منتخب تحریریں

یہ تازہ کالم نہیں ہے!

Share

چھٹی والے دن میں ایک مرغیوں کی دکان کے سامنے کھڑا تھا۔ دکان اور سڑک کی درمیانی جگہ تہہ در تہہ کیچڑ تھا، جو قریباً دلدل کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اس دلدل کو عبور کرنے کیلئے اینٹوں کا ’’پل‘‘ بنایا گیا تھا۔ میں نے اللہ کا نام لیا اور پوری احتیاط سے اینٹوں پر قدم دھرتے ہوئے ’’پل‘‘ کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ دوسری طرف ایک پختہ عمر کے بزرگ لوہے کی کرسی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ان کے بائیں جانب مرغیوں کے تین چار ڈربے تھے اور ان کے برابر میں خون سے لتھڑا ہوا ایک بڑا سا ڈرم۔ اس بزرگ نے سفید قیمتی کپڑے کا استری شدہ کرتا اور دھوتی پہنی ہوئی تھی۔ میں اس دکان میں داخل ہونے والا غالباً پہلا گاہک تھا کیونکہ چھٹی کے دن کی وجہ سے ابھی صبح کے ہنگامے اپنے عروج پر نہیں تھے اور یوں بھی جب میں نے مرغی کے نرخوں پر سودے بازی کی کوشش کی تو اس بزرگ نے نرمی سے کہا بابو جی ’’بونی‘‘ کر رہا ہوں، آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا میں نے آپ کو بالکل جائز نرخ بتائے ہیں، سو میں نے اس بزرگ کے کہنے کو صادق مانا اور ڈربے میں سے اپنی پسند کی کوئی مرغی تلاش کرنے لگا۔

بائیں ہاتھ اوپر تلے دھرے ڈربوں میں سفید پروں والی کتنی ہی مرغیاں جگہ کی تنگی کی وجہ سے ایک دوسرے میں دھنسی ہوئی تھیں۔ ان ڈربوں میں پانی کا ایک کٹورا اور ایک کٹورے میں ان مرغیوں کے چگنے کیلئے دانہ پڑا ہوا تھا۔ یہاں بیشتر مرغیوں کی گردنوں پر سے بال غائب تھے۔ چنانچہ گردن کے اس حصے سے ان کی چمڑی نظر آ رہی تھی، یا تو یہ بال کسی بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے تھے یا اس جابرانہ ماحول میں ایک دوسرے کو چونچیں مار مار کر انہوں نے ایک دوسرے کا یہ حال کر دیا تھا اور یا پھر مشفق و مہربان دکاندار نے یہ بال خود اکھاڑے تھے تاکہ جب ان کی گردنوں پر چھریاں چلیں تو ان بےزبانوں کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ میں نے ان میں سے ایک درمیانے سائز کی مرغی پسند کی اور بزرگ سے کہا کہ وہ اسے جلدی سے تیار کردے۔ بزرگ نے ڈربے کا دروازہ کھولا اور اس مرغی کو پروں سے کھینچ کر باہر لے آیا۔ ڈربے میں تھوڑی دیر کے لئے شور برپا ہوا مگر پھر خاموشی چھا گئی۔ البتہ دکاندار کے ہاتھوں میں لٹکی ہوئی مرغی بےبسی سے ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کر رہی تھی مگر دکاندار نے اسے اس کے پروں سے باندھ رکھا تھا اور لکڑی کی ایک میز پر اس طرح رکھ دیا تھا جیسے وہ کوئی جامد چیز ہو۔ دودھیا کپڑوں میں ملبوس بزرگ نے اس میز کی دراز سے ایک چولا نکالا جو خون کے دھبوں سے بھرا پڑا تھا اور اسے اپنے سفید براق ایسے کپڑوں کے اوپر پہن لیا اور اس کے ساتھ ہی یہ خضر صورت بزرگ اب ایک بالکل دوسرے روپ میں نظر آنے لگا۔ اس نے ایک ہاتھ سے مرغی کو فضا میں معلق کیا اور دوسرے ہاتھ سے چھری تھامے تکبیر پڑھ کر یہ چھری مرغی کے حلق پر چلادی۔ جس کے ساتھ ہی خون کی ایک دھار اس کے چولے پر پڑی جو پہلے ہی خون کے چھینٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ مرغی کے حلق سے غوں غوں کی آواز بلند ہوئی تھی مگر پھر یہ آواز مدہم پڑ گئی البتہ اس کا جسم دکاندار کے ہاتھ میں پھڑکتا رہا۔ دکاندار نے اس پھڑکتے ہوئے جسم کو قریب پڑے ہوئے ڈرم میں پھینک دیا اور اس کے ٹھنڈے ہونے کے انتظار میں دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر حقے کے کش لگانے لگا۔ خالی ڈرم میں مرغی پھڑک رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ڈرم سے آنے والی آوازیں بند ہو گئیں۔ مرغی نے تڑپنا پھڑکنا بند کر دیا تھا چنانچہ دکاندار نے جھک کر ڈرم میں ہاتھ ڈالا اور مرغی کو ٹانگ سے پکڑ کر میز پر رکھ دیا اور پھر منٹوں میں اس کی کھال اتار کر اس کی بوٹیاں بنائیں ، انہیں پولیتھین کے لفافے میں بند کرکے لفافہ میرے ہاتھ میں تھما دیا، ایک کپڑے سے خون آلود چھری صاف کرنے لگا اور پھر کچھ ہی دیر بعد دوبارہ ایک قابلِ احترام بزرگ کے روپ میں نظر آنے لگا کیونکہ اس نے خون آلود چھری کو کپڑے سے صاف کر دیا تھا اور خون کے پرانے اور نئے دھبوں سے بھرا ہوا چولا اتار کر پرے رکھ دیا تھا۔ نیچے وہی دودھ کی طرح سفید کرتا تھا جس پر خون کی ایک چھینٹ بھی نہیں تھی۔ اس کا آٹھ نو سالہ پوتا اس کے لئے گھر سے ناشتہ لایا تھا اور ساتھ آج کا اخبار بھی۔ اس نے ناشتے کی پوٹلی کھول کر کائونٹر پر رکھ لی اور اب وہ ناشتے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے قتلِ عام کے بارے میں شائع شدہ خبریں پڑھ رہا تھا۔ میں نے اخبار سے منسلک ادبی صفحے پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈالی جس میں کسی قاری نے پوچھا تھا کہ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

والا شعر کس شاعر کا ہے۔

میں دکان سے نکل کر اس دلدل کے قریب پہنچ گیا جسے میں نے اینٹوں کے ’’پل‘‘ کے ذریعے پار کرنا تھا مگر دوسری طرف سے ایک اور گاہک ہاتھ میں تھیلا پکڑے اس پل سے گزر کر دکان کی طرف آ رہا تھا۔ معزز بزرگ نے گاہک کو دکان میں داخل ہوتے دیکھ کر ناشتہ درمیان میں چھوڑا، میز پر سے خون آلود چولا اٹھا کر پہنا، چھری کو سان پر تیز کیا اور سہمی ہوئی مرغیوں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ اللہ جانے بےبس مخلوق کو ان قاتلوں سے کب نجات ملے گی؟