صحت

کورونا وائرس: کیا جان بچانے والی پہلی دوا ڈیکسامیتھازون پاکستان میں فوری استعمال ہو سکتی ہے؟

Share

برطانیہ میں منگل کے روز ماہرین نے اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس سے شدید بیمار مریضوں کی زندگی ایک سستی اور وسیع پیمانے پر دستیاب دوا سے بچائی جا سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اس مہلک وائرس کے خلاف جنگ میں کم مقدار والی سٹیرائڈ دوا ڈیکسامیتھازون سے کامیاب علاج ایک ’زبردست پیش رفت‘ ہے۔

تحقیق کے مطابق یہ دوا کورونا وائرس کے ایسے مریضوں کو مرنے سے بچا سکتی ہے جو مصنوعی تنفس یعنی وینٹیلیٹر کا سہارا لے رہے ہوں۔ یا پھر انھیں سانس لینے میں دقت سے بچانے کے لیے آکسیجن دی جا رہی ہو۔

برطانیہ میں اس انتہائی عام اور سستی دوا کو دیگر چند ادویات کے ساتھ کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے کافی عرصے سے تجرباتی طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ برطانوی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈیکسامیتھازون وینٹیلیٹر پر موجود مریضوں میں سے ایک تہائی کو بچا سکتی ہے۔

اگر 25 مریض آکسیجن پر ہوں تو ان میں سے ایک جبکہ وینٹیلیٹر پر موجود آٹھ میں سے ایک مریض کو یہ دوا مرنے سے بچا سکتی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے سے ہی وینٹیلیٹرز زیادہ تعداد میں دستیاب نہیں، یہ دوا شدید بیمار افراد کی زندگیاں بچانے میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔

تاہم کیا پاکستان میں اس کو فوری طور پر کورونا کے انتہائی علیل مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان میں یہ دوا موجود ہے اور اگر ہے تو کتنی تعداد میں میسر ہے؟

وفاقی حکومت کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ڈیکسامیتھازون کے حوالے سے برطانوی ڈاکٹروں کی کامیابی کو سراہتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بتایا کہ پاکستان میں ’ایک کمیٹی کورونا کے شدید علیل مریضوں کے علاج میں اس دوا کے استعمال کا جائزہ لے گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اسے طریقہ علاج میں شامل کیا جائے یا نہیں۔‘

ڈیکسامیتھازون

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ڈیکسامیتھازون انتہائی سستی دوا ہے جو دہائیوں سے پاکستان میں مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہو رہی ہے۔ یہ مارکیٹ میں با آسانی دستیاب ہے تاہم اس کا صحیح تخمینہ لگانے کے لیے متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

آپ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ اس کے بعد پاکستان میں ڈاکٹروں کا کام آسان ہو گیا ہے، انھیں وینٹیلیٹر پر موجود مریضوں کو محض یہ دوا دینا ہے اور وہ ٹھیک ہو سکتے ہیں؟ پاکستان میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

ڈیکسامیتھازون کن بیماریوں میں استعمال ہوتی ہے؟

ڈاکٹروں کے مطابق ڈیکسامیتھازون بنیادی طور پر ایک ایسا سٹیرائیڈ ہے جو انسانی جسم میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والے ایک ہارمون سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ ہارمون گردے کے غدودوں یعنی ایڈرینل گلینڈ سے خارج ہوتا ہے۔

یہ جسم میں سوجن کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے اس لیے جب جسم قدرتی طور پر یہ ہارمون کم بنا رہا ہو یا نہ بنا رہا ہو تو ڈیکسامیتھازون سٹیرائیڈ دیا جاتا ہے۔ ڈیکسامیتھازون جوڑوں کے درد، دمے، جلد اور آنکھوں کی بیماریوں، الرجی اور چند اقسام کے کینسر کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ظفر اقبال لاہور کے شیخ زید ہسپتال کے سابق چیئرمین اور امراضِ باطنیہ کے ماہر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ عام سی سستی دوا پاکستان میں بھی کئی دہائیوں سے استعمال ہو رہی ہے۔

تاہم اس کی جو خصوصیت اسے کورونا کے مریضوں کے علاج میں مددگار بناتی ہیں وہ سوجن کو کم کرنا ہے جو جسم کے مدافعتی نظام کے ضرورت سے زیادہ متحرک ہونے کے وجہ سے ہو جاتی ہے۔

کورونا کے مریضوں کے علاج میں ڈیکسامیتھازون کیسے مدد کرتی ہے؟

ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق کیونکہ یہ دوا ایک سٹیرائیڈ ہے اور لوگ زیادہ عرصے کے لیے کھانا شروع کر دیتے ہیں اس لیے وہ اپنی مریضوں کو یہ کم تجویز کرتے ہیں۔

تاہم اس کی دو خصوصیات کورونا کے انتہائی شدید بیمار مریضوں کے علاج میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔

’دوسرے سٹیرائیڈز کے مقابلے میں یہ پانی جسم میں قید نہیں کرتی یا روکتی نہیں ہے اور کووڈ 19 کے مریضوں میں پانی کے ’ریٹینشن‘ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔‘

اس کی سب سے بڑی خاصیت ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق جسم کے مدافعتی نظام کو وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے غیر ضروری طور پر شدید ردِ عمل سے روکنا ہے جو جسم میں نالیوں میں سوزش کا سبب بنتا ہے اور اس سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

ڈیکسامیتھازون
اس کی سب سے بڑی خاصیت مدافعتی نظام کو وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے غیر ضروری طور پر شدید ردِ عمل سے روکنا ہے جو جسم میں نالیوں میں سوزش کا سبب بنتا ہے اور اس سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے

انھوں نے بتایا کہ ’جوں جوں وائرس جسم میں بڑھتا ہے تو مدافعتی نظام شدید ردِ عمل دینا شروع کر دیتا ہے جس کے وجہ سے سانس کی نالیوں میں سوزش ہو جاتی ہے۔

’سوزش ہو جائے تو جسم کے اندرونی اعضا تک آکسیجن نہیں پہنچ پاتی اور اس طرح اندرونی اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‘

کورونا کے شدید علیل مریضوں میں بھی مدافعتی نظام اسی طرح شدید ردِ عمل دے سکتا ہے جو مریض کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔

ڈیکسامیتھازون جسم میں ہونے والے اس سوزش کو روکتی ہے جس کے وجہ سے کووڈ کے مریض کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔

‘لیکن یہ وائرس کو بڑھا بھی دیتی ہے’

ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق جہاں ڈیکسامیتھازون سوزش کو کم کر کے مدافعتی نظام کو درست حالت میں رکھنے میں مدد دیتی ہے وہیں دوسری طرف یہ جسم میں ’وائرل لوڈ‘ یعنی وائرس کی تعداد کو بڑھا دیتی ہے۔

’یہ دوا وائرس کو مارتی تو نہیں اس لیے یہ وائرس کو کلیئر نہیں کرتی بلکہ جسم میں وائرس کی تعداد کو بڑھا دیتی ہے۔‘

اس کارروائی کا تعلق اس کی اس خصوصیت سے ہے جو مدافعاتی نظام کو پر سکون کرنے کا ہے۔

ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق یہی وجہ ہے کہ کورونا کے ایسے مریض جن میں علامات معمولی یا درمیانے درجے کی ہوں انھیں یہ دوا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

’ورنہ ان کے جسم میں وائرل لوڈ بڑھ سکتا ہے اور ان کی بیماری عام سے شدید نوعیت کی ہو جائے گی۔‘

پاکستانی ماہرین کورونا کے خلاف اس کے استعمال کے بارے سب جانتے ہیں؟

ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق ڈیکسامیتھازون کیونکہ وائرل لوڈ کو بڑھا سکتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مریض کو ساتھ ہی اینٹی وائرل ادویات دی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے ماہرین نے اس کی افادیت کے حوالے سے بتایا ہے تاہم ’اس کے ساتھ جو دوسری ادویات مریضوں کو دی گئیں ان کے بارے میں تاحال زیادہ معلومات نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق برطانوی ماہرین کی تحقیق پر مبنی مکالہ جب سامنے آئے گا تب ہی تفصیل سے معلوم ہو گا کہ ’وائرل لوڈ کو کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا تھا، کس قسم کی دوا مریضوں کو دی گئی تھی۔‘

صحت
ڈاکٹر ظفر اقبال کے مطابق برطانوی ماہرین کی تحقیق پر مبنی مکالہ جب سامنے آئے گا تب ہی تفصیل سے معلوم ہو گا کہ ‘وائرل لوڈ کو کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے کیا تھا (اور) کس قسم کی دوا مریضوں کو دی گئی تھی‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکام نے دو قسم کی اینٹی وائرل ادویات کی کورونا کے مریضوں کے علاج میں اجازت دی ہے تاہم وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ ان میں ریمڈیسویر اور اوسلٹاماویر شامل ہیں۔

ڈیکسامیتھازون پاکستان میں کتنی جلد استعمال ہو سکتی ہے؟

صوبہ پنجاب کے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے سیکریٹری محمد عثمان یونس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے ممکنہ استعمال سے قبل ’ایتھکس کمیٹی اس کا جائزہ لے گی جس کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا اس کے لیے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ مریض رضاکارانہ طور پر اس کے تجرباتی استعمال کے لیے سامنے آتے ہیں یا نہیں۔

’تاہم کووڈ کے انتہائی علیل مریضوں کی جان بچانے کے لیے اس دوا کے حوالے سے برطانیہ میں ہونے والی پیش رفت انتہائی اہم ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس دوا کے کورونا کے مریضوں پر استعمال کے طریقہ کار کے حوالے سے برطانوی ماہرین کی طرف سے مزید معلومات سامنے آنا بھی باقی ہیں۔

تاہم اس کے اہمیت دیکھتے ہوئے حکومت نے صوبے بھر میں دوا کے سٹاک کا تخمینہ لگانے کا عمل شروع کر دیا تھا اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جا رہا تھا کہ اس دوا کی ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ دوا مارکیٹ میں دو سو روپے کے قریب قیمت میں دستیاب ہے۔ اسے مریض کو منہ کے ذریعے یا انجیکشن کے ذریعے بھی دیا جا سکتا ہے۔