یاسمین راشد صاحبہ نے اُکتاکر لاہوریوں کو ’’جاہل‘‘ قرار دیا تو مجھے کئی دوستوں نے فون کئے۔ انہیں یقین تھا کہ میرے اندر بیٹھا جماندرو لاہوری ان کے کلمات سن کر چراغ پا ہوگیا ہوگا۔ ایمان داری کی بات اگرچہ یہ ہے کہ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے لاہوریوں کے بارے میں کہاں اور کس وقت کیا فرمایا ہے۔
لفظ ’’جاہل‘‘ کا ذکر ہو تو مجھے کئی برسوں سے بلھے شاہ کا ’’علموں بس کریں او یار‘‘ یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔منیر نیازی کے اس شعر نے میرے رویے کو مزید تقویت دی جس میں انہوں نے باب علم کی دہلیز پر کھڑے دوست کو مشورہ دیا تھا کہ ’’اس خوف میں داخل نہ ہو‘‘۔
علم سے ہمیں واقعتا کوئی دلچسپی ہوتی تو بخدا اِن دنوں ایک لمحہ کو بھی سکون سے سو نہیں پاتے۔ 2020-21کا بجٹ پیش ہونے سے قبل مثال کے طورپر ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے جید ماہر معاشیات نے جنہیں ہم نے بہت چائو سے اپنی معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کے لئے وزارتِ خزانہ کا مدارالمہام بنایا تھا پنجابی محاورے والے ’’پولے منہ‘‘ سے یہ اطلاع دیتے سنائی نہ دیتے کہ ہماری شرح نمو منفی کی حد سے نیچے چلی گئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ واقعہ آج سے 68برس قبل 1951-52کے مالیاتی سال کے دوران ہوا تھا۔ان دنوں اگر یہ واقعہ ہوا تو اس کی وجوہات بآسانی سمجھی جاسکتی ہیں۔پاکستان 1947میں قائم ہواتھا۔اس کے قیام کے لئے جو بٹوارہ ہوا اس نے ہندو مسلم فسادات کی آگ بھڑکائی۔ تاریخ انسانی کی عظیم ترین نقل مکانی ہوئی۔نوزائیدہ مملکت ابھی استحکام کی راہ ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ قائد اعظم رحلت فرماگئے۔ ان کے بعد ہمیں فقط لیاقت علی خان ہی کا سہارا تھا۔انہیں مگر راولپنڈی کے جلسہ عام میں قتل کردیا گیا۔ہمارے عوام قائدین سے محروم ہوکر بوکھلاگئے۔ اسی بوکھلاہٹ نے معاشی جمود کی کیفیت پیدا کی۔
یاد رہے کہ ایسی کیفیت ہمارے ہاں 1971میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی رونما نہیں ہوئی تھی۔2007سے تقریباََ دس برس تک جاری رہی دہشت گردی نے بھی ہماری شرح نمو کو یقینا سست رفتاری کا نشانہ بنایا۔منفی کی سطح سے نیچے مگر ہم 1951-52کے بعد کبھی نہیں پھسلے۔ حکومتی ترجمانوں کے دعوئوں پر اعتبار کریں تو کرونا کی وجہ سے محض اڑھائی مہینوں تک لاگو ہوئے نیم دلانہ لاک ڈائون نے ہماری معیشت پر وہ زبوں حالی مسلط کردی جو 1971کی جنگ اور نائن الیون کی وجہ سے ابھری دہشت گردی بھی نازل نہ کر پائی۔سوال اٹھانا تو یہ ضروری ہے کہ ایک ایماندار قیادت کی نگرانی میں کامل اختیارات کے حامل ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب اپنی پالیسیوں پر کامل عملدرآمد کے باوجود کرونا کا جھٹکا کیوں برداشت نہیں کر پائے۔یہ سوال مگر ہم صحافی اٹھائیں گے ہی نہیں۔
کسی اور سے گلہ کیوں کروں۔ مجھے خود کو قطعاََ علم نہیں ہے کہ ’’شرح نمو‘‘ واقعتا کیا ہوتی ہے۔ اسے کیسے طے کیا جاتا ہے۔فقط اتنا جانتا ہوںکہ نظربظاہر ہماری معاشی ’’کھوتی (گدھی)‘‘ 68برس تک گھوم گھماکر اسی مقام پر لوٹ آئی ہے جہاں 1951-52میں کھڑی تھی۔گزشتہ 68برس گویا ہم کولہو کے بیل کی طرح دائرے میں سفرکررہے تھے۔منیرنیازی کو ہمارے ہاں ’’حرکت تیز تر نظر آتی تھی‘‘۔ان کا قنوطی ذہن بھی لیکن ’’سفر آہستہ آہستہ‘‘ کا اعتراف کرنے کومجبورہوگیا تھا۔اب یہ دریافت ہورہا ہے کہ ’’سفر آہستہ آہستہ‘‘ بھی کسی منزل کی جانب نہیں تھا۔ہم دائرے ہی میں گھوم رہے تھے۔
’’جہالت‘‘ کا شکریہ کیونکہ اس نے لاہور،اسلام آباد اور کراچی جیسے شہروں میں بیٹھے نام نہاد دانشوروں کو اس امر کی بابت غافل رکھا ہواہے کہ اس ہفتے کے اختتام پر افریقہ کے صحرائوں سے چلے ٹڈی دل کے ممکنہ طورپر ماسکو شہر کے برابر ’’بادل‘‘ ہماری زرعی زمینوں پر نازل ہونا شروع ہوجائیں گے۔وہ جس تیزی سے کھیتوں میں لگے سبزے کو چٹ کرتے ہیں اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔میرے منہ میں خاک اگر ٹڈی دل اسی شدت سے حملہ آور ہوا جس کا اندیشہ ہے تو ہمارے ہاں بلوچستان سے ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلی ہزاروں ایکڑ زرعی زمین جنگ سے تباہ حال رقبوں کی صورت اختیار کرلے گی۔اس کی وجہ سے خوراک کا جو بحران نمودار ہوسکتا ہے اس کی وحشت سے ہم بے خبر ہیں۔
’’جہالت‘‘ ہی کے طفیل ہم ابھی تک بے خبر ہیں کہ اس برس ساون بھادوں معمول سے کہیں زیادہ بارشیں برسائے گا۔ایسا ہوا تو ملک کے کئی علاقوں میں 2010جیسی سیلابی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔کرونا،ٹڈی دل اور غیر معمولی مون سون اجتماعی طورپر ہماری معیشت کو جو جھٹکے لگاسکتے ہیں ان کا ذکر ہمارے میڈیامیں اس شدومد سے ہوہی نہیں رہاجس کے وہ حق دار ہیں۔
ہمارے جی کو بہلانے ان دنوں لداخ کے محاذ پر بھارت کی ہمارے یار چین کے ہاتھوں بنی درگت کا ذکر ہورہا ہے۔5اگست 2019کے دن جب مودی سرکار نے ماضی کی ریاستِ جموںوکشمیر کو دو حصوں میں کاٹ کر لداخ کو الگ صوبہ قرار دیا تو اس کالم میں بارہا اس کی جانب توجہ دلاتا رہا۔مجھے یقین تھا کہ لداخ کے ساتھ لیا ’’پنگا‘‘ چین نظرانداز نہیں کر پائے گا۔ گزشتہ دنوں سے اس محاذ پر جو ہورہا ہے اس کے بیان سے مجھے سینہ پھلاکر اپنی ’’فراست‘‘ کے ڈھول بجانا چاہیے تھے۔بخدا مجھ میں مگر ہمت ہی نہیں۔منیرنیازی کے مشورے کو نظرانداز کرتے ہوئے ’’اس خوف‘‘ میں داخل ہوگیا تھا۔دل ودماغ ہمہ وقت کرونا،ٹڈی دل اور معمول سے زیادہ بارشوں والے ساون بھادوں کے اجتماعی اثرات کی بابت سوچتے ہوئے بوکھلائے رہتے ہیں۔
’’اس خوف‘‘ کو بھلانے میں منگل کی شام عمران حکومت کے بلندآہنگ اور جواں سال وزیر مواصلات جناب مراد سعید صاحب نے میری بہت معاونت فرمائی۔قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ایک پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے جسے اُردو میں نجانے کیوں ’’نقطہ اعتراض‘‘ کہا جاتا ہے ایوان کی توجہ اس جانب دلائی کہ سوشل میڈیا پر ہمارے وزیر خارجہ سے منسوب چند بیانات ’’وائرل‘‘ ہورہے ہیں۔ان بیانات کے ذریعے شاہ محمود قریشی صاحب مبینہ طورپر یہ کہتے سنائی دئیے کہ بھارت اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن گیا تو پاکستان کی نظر میں ’’قیامت‘‘ برپا نہیں ہوجائے گی۔اس کے علاوہ پاکستانی وزیر خارجہ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دینے کا الزام بھی لگایا جارہا ہے۔
پارلیمانی کارروائی کو 1985سے مسلسل رپورٹ کرتے ہوئے میں نہایت دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوںکہ خواجہ آصف صاحب کا اٹھایا یہ پوائنٹ وقت کا زیاں تھا۔ پیر کے دن انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نون کے سینئر ترین رکن ہوتے ہوئے شہباز صاحب کے بجائے گزشتہ جمعہ کے دن پیش کردہ بجٹ تجاویز پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ان کی طولانی تقریر75منٹ تک جاری رہی۔وہ منگل کے دن اٹھائے ’’نقطہ اعتراض‘‘ کے ذریعے بیان کردہ سوالات کو اپنی تقریر کے دوران بھی اٹھاسکتے تھے۔انہوں نے مگر منگل تک ’’رونق‘‘ لگانے کا انتظار کیا۔
حقائق سے ہماری توجہ ہٹانے کو تحریک انصاف نے قاسم سوری کی صورت قومی اسمبلی کو ڈپٹی سپیکر بھی دے رکھا ہے۔انہیں اس منصب پر فائز ہوئے دو برس ہونے کو ہیں۔اس منصب کے تقاضوں کو مگرابھی تک دریافت نہیں کر پائے۔خارجہ اُمور سے موصوف کا کوئی لینا دینا نہیں۔اس ضمن میں بلکہ کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاہ محمود قریشی صاحب کے بھی پرجلتے ہیں۔خواجہ صاحب کے اٹھائے سوالات نے قاسم سوری کو جذباتی بنادیا۔نہایت اعتماد سے اعلان فرمادیا کہ ’’میں وعدہ کرتا ہوںکہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ انہیں یقین دلانے کی ضرورت نہیں تھی۔مناسب یہی تھا کہ حکومت کو ہدایت فرمادیتے کہ شاہ محمود قریشی صاحب سے رابطہ کیا جائے۔وہ ایوان میں آکر وضاحت فرمادیں۔ دریں اثناء قومی اسمبلی بجٹ تجاویز پر بحث جاری رکھے۔
قاسم سوری صاحب کو مگر خواجہ آصف صاحب کی پارٹی کے لئے ’’موراوور‘‘ درکار تھا۔ یہ فریضہ ادا کرنے کے لئے انہوں نے مائیک مراد سعید صاحب کے سپرد کردیا۔مراد سعید صاحب نے ’’اقامہ‘‘ والے خواجہ آصف کو ان کی ’’اوقات‘‘ یاد دلانا شروع کردی۔ان کے غضب کی مگر یہ محض ابتدا تھی۔خواجہ صاحب کا اپنے تئیں ’’مکو ٹھپنے‘‘کے بعد انہوں نے نریندرمودی اور سجن جندال کے ’’دوست‘‘ نواز شریف کا انتہائی حقارت سے ذکر شروع کردیا۔مسلم لیگ (نون) کے چند اراکین اسے برداشت نہیں کر پائے۔لاہور کے ایک قدآور ’’جاہل‘‘ روحیل اصغر شیخ اس ضمن میں چراغ پا ہوگئے۔ مرادسعید اور ان کے مابین گلی والی ’’ڈنڈی پٹی‘‘ ہوسکتی تھی۔قاسم سوری نے گھبراکر وقفہ کا اعلان کردیا۔
یہ مناظر دیکھتے ہوئے میں واقعتا بھول گیا کہ میرے وطن کے لاکھوں افراد کرونا کی زد میں آسکتے ہیں۔میں ٹڈی دل کا ممکنہ حملہ بھی بھول گیا۔ساون بھادوں ذہن سے قطعاََ محوہوگیا۔قاسم سوری اور مراد سعید کا شکریہ کہ انہوں نے یہ مسائل بھلادئیے۔ یاسمین راشد صاحبہ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ربّ کریم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہیں ایک ’’جاہل‘‘ ہجوم پرحکمرانی کا موقعہ نصیب ہوا ہے۔ہم فوری طورپر درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کے بعد سوالات اٹھانے کے عادی ہوتے تو 68برس کے طویل وقفے کے بعد ایک بار پھرخود کو منفی شرح نمو پرجامد ہوا نہ پاتے۔