چین میں ارب پتی ہی سیانجیان کو اغوا کرنے کی ناکام کوشش، بیٹے کو ’دریا پار کر کے مدد مانگنی پڑی‘
چین میں ملک کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہی سیانجیان کو اغوا کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے پانچ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ارب پتی سیانجیان دراصل گھروں میں استعمال ہونے والی مصنوعات کے عالمی شہرت یافتہ گروپ مائیڈیا کے بانی ہیں۔
گوانگڈونگ صوبے کے فوشان شہر میں پولیس کو ان کے پرتعیش گھر میں کچھ افراد کے داخل ہونے کی اطلاع اتوار کے روز سیانجیان کے بیٹے کی جانب سے دی گئی تھی جو گھر میں داخل ہونے والوں سے چھپنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
پولیس کے مطابق اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔ تاہم سوشل میڈیا پر صارفین کو یہ کارروائی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں لگی۔
اور وہ اس لیے کیونکہ سیانجیان کے بیٹے نے مبینہ طور پر گھر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہونے کے بعد ایک قریبی دریا پار کیا اور مدد مانگی۔
واقعے کی تفصیلات
اتوار کے روز فوشان شہر کی پولیس کو ایک کال موصول ہوئی جس میں یہ بتایا گیا کہ چند مشکوک افراد ہی سیانجیان کے گھر میں داخل ہو گئے ہیں اور ان کے پاس ممکنہ طور پر دھماکہ خیز آلات بھی موجود ہیں۔
یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ کال سیانجیان کے 55 سالہ بیٹے ہی جیانفینگ کی تھی جو مائیڈیا گروپ میں بطور ڈائریکٹر بھی اپنے فرئض سرانجام دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی پر رپورٹ کرنے والی ویب سائٹ ٹی ایم ٹی پوسٹ کے مطابق انھوں نے ’اپنے گھر کے قریب ایک دریا پار کر پولیس کو کال کی۔‘
ادھر اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق متعدد مقامی افراد نے اخبار کو بتایا کہ انھیں اتوار کی شام اور پیر کی صبح سخت لاک ڈاؤن میں رہنے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ پولیس اس واقعے کے خلاف کارروائی کر سکے۔
ایک شہری نے اخبار کو بتایا کہ ’میں کچھ حد تک خوفزدہ ضرور ہوں کیونکہ میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ دوسرے علاقوں کی نسبت اس علاقے میں سکیورٹی بہتر ہے۔
فوشان پولیس کی جانب سے اس واقعے کے بارے میں ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ انھوں نے اغوا کی اس ناکام کوشش کے دوران پانچ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب بھی واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
مائیڈیا نے اپنے ویبو پیج پر شکریہ کا پیغام لکھا جو سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق ’واقعے کی تصدیق کرتا ہے۔‘
اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’ہم پولیس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، ہم میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں اور تمام ایسے افراد کا بھی جو ہمارے بارے میں پریشان ہوئے۔‘
سیانجیان کون ہیں؟
ہی سیانجیان دراصل چین کی سب سے امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں لیکن وہ اتنے شہرت یافتہ نہیں ہیں۔
فوربز کی امیر ترین افراد کی فہرست کے مطابق سیانجیان کے کل اثاثوں کی مالیت اندازاً 24 اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر ہے اور وہ چین میں امیر ترین شخصیات کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہیں جبکہ دنیا میں ان کا 36واں نمبر ہے۔
انھوں نے 26 سال کی عمر میں مائیڈیا کی بنیاد رکھی تھی۔ آغاز میں کمپنی بوتلوں کے ڈھکن اور گاڑیوں کے پرزے بنایا کرتی تھی تاہم اب چین بھر میں اسے گھریلو استعمال میں آنے والی مصنوعات اور نجی ایئرکنڈیشنرز بنانے والی کمپنی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
مائیڈیا گروپ دنیا کی سب سے بڑی روبوٹکس کمپنیوں میں سے ایک کوکا کی بھی مالک ہے۔
جیسے فلم چل رہی ہو
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے لکھا کہ اس واقعے کے بعد ’سیانجیانگ کی بیش بہا دولت لوگوں کی توجہ حاصل کر سکے گی کیونکہ اس سے قبل انھوں نے اپنے ساتھی ارب پتی افراد کی نسبت منکسر مزاجی سے کام لیا ہے۔‘
جہاں سیانجیان کے پرتعیش یورپی انداز میں بنائے گئے محل نما گھر کی تصاویر نے چینی سوشل میڈیا صارفین کو حیرت میں مبتلا کیا وہیں کچھ کے لیے ان کے گھر کے باہر موجود پولیس کی بھاری نفری پریشانی کا باعث بنی۔
اس حادثے کے بعد چینی سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ بحث جاری ہے جسے پڑھنے پر ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی ایکشن فلم کی کہانی پڑھ رہے ہوں۔
سوشل میڈیا ویب سائٹ سینا ویبو پر اکثر صارفین ملزمان کی بیوقوفی پر تبصرے کرتے دکھائی دیے۔ ایک صارف نے پوچھا کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اتنے بیوقوف ہوں کہ آپ دن کے وقت یہ کارروائی کریں۔‘
ایک اور نے کہا کہ ‘تمام حیران کن واقعات سال 2020 میں ہی ہو رہے ہیں۔‘
چند صارفین نے سینجیان کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق ان کے گھر کے باہر دو سکیورٹی گارڈ موجود ہوتے ہیں جبکہ ان کے گھر کی 24 گھنٹے نگرانی کے لیے بھی سکیورٹی موجود ہوتی ہے۔’
ویبو استعمال کرنے والے کچھ افراد کا کہنا تھا کہ چین میں وبا بھی لوگوں میں اس ’بے خوفی‘ کی وجہ بنی ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ‘وبا کے بعد پیسے کمانا مشکل ہو گیا ہے۔ جب لوگوں کے روزگار محفوظ نہیں ہوں گے تو لوگ اس طرح کے خطرات مول لیں گے۔
مائیڈیا کے ہیڈکوارٹر میں کام کرنے والے افراد کو ایک دن کی چھٹی دی گئی کیونکہ کمپنی خطرات کا جائزہ لینا چاہتی تھی۔