کتنا زیادہ پریشان ہو رہا تھا۔
اس کے بعد اس نے اگلے سیشن میں اپنی دوست کو بھی شامل کرلیا۔ جیسے ہی کیلی نے بھی علاج کے سیشنز میں حصہ لینا شروع کیا روب کا خود میں اعتماد بحال ہونا شروع ہوگیا۔
جس بات نے مدد کی وہ اس کا اپنی ناتجربہ کاری کی پریشانی کے بارے میں ایماندار ہونا تھا، نہ کہ یہ اداکاری کرنا کہ وہ تو بہت تجربہ کار تھا اور اسے بہت کچھ معلوم تھا۔
میرے پاس علاج کے لیے آنے والے افراد 20 برس سے لے کر 40 برس کی عمر تک کے ہوتے ہیں، لیکن عمومی توقع کے برعکس کم عمر والے افراد جنسی مسائل کے علاج حاصل کرتے وقت خوف محسوس نہیں کرتے ہیں۔
حقیقت میں، میں نے اپنی پندرہ برس کی سیکس تھیراپی کی پریکٹس کے دوران یہ دیکھا ہے کہ نوجوان افراد کی زیادہ تعداد آرہی ہے اور زیادہ عمر کے لوگوں کی ایسی تعداد بڑھ رہی ہے جو ادھیڑ عمر میں آکر نئے رشتے بنا رہے ہیں۔
اب ہم ایک ایسے دور میں آگئے ہیں جب جنسی مسائل پر گفتگو ممنوع موضوع نہیں ہے کیونکہ اب پورن فلموں کی وجہ سے لوگ نئے قسم کے مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں جن کا انھیں جوانی ہی میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
میرے پاس سترہ، اٹھارہ برس کی عمر تک کے افراد بھی آرہے ہیں جنھیں اس عمر میں ہی ایستادگی جیسے اور اپنی اصلی جنس جاننے کے بارے میں پریشانی پیدا ہو رہی ہے، یعنی یہ کہ آیا وہ مرد ہیں یا عورت یا کچھ اور۔
‘ریلٹ’ نامی تنظیم جس کے ساتھ میں کام کرتا ہوں، کے مطابق سنہ 2018 میں جن افراد نے ایک یا ایک سے زیادہ مرتبہ سیکس تھیراپی کے مراکز کا رخ کیا ان میں سے 42 فیصد سے زیادہ افراد وہ ہیں جن کی عمریں 35 برس سے کم تھیں۔
ان اعداد و شمار کے برعکس، میرے زیرِ علاج لوگوں میں 89 برس کا بھی ایک شخص رہا ہے۔ اس شخص نے صرف دو برس قبل ہی ایک نئی دوستی بنائی تھی۔
ظاہر ہے اسے اور اس کی ساتھی کو مجامعت کرنے میں کافی جد و جہد کرنا پڑ رہی تھی۔ وہ اپنے علاج کے لیے اپنے مقامی ڈاکٹر کے پاس مشاورت کے لیے گئے لیکن اس ڈاکٹر کے لیے یہی بات ہی بہت حیران کن تھی کہ یہ جوڑا اس عمر میں بھی مجامعت کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ڈاکٹر کے اس رویے سے انھیں کوئی مدد نہیں ملی، لہٰذا اس جوڑے نے مجھ سے رابطہ کیا۔
اکثر ایسے افراد جو سیکس تھیراپی کے لیے آتے ہیں وہ پہلے ہی اپنے ڈاکٹروں سے رابطہ کرچکے ہوتے ہیں۔
اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ ایسے افراد صرف کسی سے اپنے مسئلے پر تفصیل کے ساتھ صرف گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں، بعض جوڑے تو یہ بھی سوچتے ہیں کہ انھیں علاج کے دوران میرے اس کمرے میں میرے سامنے سیکس کرکے دکھانا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے!
میرے زیرِ علاج لوگوں میں سے ایک سترہ برس کا شخص تھا جِس کے عضوِ تناسل میں ایستاد نہ ہونے کا مسئلہ تھا۔
اس نے اور اس کی دوست لڑکی نے کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ وہ دونوں علحیدہ ہوگئے اور اس نوجوان نے اس علحیدگی کی وجہ اپنی ایستادگی کی کمزوری کو قرار دیا۔ اس نے عام قسم کے مختلف طریقے آزمائے، شراب بھی پی کر مجامعت کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اب اس نے ایک اور لڑکی کو جو کہ اس کی ہم جماعت تھی، اُسے پسند کرنا شروع کردیا اور بظاہر وہ لڑکی بھی اسے پسند کرتی تھی، لیکن یہ لڑکا اپنے ماضی کے تجربے کی وجہ سے خوف زدہ تھا۔
اس نے اپنے مقامی ڈاکٹر سے اس مسئلے پر بات بھی کی تھی اور اُسے بتایا گیا تھا کہ وہ ابھی نوجوان ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ ٹھیک ہوجائے گا۔ جب وہ ڈاکٹر سے ملنے گیا ہوا تھا تو اسے وہاں سیکس تھیراپی کے بارے میں ایک اشتہار نظر آیا۔ اس نے سیکس تھیراپِسٹ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ نوجوان جب مجھے دیکھنے آیا تھا تو میں نے ابتدائی جائزے ہی میں اندازہ لگا لیا کہ وہ گھبراہٹ کا شکار تھا، وہ گفتگو کے سارے سیشن کے دوران سُرخ و سفید نظر آتا رہا!
تھیراپی کا ہر سیشن منفرد اور مختلف ہوتا ہے اور اس نوجوان کے کیس میں تو وہ سارا کا سارا سیکس ایجوکیشن کے بارے میں تھا۔
ہم نے جنسی اعضا کی اناٹمی یا ساخت کے بارے میں بات کی کہ کس طرح ایستادگی ہوتی ہے اور اسے کیسے برقرار رکھا جاتا ہے۔ میں نے اُسے یہ سارا نظام سمجھایا، لیکن اس کا مسئلہ تو یہ پریشانی تھی کہ وہ ایستادگی سے محروم کیوں ہے۔
میں نے اُسے ایستادگی پیدا کرنے کے لیے گھر پر ایک کام یا مشق کرنے کو دی اور پھر اسے مسلسل تین سیشنوں کے لیے اس لیے بلایا کہ وہ یہ یقین کرلے کہ وہ یہی ایستادگی خود بھی پیدا کرسکتا ہے۔
آہستہ آہستہ اس میں اعتماد بڑھنا شروع ہوگیا۔ اور پھر اسے ٹھیک ہونے میں سات سیشن لگے۔ اس علاج کے ایک ماہ گزرنے کے بعد اس نوجوان نے ہمارے کلینک آکر ایک نوٹ چھوڑا کہ وہ اپنی اُسی ہم جماعت کے ساتھ سکول کے بعد ملاقات کرنے جا رہا ہے اور اس نے مزید لکھا کہ اس کا خیال ہے کہ وہ عنقریب اس لڑکی کے ساتھ مجامعت بھی کرے گا۔
سیکس تھراپِسٹ بننے سے پہلے میں ایک رہائشی علاقے کے سپیشل بچوں کی ضروریات والے سکول میں کام کرتا تھا۔
میں یہ جانتا تھا کہ ایک جوڑے کےلیے اپنے بچے کی ضروریات پوری کرنے والے سکول کا تلاش ان کے باہمی تعلقات پر کتنا زیادہ دباؤ پیدا کردیتا ہے، اور میری خواہش ہوتی تھی کہ میں ان کے لیے کچھ کرسکوں۔
سیکس تھیراپی کے کُل وقتی کام کے آغاز سے پہلے میں نے اپنی ملازمت کے دوران سیکس تھیراپی کا ایک دو برس طویل جُز وقتی کورس مکمل کیا۔
جب میں مختلف جوڑوں کو ان کے تعلقات میں مسائل دور کرنے کے لیے ان کی مدد کیا کرتا تھا تو یہ اکثر یہ لگتا تھا کہ ان کے مسائل جنسی نوعیت ہونے کے ساتھ ساتھ جذباتی نوعیت کے بھی۔
لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں سیکس تھیراپی کی تربیت حاصل کروں تاکہ میں ان کا ہر سطح پر علاج کرسکوں۔
سیکس تھیراپِسٹ کی تربیت مکمل کرنے کے بعد میں نے جب ایک جوڑے کا علاج شروع کیا جن کا ایک دوسرے سے لگاؤ تو بہت جذباتی نوعیت کا تھا لیکن انھیں اپنے جنسی تعلقات کے لیے مدد کی ضرورت تھی۔ میٹ اور ایلیکس بالترتیب بیس برس اور تیس برس کے تھے۔
پہلے سیشن میں دونوں بہت زیادہ شرما رہے تھے، اپنی کرسیوں میں بار بار بہت زیادہ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہِل رہے تھے اور میرے سوالات کا جواب دینے سے گریز کر رہے تھے۔ وہ اپنے جنسی تعلقات کے بارے میں کھل کر تفصیلات بتانے سے بھی گریز کر رہے تھے، مثلاً پُشت سے سیکس کرنا، اور وہ اس بات پر پریشان نظر آتے تھے کہ کہیں میں انھیں ہم جنس نہ سمجھ لوں۔
مجھے اندازہ ہوگیا کہ اِس جوڑے کا مسئلہ ایستادگی میں کمزوری کا ہو سکتا ہے، اس لیے میں نے اس کا باتوں باتوں میں ذکر بھی کیا۔
میں نے انھیں یہ بات بتانے کی کوشش کی کہ سیکس کے بارے میں کھل کر اور ایمانداری کے ساتھ بات کرنا ایک اچھی بات ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عضوِ تناسل کی ایستادگی یا سرعتِ انزال دو ایسے مسائل ہیں جن کے علاج کے لیے اکثر مرد میرے پاس آتے ہیں۔ ہم جنسوں کے تعلقات میں جہاں ایک جوڑے کے دونوں رکن ایستادگی چاہتے ہیں وہاں دونوں میں بہتر کرکردگی دکھانے کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ تاہم کم ازکم مخالف جنس والے جوڑے کے درمیان مرد پر ایسے لمحے اس طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا ہے کہ کس کی ایستادگی بہتر ہوتی ہے۔
میں نے میٹ اور ایلیکس کو ایک ایسی مشق کرنے کو دی جس سے وہ اپنی بہت ہی ذاتی نوعیت کی قربت کے دباؤ کو سمجھ سکیں۔ ہر ایک اپنے ساتھی کے جسم کو آدھے گھنٹے کے لیے چھوئے گا اور یہ تلاش کرنے کی کوشش کرے کہ انھیں کیسے لذت محسوس ہوتی ہے اور جسم کے کن کن حصوں میں محسوس ہوتی ہے۔
وہ دونوں ننگے تھے لیکن دونوں کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ ایک دوسرے کی جنسی اعضا کو ہاتھ لگائیں یا اُنھیں چُھوئیں۔ یہ مجامعت سے پہلے کا مساس نہیں تھا یعنی جو سیکس کرنے سے پہلے ایک دوسرے کو چھو کر جنسی جوش پیدا کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ لذت کے حساس حصوں کو دریافت کیا جائے۔
بالآخر ان دونوں نے ایک دوسرے کے پورے جسم کو چُھونا شروع کردیا اور ایک دوسرے کی جنسی خواہش کو بیدار کرنے کی صلاحیت پیدا کرلی۔ انھوں نے اپنے علاج کے دوران بہت محنت کی اور میرے ساتھ گزارے
ان سیشنزکو وہ اپنے لیے ایک رومانوی ملاقات یا ایک ‘ڈیٹ’ سمجھتے جس کے دوران شمعیں روشن کرتے اور رومانوی موسیقی بجاتے۔ کتنی خوشی کی بات ہے کہ پھر میٹ کا اعتماد بڑھ گیا۔
پندرہ ہفتوں کی تھیراپی کے بعد میٹ اور ایلیکس نے دخول والی مکمل مجامعت (سیکس) کرنا شروع کردی۔ پھر چند ہفتوں کے بعد انھوں نے بتایا کہ ہر بار مجامعت کرنے سے اور زیادہ بہتری ہوتی ہے۔
تھیراپی ختم ہونے کے تین ماہ بعد وہ ایک فالو اپ سیشن کے لیے مجھ سے ملنے آئے۔ اور وہ ایک دوسرے کے لیے بہت زیادہ پیار کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اب وہ شادی کر رہے ہیں۔ یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ اب وہ دونوں بہت زیادہ خوش و خرم ہیں۔
میرے دوستوں کو میرا پیشہ بہت دلکش لگتا ہے۔ لوگ اس وقت دلچسپی لینے لگتے لیں جب میں انھیں بتاتا ہوں کہ مشورے دیتا ہوں — لیکن جب میں انھیں بتاتا ہوں کہ میں ایک سیکس تھیراپِسٹ ہوں تو پھر بڑی عجیب قسم کی چہ مگوئیاں ہونے لگتی ہیں۔
کچھ دوست تو سیکس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولتے ہیں بلکہ اس بارے میں ہو تو وہ بے سکون ہوجائیں گے۔ البتہ دوسرے دوست بڑی خوشی کے ساتھ اپنے جنسی مسائل پر بات کریں گے۔
کچھ دوستوں نے تو مجھ سے پیشہ ورانہ مشاورت کے لیے وقت بھی مانگا کیونکہ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسے شخص سے اپنے نجی نوعیت کے موضوع پر بات کرنا آسان سمجھیں گے جو ان کا دوست بھی ہے۔ لیکن میں نے ایسے دوستوں کی درخواستوں کو قبول نہیں کیا۔
یہ ضروری ہے کہ میں اپنے پیشہ ورانہ کام کا اثر اپنی ذاتی زندگی پر نہ پڑنے دُوں اس لیے آپ اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کے ساتھ مریض و معالج والا تعلق نہیں بنا سکتے ہیں۔
اکثر جنسی تعلقات میں مسائل کا تعلق کسی ماضی کے حادثے یا صدمے سے ہوتا ہے جیسے جنسی حملہ یا جنسی زیادتی۔
ایک زیرِ علاج خاتون میری، جسے دخول کے وقت اندامِ نہانی کے سُکڑنے کا مسئلہ درپیش تھا، اُس نے سُن رکھا تھا کہ اس کی ماں اپنے ایک بچے کو پیدا کرتے وقت مرنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔
اس خاتون کے ساتھ ہمارے دوسرے سیشن کے دوران میں نے اس کے ماضی کے واقعات کی ایک تاریخ لینی شروع کی، اس طرح کے سیشن میں میں اپنے زیرِ علاج شخص سے اس کے بچپن سے لے کر اب تک کے واقعات کی ایک تاریخ بناتا ہوں، خاندان کا پس منظر معلوم کرتا ہوں اور پہلے کے جنسی تجربات کے بارے میں پوچھتا ہوں،
اسے میں ‘تاریخ لینا’ کہتا ہوں۔ میری نامی اس خاتون نے مجھے اپنے بچپن کے زمانے کے ایک صدمے کے بارے میں بتایا جب وہ ایک کم سن بچی تھی۔ اُس نے اپنی ماں اور دوسرے رشتہ داروں کو بہت زیادہ چیختے ہوئے سنا تھا کہ شاید وہ اب بچ نہ سکے۔
زیرِ علاج خاتون میری کے دخول کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ‘کاگنیٹو بی ہیوئیر تھیراپی’ کا سیشن کیا جس کے ذریعے ہم کسی بات پر خو بخود ہونے والے ردعمل کو جانچتے ہیں۔
میں نے اُسے کہا کہ وہ کولہوں کے پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑ دے اور پھر میں نے اُسے آمادہ کیا کہ وہ ‘ٹرینر’ نامی مصنوعی اعضا کے دخول کی مشق کرے۔ یہ ‘ٹرینر’ بہت ہموار اور ڈاٹ جیسی شکل کے آلات ہوتے ہیں اور ان کے مختلف سائز ہوتے ہیں، یہ اندامِ نہانی میں دخول کے لیے مدد دیتے ہیں۔
اگر میں مسائل کو الگ الگ خانوں میں رکھنے کے فن سے بہت پہلے سے واقف نہ ہوتا تو شاید میں یہ کام نہ کر پاتا۔
میں اکثر بہت ہی پریشان کن کہانیاں سنتا رہتا ہوں۔ مجھے اس قسم کی تکلیف دہ کہانیوں سے اپنی نجی زندگی سے الگ رکھنے کے قابل ہونا پڑتا ہے ورنہ شاید میں غیر موثر ہوجاؤں۔ ایک زیرِ علاج شخص کے لیے افسوس محسوس کرنے یا اس کے لیے غمگین ہونے سے کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔
لیکن ہر غمگین لمحے کے لیے ایک مسرت کا لمحہ بھی ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی جوڑے کے علاج کے بعد ان کی طرف سے پوسٹ کارڈ آتا ہے جس میں لکھا ہوتا ‘آپ نے جو کچھ کیا ہم اُس کے شکر گزار ہیں۔ اب میں حاملہ ہوں’۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک جوڑا ایسا ہے جو گذشتہ 12 سالوں سے ہر سال ایک اسی قسم کے شکریے کا ایک پوسٹ کارڈ بھیجتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ اب کیا کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بچے کام نام میرے نام پر رکھا، ظاہر ہے کہ یہ ایک اعزاز کی بات ہے۔
ایک لحاظ سے آپ اس پیشے سے بہت زیادہ تو نہیں کماتے ہیں تاہم کوئی ایک سبب تو ہونا چاہئیے کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں۔ لوگوں کا علاج کرنا اور انھیں آپ کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو بہتر کرتے ہوئے دیکھنا، اس سے ناقابلِ یقین حد تک مسرت کا بھر پور احساس پیدا ہوتا ہے۔