پاکستان میں کورونا وائرس نے صحت کے نظام میں پائی جانے والی خامیاں اب واضح کر دی ہیں۔
پاکستان میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے ساتھ جہاں طبی عملے کے لیے حفاظتی سامان اور مریضوں کے لیے بستر، وینٹیلیٹرز، آئی سی یو وارڈز اور ادویات کی کمی محسوس کی جا رہی ہے تو وہیں اب آکسیجن کی قلت کا مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔
بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں تو شاید آکسیجن کی قلت نہ ہو لیکن ان چند ایک بڑے شہروں کے علاوہ پاکستان کے بیشتر شہروں کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے آکسیجن کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع پشاور اور ایبٹ آباد کے ہسپتالوں میں آکسیجن کا مرکزی نظام ہے۔ لیکن صوبے کے باقی 36 اضلاع کے ہسپتالوں میں آکسیجن کے سلینڈروں پر گزارہ ہوتا ہے۔ اگر یہ سلینڈر کم پڑ جائیں تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
یہاں ہم صوبے کے چند ایک اضلاع کا ذکر کرتے ہیں جہاں حکام کے مطابق صورتحال گھمبیر ہے۔
خیبر پختونخوا میں بیشتر اضلاع میں ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافے کی وجہ سے آکسیجن سلینڈرز کی کمی کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ جہاں حکام نے حکومت سے کہا ہے کہ ہسپتالوں کو فوری طور پر وافر مقدار میں آکسیجن سلینڈر فراہم کیے جائیں۔
محکمہ صحت کے حکام آکسیجن کی طلب کو سانس کی بھوک یا ایئر ہنگر کے نام سے جانتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے شدید حملے کے دوران مریض کو آکسیجن یا مصنوعی سانس کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اگر مریض کی یہ طلب پوری نہ کی جائے تو موت واقع ہو سکتی ہے۔
کووڈ 19 یا ناول کورونا وائرس، جیسا نام ہے ویسے ہی اس کے اثرات انسانی جسم پر ظاہر ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور خدشہ یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں بھی مزید افراد اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
پنجاب میں آکسیجن سلینڈر ’تین گنا قیمت پر فروخت ہو رہے ہیں‘
شدید علیل مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
حکومت پنجاب کی نئی حکمت عملی کے مطابق معمولی علامات والے مریضوں نے گھروں میں اپنے خود کو قرنطینہ کیا ہوا ہے۔
مریضوں اور ان کے خاندانوں کی شکایت ہے کہ طبیعت بگڑنے کی صورت میں ہسپتال میں جگہ نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ گھر پر آکسیجن اور ادویات لینے پر مجبور ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور کے ایک رہائشی نے بتایا کہ وہ اپنے چچا کا علاج گھر پر ہی کر رہے ہیں۔
’آکسیجن کی ضرورت پڑنے پر میں نے 13 لیٹر کا آکسیجن سلینڈر تیس ہزار روپے کا خریدا۔‘
اس بات کی تصدیق لاہور کے ایک آکسیجن سلینڈر کے ڈیلر نیاز محمد خان نے کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ اس وقت آکسیجن سلینڈر تین گنا قیمت پر فروخت کیا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس کی سپلائی کا بھی بہت مسئلہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں دو دن کے اندر اندر سپلائی مل جاتی تھی لیکن اب آکسیجن پلانٹ سب سے زیادہ سرکاری ہسپتالوں کو آکسیجن سپلائی دے رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ مریضوں میں اضافہ ہے۔ جبکہ مریضوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انھیں چاہیے تھا کہ آکسیجن کی سپلائی میں اضافہ کرتے۔
انھوں نے مزيد کہا کہ اس وقت چھوٹے نجی ہسپتال اور وہ لوگ جو گھر پر ہی موجود ہیں اور علاج کر رہے ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آکسیجن سلینڈر کے آگے لگنے والا ریگولیٹر جس کے ذریعے مریض کو آکسیجن دی جاتی ہے، عام دنوں میں 1500 سے 2000 میں باآسانی مل جاتا تھا۔ تاہم اب اس کی قیمت آٹھ سے نو ہزار ہو گئی ہے۔
پاکستان کے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کو بھی آکسیجن گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ ادارے کے سربراہ فیصل ایدھی نے ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ کمپنیوں نے نرخ نہیں بڑھائے لیکن مانگ میں اضافے کی وجہ سے فراہمی کم کر دی ہے۔ ’اگر ہمیں پچاس سلینڈر درکار ہیں تو پچیس فراہم کیے جارہے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ گیس سلینڈروں کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں۔ وہ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ سے استعمال شدہ سلینڈر خریدتے ہیں جو گڈانی میں بحری جہاز توڑ کر حاصل کیے جاتے ہیں۔ انھیں فی سلینڈر چھ ہزار کا پڑ جاتا ہے جبکہ مارکیٹ میں اس وقت نئے سلینڈروں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات
مفتی محمود ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خآن سے ہسپتال انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ رات دیر سے ہسپتال میں آکسیجن ختم ہو گئی تھی اور اس وقت ہسپتال میں 15 سے 20 مریض ایسے تھے جنھیں آکسیجن کی اشد ضرورت تھی۔
عہدیدار نے بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے مارکیٹ سے سلینڈر لانے کے لیے کہا تو مارکیٹ میں آکسیجن دستیاب نہیں تھی اور اس وقت مریضوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہو چکی تھی جس کے بعد ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان سے آکسیجن کے کچھ سلینڈرز طلب کیے گئے اور ان سے مریضوں کو آکسیجن فراہم کی گئی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں کورونا وائرس کے بارے میں فوکل پرسن ڈاکٹر فواد مروت نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت مفتی محمود ہسپتال میں 20 بیڈز ایسے ہیں جنھیں تقریباً ہر وقت آکسیجن درکار ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت تو وہ مریضوں کو آکسیجن فراہم کر رہے ہیں لیکن اگر مزید مریض آئے تو شاید ان کے لیے پھر آکسیجن موجود نہ ہو۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ضلعے میں کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے اور اس وقت تمام بیڈ مریضوں سے بھر گئے ہیں جنھیں زیادہ تعداد میں آکسیجن سلینڈرز کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ متاثرہ مریضوں کی عمریں 40 سے 50 سال کے درمیان ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہے۔ انھوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ احتیاط کریں اور ماسک کا استعمال ضرور کریں۔
مفتی محمود ہسپتال کے سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہ جہاں نے بی بی سی کو بتایا کہ آکسیجن سلینڈر کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کی سپلائی ڈیرہ اسماعیل خان میں محدود ہے اور اگر مریضوں میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو طبی عملے کے لیے اس پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے۔
عید سے چند روز قبل تک یہاں کورونا کے کل مریضوں کی تعداد ایک سو تک تھی جو اب 290 تک پہنچ گئی ہے۔
ان میں ٹانک، جنوبی وزیرستان اور کلاچی کے علاقے متاثرہ ہیں۔ عید سے پہلے تک یہ علاقے کورونا وائرس سے محفوظ تصور کیے جاتے تھے لیکن اب ان علاقوں میں وائرس پھیلنے لگا ہے۔
سوات: ’دو گھنٹوں میں 300 سلینڈر خالی‘
ضلع سوات میں محکمہ صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ سیدو شریف ٹیچنگ ہسپتال میں اس وقت 85 مریض ایسے ہیں جنھیں آکسیجن فراہم کی جا رہی ہے اور ہسپتال میں اوسطاً دو گھنٹوں میں 300 سے 350 آکسیجن کے سلینڈرز خالی ہو جاتے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ چند روز پہلے آکسیجن کے سلینڈر سوات، بٹ خیلہ اور مردان سے بھی دستیاب نہیں تھے جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے لاہور میں آکسیجن فراہم کرنے والی کمپنی سے رابطہ کیا تھا۔ پھر ایک کنٹینر سوات پہنچا لیکن اسے آنے میں وقت لگا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگر اس رفتار سے مریضوں میں اضافہ ہوا تو آئندہ آکسیجن کی کمی کا مسئلہ بڑھ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا حل آکسیجن پلانٹ کی تنصیب ہے جس پر جلد از جلد کام شروع ہونا چاہیے۔
ہنگو میں آکسیجن پلانٹ کا مطالبہ
ضلع ہنگو کے ضلعی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے محکمہ صحت کے حکام کو خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 110 بستروں کا یہ ہسپتال کووڈ 19 کے مریضں کے لیے مختص ہے لیکن یہاں ضرورت مند مریضوں کو آکسیجن سلینڈروں کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے جو کہ مستقل حل نہیں ہے۔ اس لیے ہسپتال میں آکسیجن پلانٹ فوری طور پر نصب کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر آکسیجن پلانٹ کی تنصیب کا کام انتہائی تیز رفتاری سے بھی کیا جائے تو اس میں ایک ماہ سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے مریض فروری کے آخری ہفتے میں آنا شروع ہو گئے تھے لیکن وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت نے اس بارے میں کوئی اقدامات نہیں کیے تھے۔