منتخب تحریریں

آزاد کشمیر میں نوازشریف ہسپتال

Share

نیوز چینلز کے ٹاک شوز اس روز کے اہم ترین واقعات(ان میں بیانات کو بھی شامل کرلیں) پر ہوتے ہیں)۔اتوار کی شب اس ٹاک شو کی میزبانی اور اس کے مستقل مہمان‘ سینئر تجزیہ کار /کالم نگارکے خیال میں اہم ترین مسئلہ آزاد کشمیر میں دل کے پہلے ہسپتال کو نوازشریف کے نام سے منسوب کرنا تھا۔ دوسری طرف (جواب دہی کیلئے )آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر تھے۔ آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں دل کے اس ہسپتال کا اعلان اُس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نے 2015ء میں کیا تھا۔ یہ وفاقی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر کے عوام کیلئے ایک تحفہ تھا۔ ہسپتال کا PCون وغیرہ بن گیا تھا کہ نوازشریف حکومت کو پاناما سے واسطہ پڑ گیا اور آزاد کشمیر میں دل کے اس ہسپتال کے سنگ بنیاد میں تاخیر ہوتی چلی گئی‘ یہاں تک کہ نوازشریف پرائم منسٹر ہائوس سے رخصت ہوگئے‘لیکن وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے اپنی حکومت کے خرچ پر اس ہسپتال کی تکمیل کا فیصلہ کیا۔ راجہ فاروق حیدر بھی اپنی ڈھب کا خاص آدمی ہے‘ 21جولائی 2016ء کے عام انتخابات میں آزاد کشمیر کی تاریخ کے سب سے زیادہ پرجوش انتخابات تھے جن میں تحریک انصاف بھی پہلی بار میدان میں اتری تھی‘ جناب عمران خان نے یہاں 9انتخابی جلسوں سے خطاب کیا‘ بلاول بھٹو زرداری کی بھی عوام میں یہ پہلی رونمائی تھی۔ ان کی تقاریر کے عنوان ”مودی کا یار‘‘ ہوتا۔ مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم‘ پرویزرشید اور سینیٹر آصف کرمانی کے سپرد تھی۔ پاکستان کے برعکس آزاد کشمیر میں عام انتخابات Sittingگورنمٹ ہی کرواتی ہے‘ تب یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ فوج بھی انتخابی عمل کی نگرانی کررہی تھی اور شفافیت کا یہ عالم کہ چیف جسٹس کو بھی شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ الیکشن میں ٹرن آئوٹ62فیصد کو پہنچ گیا تھا اور مسلم لیگ(ن) نے چالیس میں سے اکتیس نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ عمران خان نے جمہوری جذبے کامظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف نتائج کو تسلیم کیا بلکہ مسلم لیگ(ن) کو مبارکباد دینے میں بھی تامل سے کام نہ لیا۔ الیکشن میں پیپلز پارٹی تین اور تحریک انصاف دونشستیں حاصل کرپائی تھی۔
آزاد کشمیر میں وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی زیر قیادت (ن) لیگ کی حکومت کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ فاروق حیدر اور ان کی حکومت نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) سے وفاداری کے اظہار میں کسی تامل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ راجہ صاحب کے ملاقاتی بتاتے ہیں کہ ان کے دفتر میں اب بھی نوازشریف کی تصویر اسی طرح موجود ہے اور اب باغ کے دل کے ہسپتال کو نوازشریف سے منسوب کرنا‘ سیاسی وفاداری کا ایک اور واشگاف اظہار ہے۔ہسپتال کو نوازشریف سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیوں؟وزیر اعظم آزاد کشمیر کا جواب تھا: کشمیر کاز سے اپنی کمٹ منٹ کے باعث وہ ہمارے محسن ہیں اور اپنے محسنوں کا اعتراف کرنے میں کشمیری کسی بخل سے کام نہیں لیتے۔ مظفر آباد کا میڈیکل کالج میرواعظ کے نام پر ہے۔ قائد ملت چودھری غلام عباس سے منسوب ادارے بھی موجود ہیں۔ میر پور کا میڈیکل کالج بے نظیر صاحبہ کے نام پر ہے۔ فاضل تجزیہ کار کا سوال تھا: نوازشریف نے کشمیر کیلئے کیا کیا؟فاروق حیدر کا جواب تھا‘ بہت سی باتیں ہیں جو ٹی وی پر نہیں بتائی جاسکتیں‘ آپ میرے پاس آئیں ‘ میں آپ کو دیسی مرغ بھی کھلائوں گا اور وہ سب کچھ بتائوں گا۔ سینئر تجزیہ کار نے میاں نوازشریف سے منسوب بعض فقروں کا حوالہ دیا‘ راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا: میں اس جلسے میں موجود تھا‘ نوازشریف نے اس طرح کی بات کی ہی نہیں تھی۔نواز شریف مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات ایک طویل موضوع ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر صرف ان کی تیسری وزارتِ عظمیٰ کی بات کرتے ہیں ۔ ستمبر2013ء میں یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے خطاب میں انہوں نے مسئلہ کشمیر پورے زور وشور سے اٹھایا اور عالمی برادری کو یاد دلایاکہ اہل کشمیر کے حق خود ارادیت اور اس جدوجہد میں ان کے آلام ومصائب کو قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ صدر اوباما سے اس کی شکایت کئے بغیر نہ رہے‘ جس پر نوازشریف نے من موہن سنگھ کو لگائی بجھائی کرنے والی عورت سے تشبیہ دی اور بدمزدگی یہاں تک پہنچی کہ اگلے روز ناشتے پر ہونے والی دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات خطرے میں پڑ گئی۔ عالمی مبصرین کے مطابق برسوں بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے کسی سربراہ نے کشمیریوں کا مقدمہ خود اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ساتھ پیش کیا تھا۔ اکتوبر2013ء کے دورہ ٔامریکہ میں بھی صدراوباما سے وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر کے کور ایشو سمیت پاک بھارت تنازغات کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاسوں میں بھی وزیر اعظم نوازشریف زیادہ شدت کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ پیش کرتے رہے۔برہان الدین وانی کو پاکستان کی وفاقی کابینہ نے سرکاری طور پر شہید قرار دیا ۔ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ نے کشمیر میں بھارتی وحشت کی شدید مذمت کرتے ہوئے یوم یک جہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا۔
کورونا کے وی آئی پی متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے۔ قائد حزب اخلاف شہبازشریف بدستور قرنطینہ میں ہیں۔ شیخ رشید گھر پر قرنطینہ میںتھے‘ طبیعت زیادہ بگڑی تو ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں منتقل ہوگئے۔ بستر علالت سے قوم کے نام ان کا پیغام ہے کہ کورونا کو سیریس لیں۔ اس موقع پر یہ کہنے والی بات نہیں کہ خود شیخ صاحب نے اسے سیریس نہیں لیا تھا۔ پاکستان میں چینی سفیر شہبازشریف کی علالت پرتشویش اور نیک تمنائوں کا اظہار کرچکے تھے‘ لیکن چینی حکومت نے اسے کافی نہ سمجھا ؛ چنانچہ بیجنگ سے فارن آفس کے ترجمان نے فون پر نہ صرف خیریت دریافت کی بلکہ اپنی حکومت کی طرف سے چین میں علاج کی پیش کش بھی کی۔ ویسے تو چینی قیادت میاں نوازشریف سے بھی خاص تعلق خاطر رکھتی ہے اور بیجنگ میں ان کیلئے غیر معمولی پروٹوکول اور بے تکلفانہ میٹنگز میں اس کا اظہار بھی ہوتا رہاہے لیکن شہباز شریف سے تعلق کا معاملہ قدرے مختلف اور منفرد ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم نے نومبر2017ء میں اخبار نویسوں کے وفد کے ساتھ چین کے دورے میں بھی کیا۔ فارن آفس میںCPECکا ذکر بھی ہوا‘ چینی خوش تھے کہ 50سے زائدمنصوبوں میں سے19پر کا م شروع ہوچکا تھا۔ اس موقع پر شہبازشریف کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اپنے حصے کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے غیر معمولی تیز رفتاری کا مظاہرہ کررہاہے۔ اس کیلئے انہوں نے ساہیوال کے کول پراجیکٹ کی مثال دی ‘اسی سے ”شہبازسپیڈ‘‘ اور ”پنجاب سپیڈ‘‘ کی نئی اصطلاح وجود میں آئی۔ تقریباً 30کلومیٹر ‘لاہور میٹرو کی صرف گیارہ ماہ میں تکمیل پر ترک دوستوں نے کہا تھا‘ یہ انسانوں کا نہیں جنوں کا کام ہے۔ اس میں مسلم ٹائون سے مینار پاکستان تک طویل ترین فلائی اوور بھی تھا۔ شہبازشریف کی علالت کی بریکننگ نیوز کے ساتھ ہی جن شخصیات کے خیر سگالی کے پیغامات کی خبر آئی ان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تھے۔ انہوں نے خود فون پر شہبازشریف سے رابطہ کیا اور ان کی مزاج پرسی کی اور جلدصحت یابی کیلئے دعا کی۔ہمیں یاد آیا بیگم کلثوم نوازکے کینسر کی خبر پر بھی جنرل صاحب نے معزول وزیر اعظم سے فون پر رابطہ کرکے نیک تمنائوں کا اظہا رکیا۔تازہ خبر کے مطابق ائیر چیف مارشل مجاہد انور نے بھی مزاج پرسی کیلئے شہباز صاحب کو فون کیاہے۔ دنیا جہان نے شہبازشریف کیلئے خیر سگالی کے جذبات کا اظہا رکیا ہے ‘ لیکن قائد ایوان کو قائد حزب اختلاف سے رابطے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ایک گھساپٹا سا شعر یاد آیا ؎
عیادت رسم دنیا تھی چلے آتے تو کیا ہوتا
تمہارے پوچھ لینے سے نہ ہم جیتے نہ مرجاتے