بابو گوپی ناتھ ڈاکٹرائن
ادب اور تاریخ میں کیا فرق ہے؟ تاریخ گزری ہوئی حکایت ہے۔ اس کا انجام معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم ابھی تک سانس لے رہے ہیں تو تاریخ کے کردار کتاب کے صفحوں سے نکل کر ہم پر حملہ آور نہیں ہو سکتے۔ ادب ایک فتنہ پرور ہنر ہے۔ لکھنے والا نامعلوم کو معلوم میں اس طور ملا دیتا ہے کہ ماضی کے حادثے اور حال کے اندیشے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ پڑھنے والا اپنی ذات سمیت ایک ایسی انسانی صورت حال کا کردار بن جاتا ہے جہاں حقیقت کی دھوپ اور آس کی چھاؤں دلوں کی بے کلی کو سرگم جیسے جھونکوں سے مہمیز کرتی ہے۔ دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ۔ تاریخ سے مرتب شعور کا بادہ طرب انگیز کشید کیا جاتا ہے، ادب سوال کی ہیجان انگیز قلم لگاتا ہے۔ منٹو کا افسانہ ’بابو گوپی ناتھ‘ ہم سب نے پڑھ رکھا ہے۔ ایک ماہر مصور کی طرح سے منٹو نے بظاہر موقلم کی رواں دواں حرکت سے کینوس پر بہت سے چہرے تخلیق کئے ہیں۔ عبدالرحیم سینڈو، پنجاب کا پہنچا ہوا غفار سائیں، ٹھاٹھ باٹھ کے پردے میں طفیلی مخلوق شفیق طوسی، معمولی درجے کا بددیانت ملازم غلام علی، خرانٹ سردار بیگم، مغویہ کشمیری کبوتری زینت عرف زینو، نگینہ ہوٹل کا مالک یاسین اور حیدر آباد سندھ کا رئیس غلام حسین لیکن سب سے بڑھ کر بابو گوپی ناتھ، ایک جزرس بنیے کا احدی بیٹا جو آنجہانی باپ کی جائیداد بیچ بیچ کر اپنی شامیں رنگین کر رہا ہے۔ جسے کل کی کوئی فکر نہیں۔ بالا خانے سے اترنے کے بعد خانقاہ پہ جا بیٹھنے کی نیت کر رکھی ہے۔ شاید نہیں جانتا کہ خانقاہ میں بھی دولت مند کو گدی نشین کے پہلو میں نشست ملتی ہے، پھوکٹ مرید کو چنے کی دال اور کدو کے سالن کا لنگر دیا جاتا ہے۔ منٹو کی یہ کہانی پھر سے پڑھیے اور دیکھیے کہ اس کے تخلیقی ذہن نے ستر برس قبل آج کے پاکستان میں کلبلاتے کرداروں کا کیسا بولتا ہوا تعارف کرایا تھا۔
منٹو سے مل لئے، اب اوقیانوس کے پار کولمبیا چلئے جہاں گببریئل گارشیا مارکیز نے 1961ء میں ’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘ کے عنوان سے ایک طویل مختصر افسانہ لکھا تھا۔ برسوں پہلے ہتھیار پھینکنے والا بوڑھا کرنل اپنی بیوی کے ساتھ افلاس کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کا بیٹا مقتدرہ مخالف سرگرمیوں میں مارا جا چکا ہے۔ کرنل پندرہ برس سے اپنی پنشن کے انتظار میں ہے۔ بدعنوان سیاسی گرگہ سباس کرنل کی واحد قیمتی شے اور اس کے مرحوم بیٹے کی نشانی، انعامی مقابلے جیتنے والا مرغ، ہتھیانے کے درپے ہے۔ قصبے کا ڈاکٹر اپنے سیاسی آدرشوں کے تعاقب میں خطروں سے کھیل رہا ہے۔ پائی پائی کو محتاج کرنل قصبے والوں کی سیاسی بے اطمینانی اور بے عملی کا استعارہ ہے۔ کرنل صاحب کو پنشن نہ ملنے کا المیہ صرف کرنل کی بیوی ٹھیک ٹھیک جانتی ہے جسے گھر کا چولہا جلانا ہے۔ سیاسی پمفلٹ سے چولہے میں روشنی نہیں ہو سکتی۔ آپ نے دیکھا کیسے ادیب کی آنکھ بسیط براعظموں اور وقت کی لامتناہی دیوار کے پار جھانک لیتی ہے۔
ہمارا وفاقی بجٹ آ گیا ہے۔ 7100ارب روپے کے اخراجات ہیں۔5400سوارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ خسارے کا روکڑ کھاتا خود جوڑ لیں۔ حکومت کہتی ہے کہ 2.1فیصدکی شرح سے ترقی کریں گے، ماہرین معیشت کے مطابق شرح نمو منفی رہے گی۔ بجٹ کی تشریح اعداد و شمار کا کھیل ہوتا ہے۔ کرنل صاحب کی بیوی مگر کچھ ایسے حقائق جانتی ہے جنہیں مہنگائی، افراطِ زر اور قوتِ خرید جیسی اصطلاحات میں الجھاناممکن نہیں۔ صاحبان عالی دماغ، ہم پچاس کی دہائی سے بابو گوپی ناتھ ڈاکٹرائن کے سہارے چل رہے ہیں۔ روس اور امریکہ کے جھگڑے میں ہم نے اپنا محل وقوع رہن رکھا اور موج اڑاتے رہے۔ 50اور 60کی دہائی میں بہترین موقع تھا کہ ہم اپنے گھر کی دیواریں مضبوط کرتے۔ ہم قرض کی مے پیتے رہے۔ مشرقی پاکستان کے پٹ سن اور چاول سے ضیافت اڑاتے رہے۔ ملک ٹوٹ گیا تو ہم نے اپنے گبھرو بیٹے خلیج والوں کو بیچ دیے۔ جو نالے ادھر درا نہ ہوئے انہیں سوویت مزاحمت کی بھٹی میں جھونک دیا۔ معیشت کے کسی طالب علم سے پوچھئے کہ 1970 میں دنیا بھر کی معیشت کس طرح جھرجھری لے کر کھڑی ہوئی۔ 1970 میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کی معیشت نے کیسی رفتار پکڑی۔ ہم اچھے خاصے درمیانے درجے کی معیشت والے لوگ تھے، تعلیمی معیار بھی مناسب تھا، سیاسی شعور سے بہت سوں سے آگے تھے۔ ہمارا ملک ہمارا سانجھا اثاثہ تھا۔ ہم نے ریاست کے نام پر عوام کو یرغمال بنا لیا اور اس مقصد کے لئے بابو گوپی ناتھ ڈاکٹرائن تشکیل دیا۔ آج طبیعت کسی مرحوم کا مردہ خراب پر مائل نہیں کیونکہ اگر زندہ افراد کی نشاندہی نہیں کر سکتے تو رفتگاں کی مذمت کیوں کریں۔ ہم نے اپنی کوتاہ اندیش حکمت عملی میں تین نکات پر ٹھوکر کھائی۔ معیشت کے تقاضوں سے منہ پھیر لیا۔ معیشت کسی ترانے اور ولولہ انگیز تقریر سے انگیخت نہیں ہوتی۔ سرمائے، وسائل، پیداوار، طلب اور رسد کے بنیادی اشاریوں کو سمجھداری سے مرتب کیا جاتا ہے۔ دوسرے ہم نے علم کو اپنے تعصبات کے تابع کرنے پر کمر باندھ لی۔ علم کا دریا ہماری موضوعی ترجیحات کا پابند نہیں۔ علم محض مدرسے کی چار دیواری اور آموختے کی گردان نہیں، قوم کی معاشی اور تمدنی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں تو سوائے افرادی قوت کے کوئی دوسرا اثاثہ ہی نہیں جس کی مدد سے معاشی مسابقت کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔ ہم نے تعلیم کو دانستہ ترجیحات کی فہرست سے خارج کیا تا کہ پیوستہ مفادات کو دوام دیا جا سکے۔ ہم نے حقیقت کو جھٹلانے اور افواہ سے بہلنے والا ایک ہجوم پیدا کر لیا جو اجتماعی اثاثہ تو کیا ہوتا، الٹا ناقابل برداشت بوجھ ہے۔ تیسرے یہ کہ ہم سیاسی عمل اور قوم کی ترقی و استحکام میں نامیاتی رشتہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر سیاسی عمل میں عوام کی شفاف شرکت باقی نہیں رہتی تو ملک ناجائز مفادات کی سازش کا شکار ہو جاتا ہے۔ کورونا ہو یا کوئی دوسری قدرتی آفت، قوموں کو بحران پیش آتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ بابو گوپی ناتھ ہاتھ جھاڑ کر خانقاہ پر بیٹھ سکتا ہے لیکن کرنل صاحب کی پنشن کا کچھ بندوبست کرنا چاہیے۔