عدالت کا ایف آئی اے کو سنتھیا رچی کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم
سنتھیا رچی کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے ضلعی عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو امریکی بلاگر کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جہانگیر اعوان نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ضلعی صدر شکیل عباسی کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جسے ہفتہ کے روز فریقین کے دلائل کے بعد محفوظ کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی بلاگر نے سابق وزیراعظم کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کی تھی جسے پی پی پی رہنماؤں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور سنتھیا رچی کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست دی گئی تھی تاہم مقدمہ درج نہ ہونے پر پی پی پی عہدیدار نے عدالت نے رجوع کیا تھا۔
2 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ سنتھیا رچی نے سوشل میڈیا پر بینظیر بھٹو سے متعلق اپنے ٹوئٹ سے انکار نہیں کیا لہٰذا انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کے تحت جرم کا ارتکاب ہوا ہے
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست منظور کی جاتی ہے، ایف آئی اے معاملے کی انکوائری کرے اور ٹھوس ثبوت ہو تو مقدمہ درج کیا جائے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت متاثرہ شخص مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دے سکتا ہے، بینظیر بھٹو پاکستان کی سابق وزیراعظم اور لاکھوں لوگوں کی قائد تھیں اس لیے ان کے چاہنے والوں میں سے کسی کو بھی متاثرہ فریقین کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ پیکا ایکٹ کی تشریح کے مطابق بینظیر بھٹو کی پارٹی کا ضلعی صدر بھی متاثرہ فریق ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ بینظیر بھٹو کو شہید ہوئے 12 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، سنتھیا رچی نے اتنے سالوں تک کسی متعلقہ فورم یا میڈیا پر ان الزامات کا اظہار نہیں کیا۔
تاہم شہادت کے 12 برس سے زائد عرصے بعد شہید رہنما کو بدنام کرنے کے لیے الزامات لگانا بادی النظر میں بدنیتی پر مبنی ہے۔
سنتھیا رچی ٹوئٹ تنازع
واضح رہے کہ بلاگر سنتھیا رچی نے سابق وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کی تھی جس پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس ٹوئٹ پر ان کے خلاف پولیس میں وقاص عباسی نے شکایت دائر کی تھی جبکہ پی پی پی کے ضلعی صدر راجا شکیل عباسی نے مقدمے کے اندراج کے لیے ایف آئی اے سے رجوع کیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ سنتھیا رچی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر بدنام کرنے کی کوشش کی۔
تاہم ایف آئی اے کی جانب سے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کی مخالفت کی گئی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ درخواست گزار کو (برقی جرائم کی روک تھام کے قانون) پری وینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کی دفعات کے تحت اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے شکایت کنندہ بننے کا حق نہیں۔
مزید کہا گیا کہ ایکٹ کہتا ہے کہ ایسے معاملے میں کوئی متاثرہ شخص یا اس کے نا بالغ ہونے کی صورت میں اس کے سرپرست ایسی معلومات کو ہٹانے، ختم کرنے یا اس تک رسائی روکنے کے لیے ایف آئی اے میں درخواست دے سکتے ہیں۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ قانون کو پڑھنے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ صرف اصل متاثرہ شخص یا اس کے سرپرست ہی شکایت درج کراسکتے ہیں۔
چنانچہ ایف آئی اے کی جانب سے مقدمہ درج نہ کیے جانے پر شکیل عباسی نے ڈسٹرک اینڈ سیشن جج کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس پر ایف آئی کو نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔
جس کے بعد راجا شکیل عباسی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کے سامنے کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 22 اے کے تحت درخواست دائر کی تھی جس میں سنتھیا رچی کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر بدنام کرنے پر مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔
سنتھیا رچی ریپ الزامات
خیال رہے کہ سنیتھا رچی نے اپنے فیس بک پیج پر جاری ایک لائیو ویڈیو میں دعویٰ کیا تھا کہ ‘2011 میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے میرا ریپ کیا تھا، یہ بات درست ہے، میں دوبارہ کہوں گی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے میرا ریپ کیا تھا’۔
سنتھیا رچی نے سابق وقافی وزیر مخدوم شہاب الدین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر جسمانی طور ہراساں کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ اس دوران یوسف رضا گیلانی ایوان صدر میں مقیم تھے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مجھے مارنے اور میرا ریپ کرنے کی لاتعداد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہی ہیں اس کی حمایت میں شواہد موجود ہیں۔
دوسری جانب رحمٰن ملک، یوسف رضا گیلانی، ان کے بیٹے اور مخدوم شہاب الدین نے الزامات کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی نژاد پاکستانی بلاگر سنتھیا رچی کے خلاف پاکستان اور امریکا میں ہتک عزت کا دعوی دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنتھیا رچی نے بے بنیاد الزامات لگا کر میری ساکھ مجروح کی۔
علاوہ ازیں سینیٹر رحمٰن ملک کے وکلا نے بذریعہ ٹی سی ایس امریکی خاتون سنتھیا رچی کو الزامات عائد کرنے پر 50 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا۔
سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کے ترجمان ریاض علی طوری کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سینیٹر رحمٰن ملک نے اپنے قانونی نوٹس میں سنتھیا رچی کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر سختی سے تردید کی۔
بعدازاں 9 جون کو سینیٹر رحمٰن ملک نے امریکی خاتون سنتھیا رچی کو 50 ارب روپے ہرجانے کا دوسرا نوٹس بھجوایا تھا۔
رحمٰن ملک کے وکلا نے سنتھیا رچی کو نوٹس بذریعہ کوریئر بھجوایا تھا، جس میں رحمٰن ملک نے سنتھیا رچی کے لگائے گئے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر سختی سے مسترد کیا تھا۔