کورونا وائرس: کیا پاکستان میں دستیاب وینٹیلیٹرز کے سرکاری اعداد و شمار درست ہیں؟
پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج کرنے والے ڈاکٹر پہلی کوشش کر رہے ہیں کہ بات وینٹیلیٹر تک نہ پہنچے۔
تاہم اگر مریض کے پھیپھڑے اس کا ساتھ چھوڑنے لگیں اور سانس لینا دشوار ہو جائے تو وینٹیلیٹر ہی اس کی زندگی بچانے کا واحد سہارا ہو سکتا ہے۔
مصنوعی تنفس کا یہ نظام انتہائی علیل مریض کے جسم کے مدافعتی نظام کو وقت دیتا ہے کہ وہ اس دوران وائرس کا مقابلہ کر کے اس کا خاتمہ کر سکے۔ یاد رہے کہ وینٹیلیٹر انتہائی علیل مریض کو ضرورت پڑتا ہے، کورونا کے ہر مریض کو نہیں۔
گذشتہ چند ہی روز میں مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ سامنے آنے کے بعد بھی پاکستان میں حکومت کا دعوٰی ہے کہ ملک میں اضافی وینٹیلیٹرز موجود ہیں اور ان کی قلت نہیں ہے۔
تاہم ملک کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں کورونا کے انتہائی علیل مریضوں کو وینٹیلیٹر حاصل کرنے میں دقت کا سامنا ہے۔ ان دونوں شہروں میں مریضوں کی مجموعی تعداد ملک کے کل مریضوں کا 30 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
ایسے میں وینٹیلیٹرز کی دستیابی کا حکومتی دعوٰی کتنا درست ہے اس کی جانچ کے لیے ملک کی مختلف اکائیوں کے مختلف اداروں کے اعداد و شمار دیکھیں تو ایک الجھا منظر نامہ سامنے آتا ہے۔
رواں ماہ کی 14 تاریخ کو سامنے رکھا جائے اور پہلے کراچی کے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کو دستیاب وینٹیلیٹرز پر ایک نظر ڈالیں تو سرکاری طور پر تین مختلف اعداد و شمار ملتے ہیں۔
سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق کراچی کے 15 ہسپتالوں میں کورونا کے انتہائی علیل مریضوں کے لیے وینٹیلیٹرز والے بستر یعنی آئی سی یو بستر صرف 19 باقی بچے تھے۔
تاہم حکومتِ سندھ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان 15 ہسپتالوں میں ایسے بستروں کی تعداد 27 تھی۔ لیکن ان کی فہرست کے مطابق کراچی میں 24 ہسپتال کورونا کے مریضوں کو میسر تھے اور کل ملا کر سب ہسپتالوں میں 76 وینٹیلیٹرز والے آئی سی یو بستر خالی تھے۔
جبکہ وفاقی محکمہ صحت کے ترتیب دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس روز کراچی میں 64 مریض وینٹیلیٹر پر تھے اور 212 وینٹیلیٹرز خالی یعنی مریضوں کے لیے دستیاب تھے۔
تو کراچی میں 14 تاریخ کو کورونا کے انتہائی علیل مریضوں کے لیے وینٹیلیٹر لگے کتنے بستر دستیاب تھے، 19، 27، 76 یا پھر 212؟
اس روز لاہور میں صورتحال کیا تھی؟
صوبہ پنجاب کا محکمہ صحت سرکاری سطح پر انفرادی طور پر ہسپتالوں میں دستیاب کورونا کے مریضوں کو دستیاب وینٹیلیٹرز کے یومیہ اعداد و شمار جاری نہیں کرتا۔
تاہم بی بی سی کے پاس موجود محمکہ صحت کے ایک دستاویز کے مطابق اس روز لاہور میں نجی ہسپتالوں کے 318 سمیت کل 778 وینٹیلیٹرز موجود تھے جن میں سے 398 کورونا کے مریضوں کے استعمال میں تھے۔ یعنی اس روز لاہور میں 380 وینٹیلیٹرز خالی تھے۔
محکمہ صحت کے دستاویز کے مطابق ان میں سے 266 خالی وینٹیلیٹرز نجی ہسپتالوں میں تھے۔
اس کے برعکس وفاقی محکمہ صحت کے اس روز کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں کل 833 وینٹیلیٹرز تھے جن میں سے 296 کورونا کے مریضوں کے زیرِ استعمال تھے۔ ان میں سے 121 وینٹیلیٹرز خالی تھے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں نجی ہسپتالوں کے وینٹیلیٹرز شامل تھے یا نہیں۔
کیا تمام تر خالی وینٹیلیٹرز کورونا کے مریضوں کو مل رہے تھے؟
صوبہ پنجاب کے محکمہ صحت کے مطابق لاہور کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں 348 وینٹیلیٹرز تھے جن میں سے صرف 111 کورونا کے مریضوں کے زیرِ استعمال تھے۔
تاہم ڈاکٹروں کے مطابق لاہور کے کم از کم تین بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں یعنی سروسز، جناح اور میو ہسپتال میں آٹھ تاریخ کے بعد سے کورونا کے مریضوں کے لیے دستیاب تقریباً تمام وینٹیلیٹرز زیرِ استعمال ہیں۔
میو ہسپتال کے چیف ایگزیکیوٹو آفیسر ڈاکٹر اسد اسلم نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے پاس کورونا کے مریضوں کے لیے مخصوص وینٹیلیٹرز والے بستر تقریباً بھر چکے تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں حکومت کی طرف سے واضح ہدایات ہیں ہم کسی کو واپس نہیں لوٹاتے۔ موجودہ صورتحال میں ایسا ہو جاتا ہے کہ کسی کو دو تین گھنٹے انتظار کرنا پڑ جائے لیکن اسے وینٹیلیٹر مل جاتا ہے۔’
ان کے مطابق اگر ایک ہسپتال میں جگہ نہ ہو تو کورونا کے مریض کو دوسرے کسی ہسپتال جس میں وینٹیلیٹر والا بستر دستیاب ہو وہاں بھجوا دیا جاتا ہے۔
لاہور کے جناح ہسپتال کے میڈیکل سپرینٹنڈنٹ ڈاکٹر یحیٰی سلطان اور سروسز ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر افتخار احمد نے بھی یہی مؤقف اپنایا۔
کیا اعداد و شمار اور زمینی حقائق میں بھی تضاد تھا؟
کراچی کے چند بڑے ہسپتالوں میں بھی آئی سی یو وینٹیلیٹرز والے بستروں پر جگہ بھر چکی تھی تاہم سندھ حکومت کے اعداد و شمار میں اس کے برعکس ظاہر ہوتا ہے۔
اگر کراچی کے انڈس ہسپتال کی بات کریں تو سندھ حکومت کے 14 تاریخ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہسپتال میں کل وینٹیلیٹر والے آئی سی یو بستر 20 تھے۔ ان میں سے دو پر مریض وینٹیلیٹر استعمال کر رہے تھے تاہم 15 ایسے تھے جن پر مریض تھے مگر وہ وینٹیلیٹر استعمال نہیں کر رہے تھے۔
حکومتِ سندھ کے مطابق آئی سی یو میں پانچ بستر خالی تھے یعنی وہ کورونا کے مریض استعمال کر سکتے تھے۔ تاہم سندھ کے محمکہ صحت کے اسی روز کے اعداد و شمار کے مطابق انڈس ہسپتال میں وینٹیلیٹرز کے ساتھ آئی سی یو بستروں کی کل تعداد ہی 15 تھی اور آئی سی یو میں کوئی بستر خالی نہیں تھا۔
انڈس ہسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالباری خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کے لیے دستیاب آئی سی یو بستر بھر چکے تھے۔
‘کبھی کوئی مریض صحتیاب ہو جائے یا کسی کی موت ہو جائے تو ہی بستر خالی ہوتا ہے۔’ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتال میں وینٹیلیٹرز والے آئی سی یو بستروں کی تعداد 12 کے لگ بھگ تھی جن میں سے تقریباً آدھے کورونا کے مریضوں کے زیرِ استعمال تھے۔
‘باقی پر اگر مریض ہو اور وہ وینٹیلیٹر استعمال نہ بھی کر رہا ہو تو بھی اس کا وینٹیلیٹر کورونا کے مریض کو نہیں دیا جا سکتا۔’
کیا اعداد و شمار میں اضافی نظر آنے والے بستر یہی ہو سکتے ہیں؟
لاہور کے جناح ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر یحیٰی سلطان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں کورونا کے لیے 32 وینٹیلیٹرز موجود تھے تاہم رواں ماہ کے دوسرے ہفتے سے ان میں زیادہ تر بھرے ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاحال ایسا موقع نہیں آیا کہ ہسپتال آئے ہوئے کسی مریض کو انہیں مایوس لوٹانا پڑا ہو۔ تاہم کئی بار انہیں ٹیلی فون پر وینٹیلیٹر کے لیے استفسار کرنے والے افراد سے معذرت کرنا پڑی۔
ڈاکٹر یحیٰی سلطان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں دستیاب دیگر آئی سی یو بستروں کے وینٹیلیٹرز کو کورونا کے مریضوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
‘زیادہ تر ان پر مریض موجود ہوتے ہیں جن کو وینٹیلیٹر کی ضرورت کسی بھی وقت پڑ سکتی ہے یا وہ پہلے سے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ ان مریضوں کو وینٹیلیٹر سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ اور نہ ہی ایسے بستر سے جڑے وینٹیلیٹر کو ہٹایا جا سکتا ہے۔’
انڈس ہسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالباری نے بھی ان کے اس مؤقف کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ ‘آئی سی یو میں ایسے وینٹیلیٹرز سے جڑے بستروں کو کورونا کے مریضوں کو دینا ممکن نہیں ہوتا۔’
تاہم سرکاری اعداد میں ایسے وینٹیلیٹرز بھی شمار کیے جاتے ہیں یا پھر ان کو ایسے وینٹیلیٹرز کے طور پر دکھایا جاتا جنہیں ضرورت پڑنے پر کورونا کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔