منتخب تحریریں

اوورسیز پاکستانی

Share

ہم پاکستان میں رہنے والے اگر پیتل کے بنے ہوئے ہیں تو مشہور گانے کی پیروی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے اوورسیز پاکستانی بھائی سونے کے بنے ہوئے ہیں، ہم اپنے اوورسیز بھائیوں کی ترقی، کامیابی، خوشحالی اور دانش سے بہت متاثر ہیں۔ زیادہ تر اوورسیز پاکستانی خالی ہاتھ بیرونِ ملک گئے اور وہاں جا کر اپنی محنت اور کوشش سے بہت زیادہ امیر ہو گئے۔

انہوں نے نہ صرف اپنے خاندانوں کی معاشی بہتری میں مدد کی بلکہ ان کے بھیجے گئے فنڈز سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر محفوظ حالات میں رہے۔

سونے کے بنے میرے اوورسیز بھائی مجھے بچپن سے ہی بہت اچھے لگتے ہیں۔ ہمارے خاندان کا تعلق ضلع گجرات سے ہے اس لئے بچپن ہی سے اپنے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کو اوورسیز پاکستانی بنتے دیکھا۔

اسکول کے زمانہ میں بھلوال پڑھتا رہا، میرے مشفق چچا سرور کیانی صاحب کے سارے اکبر آبادی (دروڑہ شریف) صاحبزادگان دبئی اور خلیجی ممالک میں کام کرتے تھے چنانچہ اسکول کے زمانے میں ہی اپنے ان عزیزوں کی بدولت ٹیپ ریکارڈر، گھڑیاں، کے ٹی کے جوڑے، رے بین کی عینکیں، سینٹ، مائیکل کی جرابیں اور کیمروں کے تحائف سے مالا مال ہوتے رہے۔

صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو دنیا کے نئے دروازے کھلتے گئے۔ سات سمندر پار سفر ممکن ہوئے تو اوورسیز پاکستانیوں کی محبت نے اسیر بنا لیا، اب کوئی ایسا ملک یا شہر نہیں جہاں ذاتی تعلق اور محبت والے دوست نہ ہوں۔ یہ واقعی سونے کے بنے لوگ ہیں، ہم سے بہتر ہیں، ہمارا ہی حصہ ہیں مگر ہم سے کہیں قابل، ہم سے کہیں زیادہ محنتی اور سب سے بڑھ کر ملک کو کچھ لوٹانے کی فکر میں رہتے ہیں۔

پچھلے 27سال سے دنیا کے بہت سے ممالک میں جانے کا موقع ملا ہر جگہ اوورسیز پاکستانیوں سے ملنے جلنے اور تبادلہ خیال کا موقع ملتا رہا۔ ہر جگہ میں نے اوورسیز پاکستانیوں کو وطن کی شدید محبت کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ حساس پایا، دھماکا پاکستان میں ہوتا تھا مگر دل لندن میں بیٹھے پاکستانیوں کے زیادہ دہلتے تھے۔

ہمارے یہ بھائی کافی عرصے سے پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے اپنے اپنے منصوبے پیش کرتے رہتے تھے، ان میں سے بیشتر پاکستان کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور ملک کے سیاسی نظام کو سمجھتے تھے۔

اوورسیز پاکستانیوں کے خیالات سنتے سنتے کئی دہائیاں گزر گئیں، 2002ء کے بعد سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ان میں سے اکثر جنرل مشرف کے حامی ہو گئے ہیں اور انہیں یوں لگنے لگا کہ ملکی مسائل کا حل جمہوریت میں نہیں بلکہ جنرل مشرف کے نظام میں ہے۔ کچھ کی امیدیں جنرل صاحب سے پوری ہوئیں اور کچھ کی نہ ہوئیں، جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد مشاہدے میں آیا کہ ہمارے سونے کے بنے اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کا رجحان عمران خان کی طرف ہو گیا ہے۔

تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے اوورسیز سے نہ صرف داد کے ڈونگرے برسنے لگے بلکہ فنڈز بھی آنے لگے جب بھی بیرونِ ملک جانے کا اتفاق ہوتا تو اندازہ ہوتا کہ اوورسیز پاکستانی دل و جان سے عمران خان کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں۔

پھر ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ سونے کے بنے اوورسیز پاکستانیوں کی سوچ سے پاکستان کے تنخواہ دار ادارے، جج، جرنیل اور کارپوریٹ کمپنیاں بھی متاثر ہونے لگیں، مڈل کلاس کے نوجوان جو دو سابق جماعتوں سے مایوس تھے، وہ بھی شامل ہوتے گئے اور یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اوورسیز پاکستانیوں کی من مرضی کی حکومت برسراقتدار آ گئی۔

اسے لانے کے لئے کئی اوورسیز پاکستانی الیکشن کے دوران پاکستان آ گئے، کئی ایک نے اپنے رشتہ داروں کو مجبور کیا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں غرضیکہ عمران خان کے حکومت میں آنے کے پیچھے اوورسیز پاکستانیوں کا پورا زور شامل تھا۔

ہم پیتل کے بنے مقامی پاکستانیوں کا خیال تھا کہ ہمارے لائق بھائیوں نے حکومت بدلی ہے تو اس سے ضرور بہتری آئے گی، بہت سی توقعات اور امیدیں پیدا ہو گئیں کہ سونے سے بنے ہمارے بھائی ان امیدوں کو پورا کریں گے۔

توقع یہ تھی کہ 88لاکھ اوورسیز پاکستانی اپنی مرضی کی حکومت آنے پر دامے درمے قدمے سخنے اس کی مدد کے لئے آگے بڑھیں گے۔

اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے میرے ساتھ انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے پاس 200اوورسیز پروفیشنل موجود ہیں جو اسٹیل مل، پی ٹی اے اور دوسری سرکاری کارپوریشنز کو کھڑا کر دیں گے۔ خیال یہی تھا کہ دنیا بھر میں پھیلے اوورسیز ڈاکٹرز میں سے کوئی مسیحا باہر سے مجرب نسخہ لے کر آئے گا اور ہمارا صحت کا نظام ٹھیک کر دے گا، اندازہ یہ تھا کہ یورپی یا امریکی تعلیم یافتہ کوئی ماہر تعلیم واپس پاکستان آئے گا اور ہمارے تعلیمی نظام میں وہ تبدیلیاں لائے گا کہ ہم یورپ اور امریکا جیسے گریجویٹ پیدا کرنے لگیں گے۔

توقع تھی کہ بیرونِ ملک کا پڑھا کوئی ماہر معیشت آ کر ہمارے معاشی دلدر دور کر دے گا۔ یہ بھی سوچا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف عدالتی، سماجی اور انتظامی اصلاحات لائے گی جس سے سرخ فیتہ پٹوار اور تھانیداری نظام ختم ہو جائیں گے۔

سب کا خیال تھا کہ اور کچھ ہو نہ ہو، اوورسیز بھائی ملک میں سرمایہ کاری کریں گے، چھوٹی صنعتیں لگائیں گے، عمران خان کے کندھے سے کندھا ملائیں گے اور پاکستان کو مشکل حالات سے نکال کر دنیا کا جدید ملک بنانے میں مدد کریں گے۔

عمران خان کی حکومت آئے20ماہ گزر گئے اگرچہ اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت اب بھی پُر امید ہے مگر اندرونِ ملک سوچ بدلنے لگی ہے۔ سونے کے بنے اوورسیز پاکستانیوں اور پیتل کے بنے پاکستانیوں کی سوچ میں واضح فرق آ گیا ہے، مثال کے طور پر ایک نیوز اینکر کے چینل کو ساری آمدنی بیرونِ ملک آباد پاکستانی ناظرین کے ذریعے یو ٹیوب سے ہوتی ہے لیکن اسی اینکر کی پاکستان میں ریٹنگ 18ویں نمبر پر ہے اس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ سونے سے بنے لوگ اور طرح سوچ رہے ہیں اور پیتل سے بنے اور طرح۔

اوورسیز بھائیوں کی تمام تر نیک نیتی کے باوجود عرض یہ کرنا تھا کہ آپ زمینی حقائق سے دور بیٹھے ہیں، آپ کے تجویز کردہ حل ہمارے لئے کارگر نہیں ہیں۔ آپ ہمارا اچھا چاہتے ہیں تو ہم پر اپنے حل اور فارمولے مت ٹھونسیں۔

ہمیں اپنی مرضی سے سانس لینے دیں، ہم نے آپ کی بات مانی، آپ کی مدد کا انتظار کیا، ڈالروں کی بارش ہوئی نہ پائونڈوں کا طوفان آیا، نہ ہی ریال اور درہم برسے۔سیاست کرنا پیتل کے لوگوں کا کام ہے، سونے کے بنے لوگ ہمارے لیے دعا کیا کریں اور اپنے آپ کو مالی امداد تک محدود رکھیں، وہ اسی کام کے لیے باہر گئے ہیں، یہی کام کرتے رہیں تو بہتر ہے۔