ہماری حکومتوں کی پرانی روایت ہے کہ وہ گزرتے سانپ کو مارنے کے بجائے بڑے مزے سے اسے گزرتا دیکھتی رہتی ہیں اور جب سانپ گزر جاتا ہے تو پھر حکمران اس سانپ کی لکیر پیٹنے لگ جاتے ہیں۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں‘ تاہم اب تھوڑی تبدیلی آئی ہے‘ بلکہ ایک چھوڑ‘ دو تبدیلیاں آئی ہیں۔ پہلی تبدیلی یہ آئی ہے کہ پی ٹی آئی والے پہلے والوں سے زیادہ زور و شور سے اور بآواز بلند اس لکیر کو پیٹتے ہیں اور دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ حالیہ والے حکمران تازہ لکیر کو تو کافی نیم دلی سے پیٹتے ہیں لیکن برسوں پرانے سانپ کے گزرنے سے پڑنے والی نہایت مدھم اور متروک و مشکوک قسم کی لکیروں کو زیادہ گلا پھاڑ کر پیٹتے ہیں۔
ٹڈی دَل آئی‘ ڈیرے لگائے‘ انڈے دیے‘ بچے نکالے‘ صحرائی علاقوں میں فصلوں کو اجاڑا۔ ہر طرف خاموشی رہی۔ خاموشی بھی کیا؟ سکوت ِمرگ جیسی صورتحال تھی۔ نہ کسی کو ہوش تھا اور نہ کوئی ہلچل مچی۔ جب حالات بگڑ کر قابو سے باہر ہو گئے اور موجِ خوں سر سے گزر گئی تب ہوش آیا اور اب لکیر پیٹنے کے مترادف والی صورتحال ہے۔ آٹے کا بحران آیا‘ آٹا کمیاب ہوا‘ حکمران سوئے رہے۔ طلب و رسد کے بین الاقوامی اور قدیمی قانون کے تحت جب آٹا غائب ہوناشروع ہوا تو اس کی قیمت کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ حکمران ٹھنڈ پروگرام کے تحت مزے سے آرام کرتے رہے۔ آٹے کی قیمت قریب قریب دوگنی ہو گئی ‘حکمران چین کی بانسری بجاتے رہے۔ جب لٹیروں نے عوام کی جیب سے اربوں روپے نکال کر اپنی تجوریاں بھر لیں تب حکمرانوں کو ہوش آیا۔ ہوش میں آتے ہی حسبِ معمول بڑھکیں لگانی شروع کر دیں کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ چوروں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ پھر ایک کمیٹی بنا دی گئی۔ تب تک لٹیرے لوٹ کا مال ہضم کر چکے تھے۔
پھر چینی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چینی کا ریٹ پینتالیس روپے فی کلو گرام تھا۔ چینی مافیا نے عوام کو دو طرفہ لوٹنے کا منصوبہ بنایا اوروہ کامیاب بھی ہو گیا۔ ایک طرف سے انہوں نے حکومت سے تین ارب روپے کی سبسڈی وصول کی اور ایکسپورٹ کے چکر میں چینی کی جعلی قلت پیدا کرتے ہوئے عوام کی جیب سے کم ازکم اڑتالیس ارب روپے نکال لیے۔ ان اڑتالیس ارب روپوں کی مکمل تفصیل میں اپنے مورخہ بارہ دسمبر 2019ء کے کالم ”اڑتالیس ارب روپے کا ڈاکہ‘‘ میں بیان کر چکا ہوں۔ جب لوٹ مار مکمل ہو گئی‘ سبسڈی وصول ہو گئی‘چینی کی قیمت پینتالیس روپے سے پچاسی روپے کے لگ بھگ ہو گئی تب ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان ہوا‘ یعنی جب کھیت کھلیان جل کر راکھ ہو گئے تب آگ بجھانے والے موقع پر پہنچ گئے۔کسی نے اس چینی کی قیمت میں اضافے پر بڑا مزیدار تجزیہ کیا ہے۔ یہ چینی کی قیمت پر عوامی فرانزک رپورٹ ہے:
چینی کی عام قیمت تھی 45 روپے فی کلو
سبسڈی کے بعد قیمت ہو گئی 70 روپے فی کلو
تحقیقات شروع ہوئیں‘ قیمت 75 روپے فی کلو
رپورٹ لیک ہوئی تب قیمت 80 روپے فی کلو
فرانزک رپورٹ آئی تو قیمت 85 روپے فی کلو۔
حکومت نے تب اس معاملے پر ہل جل شروع کی جب شوگر مافیا نے اپنا کام مکمل کر لیا تھا اور چینی کی قیمت چالیس بیالیس روپے فی کلو گرام سے پچاسی روپے فی کلو گرام کر کے اربوں روپے بغیر ڈکار مارے ہضم کر لیے تھے۔ جب عوام لٹ گئے تب انکوائری شروع کروائی گئی۔ جب چینی کی قیمت مقامی منڈی میں دو گنا ہو گئی تب فرانزک آڈٹ کروایا گیا۔ جب ساری لوٹ مار مکمل ہو گئی تب ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا اعلان ہو گیا۔ لیکن اس شور شرابے میں حکومت نے ایک دن بھی چینی کی قیمت کو کم کروانے کی ڈھیلی ڈھالی سی کوشش بھی نہیں کی۔ یہ ساری تحقیقات‘ سارے کمیشن اور ساری فرانزک انکوائریاں عین اسی صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں جیسے کتا کنویں میں گر جائے اور ہم کنویں سے کتا باہر نکالے بغیر کنوئیں کے پانی کے سو ڈول نکال کر یہ تصور کریں کہ کنویں کا پانی پاک ہو گیا ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ چینی کی قیمت تھا نہ کہ انکوائری کمیشن اور فرانزک رپورٹ۔ لیکن ہوا یہ کہ اس ساری بھاگ دوڑ اور نمبر ٹانکنے والی کارروائی سے عام آدمی کو دھیلے کا بھی فائدہ نہ ہوا۔
عوام کی جیب سے آج بھی ایک کلو گرام چینی خریدنے کے لیے پچاسی روپے نکل رہے ہیں تو اس سارے کھکھیڑ کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہوا؟ گنے کی قیمت گزشتہ سال بھی ایک سو اسی روپے فی چالیس کلو گرام تھی۔ اس سے پیوستہ سال بھی گنے کی قیمت فی چالیس کلو گرام اتنی ہی تھی اور اس سے گزشتہ سال بھی یہی قیمت تھی۔ اور سب سے مزے کی بات ہے کہ گنے کی قیمت اس سال بھی وہی پرانی ہے‘ لیکن چینی کی قیمت دو گنا ہو چکی ہے۔ اب حکومت کا شور شرابا عملی طور پر بے اثر اور لا حاصل قسم کا رد عمل ہے۔ بلکہ اس شور و غوغا میں لٹیروں نے مزے سے اپنا کام کیا اور ”یہ جا وہ جا‘‘ ہو گئے۔ اس سے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا‘تب میرا ہم زلف طارق حسن لندن کے نواحی شہر ریڈنگ میں ڈاکٹریٹ کر رہا تھا۔ میں مانچسٹر سے ہفتے دس دن کے لیے اس کے پاس آ گیا۔ ایک روز میں طارق کے بیٹے احسن کے ساتھ ایسے ہی ٹاؤن سنٹر کے قریب گھوم رہا تھا کہ دیکھا ایک لڑکی نے اپنی سائیکل چوک کے کنارے ایک پب کے سامنے پڑے بینچ کے ساتھ کھڑا کیا اور بیئر کا گلاس لینے پب کے اندر جانے لگی‘ ابھی وہ اپنی سائیکل سے چند گز ہی دور گئی ہوگی کہ ایک کالے نے اس کا سائیکل اٹھایا اور اس پر چڑھ کر دوڑ لگا دی۔ لڑکی نے شور مچانا شروع کر دیا۔ پاس ہی کھڑے ہوئے ایک اور کالے نے فوراً لڑکی کو تسلی دیتے ہوئے کندھے پر تھپتھپانا شروع کر دیا (اس پر مجھے مخدوم شہاب الدین یاد آ رہے ہیں) اور کہا کہ شور کرنے کے بجائے مجھے معاملہ بتائو تا کہ اس کا حل نکالیں۔ لڑکی نے بتایا کہ اس کا سائیکل کوئی نیگرو لے کر بھاگ گیا ہے۔ اس کالے نے ایک آدھ منٹ بڑی تسلی سے اس کی ساری بات سنی اور پھر مزے سے ایک طرف چل پڑا۔ اس دوران سائیکل چور کہیں کا کہیں پہنچ چکا تھا اس نے بڑے طریقے سے سائیکل چور کو رفوچکر ہونے کا موقع فراہم کروا دیا۔ ہماری حکومت بھی اس دوران انکوائریاں اور فرانزک رپورٹوں پر لگی رہی اور چینی کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی اور ابھی تک وہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی کی قیمت کم کر کے ستر روپے کرنے کا جو حکم دیا تھا وہ دراصل حکومت کے کرنے کا کام تھا۔
اوپر سے حکومت نے اس سارے معاملے کو الجھانے کے لیے 1985ء سے شوگر ملز کے آڈٹ کا عظیم الشان منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس طرح معاملے کو اتنا پھیلا دیا ہے کہ اب اگلے دس سال اس کے سمیٹنے کا یا کسی ملزم کو پکڑنے کا امکان بالکل ہی ختم ہو گیا ہے۔ لوٹ مار کا سانپ گزر گیا ہے اور اب حکمران اس سانپ کی لکیر پیٹنے کے علاوہ برسوں پہلے گزرے ہوئے ایسے سانپوں کی لکیریں پیٹنے میں مصروف ہیں جو شاید زندہ بھی نہ ہوں ‘تاہم سانپ مارنے سے کسی کو دلچسپی نہیں۔شاہ جی نے اس بیکار حکومت کیلئے ایک اور مصروفیت تلاش کی ہے اور کہا ہے کہ اسے چاہیے کہ اب وہ پٹرول کی قلت پر کمیشن بنا دے اور اس کے ٹی او آرز میں یہ بات شامل ہوکہ یہ کمیشن بھی 1985ء سے اپنی تحقیقات کا آغاز کرے۔ ہمیں پتا ہے کہ اس کمیشن سے کوئی نتیجہ تو نہیں نکلے گا ‘مگر گمان ہے کہ اس کمیشن کے طفیل کمیشن ضرور مارا جا سکتا ہے۔