بدقسمت ذہین قوم!
میری خواہش ہے کہ کبھی ہمارے ملک میں کوئی ایسا حکمران آئے جس کا تعلق فنونِ لطیفہ سے بھی ہو اور وہ ہماری قوم کی اکثریت میں پائی جانے والی اس ذہانت کو پروموٹ کرے، جو آپ یقین مانیں ایک چٹے ان پڑھ پاکستانی اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں پلنے والے بچوں اور بڑوں میں بھی موجود ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں، ادھر دنیا میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اس کے اگلے ہی لمحے طنز و ظرافت سے بھرپور ایک کلپ سامنے آ جاتا ہے۔ ہمارا وزیراعظم، ہماری کابینہ کے ارکان، اپوزیشن لیڈر ذرا سا آسان بال پھینکیں اس کے اگلے ہی لمحے اس پر چھکے لگائے جا رہے ہوتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ میں جو مقبول ترین کامیڈی شوز ہوتے ہیں ان کے پیچھے ایک پوری ٹیم ہوتی ہے اور پورا شو اسکرپٹڈ ہوتا ہے اور ادھر ترکھانوں کا کام کرتا، یا بسوں میں گولیاں بیچنے والا کوئی نوجوان حسنِ اتفاق سے کسی کامیڈی شو میں شرکت کرتا ہے تو فی البدیہہ ایسے جملے کہتا ہے جو ظرافت اور گہرے طنز کے حامل ہوتے ہیں۔ برگر کلاس انہیں ’’اون‘‘ نہیں کرتی کیونکہ انہیں انگریزی تو کیا ’’چج‘‘ کی اردو بولنا بھی نہیں آتی۔ کبھی کبھی ان پر فحاشی کا الزام بھی لگتا ہے جو ہمیں بجا طور پر سخت ناگوار گزرتا ہے مگر مغرب کے کامیڈی شوز میں ننگی گالیاں، انتہائی فحش جملوں اور بعض اوقات بدبودار حرکتوں پر ہم ہنس ہنس کر دہرے ہو جاتے ہیں۔
یہ ذہانت ہمیں صرف کامیڈی شوز یا کسی سیاسی واقعہ پر فوری طور پر ہدف کی جان نکال دینے والے تبصروں ہی میں نہیں ان تحریروں میں بھی دکھائی دیتی ہے جو سوشل میڈیا پر غیرمعروف افراد کے لکھے ہوتے ہیں۔ میں جب یہ تحریریں پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ہم لوگ اپنا کتنا بڑا ٹیلنٹ ضائع کر رہے ہیں۔ یہی معاملہ مصوری، خطاطی، موسیقی اور دوسرے فنونِ لطیفہ کی بےقدری کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ایک مختصر سی تحریر میں نے پڑھی تو اس میں موجود معاشرتی طنز نے مجھے مجبور کیا کہ آپ کے ساتھ بھی شیئر کروں، لکھنے والے (بےچارے) نے اپنا نام بھی نہیں لکھا تاہم وہ جہاں بھی ہے، جو بھی ہے خدا کرے زیادہ کڑھنا بند کردے۔
اس نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے وہ بتاتا ہے کہ اس کا ایک شادی پر جانا ہوا، ہال کے ایک کونے پر ایک جان پہچان والے شخص پر نظر پڑی۔ جو اکیلا ہی بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ جاکر میں بھی بیٹھ گیا۔ بڑی گرمجوشی سے ملا وہ شخص۔ اس کا گاڑیوں کے پرزے اور انجن آئل وغیرہ کا کام ہے۔ حال احوال پوچھنے کے بعد وہی عام طور پر کی جانے والی باتیں شروع ہو گئیں۔ یعنی مہنگائی اور کاروباری مندی کا رونا، کہنے لگا … ایک بندے نے گاڑی کا آئل تبدیل کروایا، پچیس سو بل بنا، اس نے پیسے دیے اور چلا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ ایک ہزار کا نوٹ جعلی دے گیا۔ اوہ، میرے منہ سے نکلا۔ پھر کیا۔ بڑی گالیاں نکالیں اسے۔ پتا نہیں کون تھا پہلی بار آیا تھا۔ وہ تو شکر ہے میں نے آئل بھی جعلی ہی ڈالا تھا اس کی گاڑی میں۔ ورنہ میں تو مارا جاتا۔ اسی دوران ’’کھانا کھل گیا‘‘ کا نعرہ لگا اور پورے ہال میں گویا بھونچال آگیا۔ وہ مرغی کے قورمے کا ڈھیر پلیٹ میں لئے فاتحانہ اندازمیں واپس آگیا۔ میں سمجھا شاید میرے لئے بھی لے آیا کھانا۔ کہنے لگا۔ پاجی لے آئو آپ بھی۔ بعد میں تو شادی ہال والے خراب کھانا دینا شروع کردیتے ہیں۔ میں اٹھا اور بریانی لے کر واپس آگیا اور اس سے پوچھا۔ اس جعلی ہزار کے نوٹ کا کیا کیا تم نے۔ لڑکے والوں نے شادی پر بلایا ہے۔ دولہے کے والد کو سلامی میں دے دیا وہ نوٹ۔ اور پھر میز کے نیچے چھپائی چار بوتلوں میں سے ایک نکال کر دو گھونٹ میں خالی کردی اور چھ سیکنڈ کا لمبا ڈکار لینے کے بعد دونوں ہاتھ جوڑے۔ عقیدت سے آنکھیں بند کیں اور بولا شکر الحمدللہ! اور میں نے سوچا میزبان بھی جعلی نوٹ دیکھ کر بولا ہوگا ’’شکر ہے میں نے بھی مردہ مرغیاں پکوائی تھیں‘‘!
اور آخر میں مبارک صدیقی کی ایک نہایت خوبصورت غزل:
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا، جلا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے
خیال اپنا، مزاج اپنا، پسند اپنی، کمال کیا ہے؟
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کی راہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہزار طاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا، کمال یہ ہے