اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کم از کم 50 ماہرین نے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کے منصوبے کو ‘اکیسویں صدی کی عصبیت کا وژن’ قرار دیتے ہوئے مذمت کردی۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا کہ اس طرح کا قدم بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی اور اس کے نتائج فلسطینی بانتستان کے طور پر نکلیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ جولائی میں انضمام کا عمل شروع ہوسکتا ہے تاکہ یہودی آبادکاری سے اسرائیل کی خود مختاری قائم کی جائے۔
دوسری جانب فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے یکطرفہ اور حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے منتخب کیے گئے 47 ماہرین نے کہا کہ ‘مقبوضہ خطے کا انضمام اقوام متحدہ کے منشور، جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی اور سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے توثیق شدہ بنیادی قوانین کے برعکس ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اسرائیل کا قبضہ پہلے ہی فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور انضمام کے بعد اس کی مزید توثیق ہوگی’۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ‘اسرائیل نے حال ہی میں وعدہ کیا تھا کہ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان مستقل بنیادوں پر سلامتی کو برقرار رکھے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘انضمام کی اگلی صبح ہی ایک جگہ دو افراد پر ایک ریاست کی حکمرانی کی غیر حقیقی صورت حال کو تقویت بخشی جائے گی لیکن یہ غیر مساویانہ حقوق کا مظہر ہے’۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ‘یہ اکیسویں صدی کی عصبیت کا وژن ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے 1980 میں مشرقی یروشلم میں مقبوضہ علاقے کو ضم کردیا تھا اور 1981 میں شام کی جولان کی پہاڑوں کو قبضے میں لیا تھا جبکہ دونوں مواقع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ان اقدامات کی مذمت کی تھی لیکن ‘معنی خیز اقدامات نہیں کیے گئے لیکن اس مرتبہ بالکل مختلف ہوگا’۔
اسرائیل کی حکومت کی جانب سے اس بیان کا فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں آیا لیکن اقوام متحدہ سے متعلق ان کا مؤقف واضح ہے کہ انسانی حقوق کونسل ہمیشہ ان کے مخالف رہی ہے۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل صائب عریقات نے ماہرین کے بیان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ بیان عالمی برادری کو ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ اسرائیل میں حلف اٹھانے والی نئی حکومت کو فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری کا اطلاق کرنا چاہیے۔
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کا دعویٰ بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔
فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں اسرائیلی حکام سے تعمیرات کی اجازت لینا نہایت مشکل ترین مرحلہ ہے اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے گھروں کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
اسرائیل نے 1967 میں 6 روزہ جنگ کے بعد مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تھا تاہم بعد ازاں انہوں نے مشرقی یروشلم کو اپنی ریاست کا حصہ بنا لیا تھا جس کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔
اسرائیل نے بیریئر کی تعمیرات کا کام سنہ 2000 میں شروع کیا تھا اور اسے اپنی حفاظت کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا۔