سائنسدانوں نے انتہائی حساس نوعیت کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے شہد کی مکھیوں کو چھتے کے اندر سُر میں رکھنے والے نغموں کا پتا لگا لیا ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے شہد کی مکھیوں کی ملکہ کیسے بنتی ہے؟ دراصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ چھتوں سے باہر جا کر کام کرنے والی مکھیاں خصوصی خلیوں کے اندر انڈوں کو موم سے سیل کرتی ہیں اور پھر شاہی جیلی کھلا کر نئی ملکہ بناتی ہیں۔
ملکہ جب اپنی نشست سنبھالنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے تو بھنبنا کر اس کا اعلان کرتی ہے لیکن اگر ایک ہی وقت میں دو ملکائیں آمنے سامنے ہوں تو وہ اس وقت تک ایک دوسرے سے لڑیں گی جب تک دونوں میں سے ایک یا دونوں مر نہیں جاتیں۔
لہذا جب ایک مکھی انڈے دیتی ہے تو اس کی آواز بدل جاتی ہے لیکن وہ اپنی ساتھی مکھیوں سے کہتی ہے کہ باقیوں کی بھنبھناہٹ رکنے نہ دیں۔
اس تحقیق کی قیادت کرنے والے نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مارٹن بینسیک نے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور آواز تبدیل کرنے کو ’غیر معمولی‘ قرار دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’آپ مالکاؤں کو ایک دوسرے کو جواب دیتے ہوئے سن سکتے ہیں۔‘
’یہ فرض کیا گیا تھا کہ ملکائیں دوسری مالکاؤں سے بات کر رہی ہیں۔ شاید وہ ایک دوسرے کو آواز لگا کر اس چیز کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ طاقتور کون ہے۔‘
’لیکن اب ہمارے پاس متبادل وضاحت کے لیے ثبوت موجود ہیں۔‘
محقیقین نے جو مختلف آوز سنی وہ ملکہ کی ہے جو کالونی میں چکر لگاتے ہوئے دوسروں کے لیے اپنی موجودگی کا اعلان کر رہی ہے۔
جبکہ بھنبھناہٹ ان ملکاؤں کی ہے جو باہر آنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنے خلیوں کے اندر اسیر ہیں۔
ڈاکٹر بینکسک وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ملکائیں آپس میں بات نہیں کررہی ہیں۔ دراصل یہ ملکہ اور کارکن مکھیوں کے مابین بات چیت ہے۔۔ ایک وقت میں ہزاروں مکھیاں ایک سوسائٹی کی ملکہ کو آزاد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
’بھنبھنانے والی ملکاؤں کو کارکن مکھیاں جان بوجھ کر اسیر رکھتی ہیں۔۔ وہ بھنبھنانے والی ملکاؤں کو رہا نہیں کریں گی کیونکہ وہ ملکہ کے مختلف سُر سن سکتی ہیں۔‘
’لیکن جب ملکہ کے سُر کی آواز بند ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکہ کالونی کو تقسیم کرکے ایک نیا چھتا ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئی ہے اور یہ چیز نئی ملکہ کی رہائی کے لیے پوری کالونی کو متحرک کر دیتی ہے۔‘
ڈاکٹر بینسک کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کی سوسائٹی کا مشاہدہ کرنا ایک ’انتہائی عمدہ تجربہ تھا۔‘
وہ کہتے ہی کہ شہد کی مکھیوں کی سوسائٹی میں ’تمام فیصلے اجتماعی طور پر لیے جاتے ہیں۔‘
’اس بات کا فیصلہ کارکن مکھیاں کرتی ہیں کہ انھیں نئی ملکہ چاہیے یا نہیں۔‘
شہد کی مکھیاں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں، شہد کی مکھیوں کے پالنے والے اور چھتوں کو جو وہ فراہم کرتے ہیں، یہ سب ان مکھیوں کی بقا کے لیے بہت اہم ہیں۔
محققین کو امید ہے کہ مکھیوں کے سُروں کا پتا لگانے والی یہ مشق، مکھیاں پالنے والوں کو اجتماعی فیصلہ سازی کے اس نازک عمل میں مداخلت سے روکے گی۔ اس کے علاوہ اس سے یہ پتا چلانے میں بھی مدد ملے گی کہ ان کی اپنی کالونیوں میں شہد کی مکیھوں کا لشکر کب اپنا چھتا چھوڑ کر ملکہ کے ساتھ نیا چھتا بنانے کو نکل پڑے گا۔