گو شہ خاصمنتخب تحریریں

آخر اس فائل میں ایسا کیا تھا۔۔

Share

صورتحال یہ تھی کہ صدر تارڑ کی فراغت اور ان کے منصب پر قبضے کا حتمی فیصلہ کر لینے کے باوجود چیف ایگزیکٹیو کا کیمپ رسمی طور پر سب اچھا کی خبر دے رہا تھا۔

21اپریل 2001کو عمان کے بادشاہ سلطان قابوس کے استقبالیہ گارڈ آف آنر کے لئے جنرل مشرف کچھ لمحے پہلے آ گئے۔ پرنسپل سیکرٹری سعید احمد صدیقی اور میں باہر ہی کھڑے تھے، جنرل صاحب پریس پہ برسنے لگے ’’بھلا یہ کوئی موقع ہے افواہوں کا، یا تو یہ لوگ سمجھتے نہیں یا جان بوجھ کر قومی مفاد کو نظر انداز کرتے ہیں‘‘۔ ان کا اشارہ واضح طور پر صدر تارڑ کی رخصتی کی خبروں کی طرف تھا۔

26اپریل کو چیف ایگزیکٹیو نے صدر تارڑ کے اعزاز میں اپنے گھر پر فیملی ڈنر کا اہتمام کیا۔ صدر تارڑ محبت کی اس فراوانی پر مسکراتے ہوئے کہنے لگے ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘۔

عشائیے میں آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل محمود اور چیف ایگزیکٹو کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز بھی مدعو تھے۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ آرمی ہائوس میں ہونے والے عشائیے میں اسی آرمی ہائوس میں ہونے والی نہایت اہم میٹنگ کا کوئی اشارہ تک نہ تھا۔

صدر کو یہ خاموشی بہت کھٹک رہی تھی۔ دو دن بعد جنرل محمود ایوانِ صدر آئے، مسئلہ جو بھی تھا صدر نے دبے لفظوں میں آئے روز کی افواہوں کا ہلکے پھلکے انداز میں تذکرہ کیا تو جنرل محمود نے انہیں پریس کی ہوائیاں قرار دے کر مسترد کر دیا۔

یہ 2مئی 2001ءکا ذکر ہے۔ شام کو مجھے معروف خاتون صحافی عروسہ عالم کا فون آیا جو ان دنوں زاہد ملک مرحوم کے انگریزی اخبار پاکستان آبزرور سے وابستہ تھیں۔ پوچھنے لگیں ’’کیا آپ کے علم میں ہے کہ راولپنڈی میں اعلیٰ فوجی قیادت کا ایک اجلاس ہوا ہے جس میں فیصلہ ہوا ہے کہ صدر تارڑ کو اگست تک صدارت کے منصب سے ہٹا دیا جائے اور جنرل مشرف خود صدر بن جائیں‘‘۔

میں نے منصبی نزاکت کے پیش نظر الفاظ چباتے ہوئے کہا ’’اس طرح کی باتیں تو آئے دن سننے میں آتی رہتی ہیں‘‘ عروسہ بولیں ’’ہماری معلومات کے مطابق یہ بات خود صدر تارڑ کے علم میں ہے‘‘۔ میں نے تصدیق یا تردید سے گریز کیا، اگرچہ ڈاکٹر اے کیو خان کے ذریعے یہ بات صدر تک پہنچ چکی تھی۔ غالباً عروسہ کی خبر کا مآخذ بھی یہی تھا۔

4مئی کو یہ خبر ’’پاکستان آبزرور‘‘ میں نمایاں طور پر شائع ہو گئی۔ یہ متعین اور ٹھوس حوالوں کے ساتھ آج تک اپنی نوعیت کی پہلی خبر تھی۔ میں نےخبر کی تردید یا کم از کم وضاحت کیلئے بہت ہاتھ پائوں مارے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر، سیکرٹری اطلاعات، پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور جانے کون کون لیکن کوئی بھی کسی طرح کے باضابطہ ردعمل پر تیار نہ ہوا۔ پورا مئی افواہوں، قیاس آرائیوں اور شکوک و شبہات کی اسی دھند میں لپٹا رہا تاہم ’’جی کا جانا ٹھہر گیا ہے‘‘ کی گونج تیز ہوتی گئی۔

30مئی کو صدر تارڑ نے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ، صوابی کے جلسہ تقسیم انعامات کیلئے جانا تھا، ہیلی کاپٹر میں بیٹھے ہوئے ہم سب نے محسوس کیا کہ صدر کی طبیعت ٹھیک نہیں، بوجھل پن ان کے چہرے سے عیاں تھا۔

تقریب کے بعد چائے کے دوران غلام اسحاق خان تو ایک صوفے پر بیٹھ گئے البتہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صدر تارڑ سے راز و نیاز کرتے رہے۔ ان کے خیال میں ’’معرکۂ صدارت‘‘ اگست کے بجائے اب جون میں ہونے جا رہا تھا۔

واپسی پر ہم نے صدر سے ان کی طبیعت کا پوچھا تو کہنے لگے ’’کوئی ایسی بات نہیں ٹھیک ہوں‘‘۔ یہ راز اگلے دن کھلا جب انہوں نے شام کی نشست میں مجھے تفصیل سنائی۔

30مئی کو صوابی روانہ ہونے سے قبل انہوں نے اے ڈی سی سے کہا کہ جنرل مشرف صاحب سے بات کرائیں۔ اے ڈی سی کا رابطہ ہو گیا، ادھر سے فون ہولڈ کرایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مشرف صاحب کے آپریٹر نے کہا ’’چیف ایگزیکٹیو کہہ رہے ہیں کہ وہ دفتر پہنچ کر کال بیک کریں گے‘‘۔

حساس طبع صدر نے اسے اپنی سبکی جانا کیونکہ اکتوبر 1999سے اب تک کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ دن بھر بھی کوئی رابطہ نہ ہوا۔ رات کو فون آیا تو صدر نے کہا ’’جنرل صاحب ملاقات کے لئے کوئی وقت نکالیے‘‘۔ روایت یہ تھی کہ ایسی بات پر مشرف فوراً یا اگلے دن آجایا کرتے تھے، اس بار وہ کامل آٹھ دن بعد 6جون کو تشریف لائے۔ اُس دن بھی کہہ گئے ’’آپ دورہ چین کی تیاری کریں‘‘۔

یہ اگلے ہی دن 7جون کا ذکر ہے، صدر تارڑ نے دفتر میں آتے ہی پرنسپل سیکرٹری سعید احمد صدیقی اور مجھے یاد کیا۔ ایک فائل مجھے تھماتے ہوئے کہا ’’ذرا دیکھیں اسے‘‘ میں نے تھوڑی سی تفصیل پڑھی، چیف ایگزیکٹیو کے دستخطوں سے مزین ایک سمری تھی اس کے ساتھ ہی ایک آرڈیننس کا مسودہ بھی منسلک تھا۔ صدیقی صاحب نے بھی دیکھی۔

چیف ایگزیکٹیو سے آنے والی ہر سمری میں ان کے دستخط کے نیچے پانچ سطور میں ان کے عالی مرتبت عہدوں کا ذکر ہوتا تھا۔ دستخط کے عین نیچے جنرل پھر چیف ایگزیکٹیو، پھر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، پھر چیف آف آرمی اسٹاف اور آخر میں نام ’’پرویز مشرف‘‘ اس سمری میں بھی یہی ترتیب تھی۔

صدر کہنے لگے ’’ان لوگوں نے مجھے کیا سمجھ کر یہ آرڈیننس بھیج دیا ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ یہ اتنا چھوٹا آدمی ہے، ان باتوں پر سودا بازی کرلی۔ میں ہرگز اس کی منظوری نہیں دوں گا‘‘۔ ہم دونوں نے ان کے موقف کی تائید کی البتہ کہا کہ فائل پر لکھت پڑھت کے بجائے طارق عزیز کو بلا کر بات کر لیں۔

صدر نے انٹرکام پر اے ڈی سی کو ہدایت دی ہم دونوں اٹھ کر ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر راشد محمود (بعد میں جنرل اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی) کے دفتر میں آبیٹھے۔ ہم چائے پر گپ شپ کر ہی رہے تھے کہ طارق عزیز بھی پہنچ گئے۔ بولے ’’خیر تو ہے نا؟‘‘ وہیں بیٹھ کر چائے پینے لگے۔ اے ڈی سی ونگ کمانڈر حسیب پراچہ (اب ایئر مارشل اور ڈپٹی چیف آف آنر اسٹاف) نے صدر کو اطلاع کی۔

ذرا دیر بعد صدر نے انہیں بلوا لیا۔ علیک سلیک کے بعد فائل اٹھائی اور طارق عزیز کے حوالے کرتے ہوئے کہا ’’میں اس فائل پر کچھ لکھنا نہیں چاہتا، براہِ کرم آپ واپس لے جائیں‘‘۔ طارق عزیز نے فائل کھولی، اس کے حق میں پرزور دلائل دیے لیکن صدر کا فیصلہ حتمی تھا۔ میرا ضمیر مطمئن نہیں، میں اسکی منظوری نہیں دے سکتا ’’آخر اس فائل میں ایسا کیا تھا‘‘۔ (جاری ہے)