صحت

نیا کورونا وائرس کچھ مریضوں کو زیادہ بیمار کیوں کرتا ہے؟

Share

نئے کورونا وائرس کچھ افراد کو بہت زیادہ بیمار کردیتا ہے جبکہ متعدد ایسے ہوتے ہیں جن پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے دنیا بھر کے طبی ماہرین کی جانب سے تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔

اب ایک نئی تحقیق میں ممکنہ طور پر اس کا جواب دیا گیا ہے، جس میں کووڈ 19 کے مریضوں کے جینیاتی تجزیے کے بعد عندیہ دیا گیا کہ خون کا گروپ بھی اس بیماری کی شدت بڑھانے میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔‎

اس تحقیق کے دوران یورپ کے ہزاروں مریضوں کے جینز کا موازنہ کرنے کے بعد دریافت کیا گیا کہ بلڈ گروپ اے کے حامل مریضوں میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ او گروپ والے افراد میں یہ خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے ابتدائی نتائج تو رواں ماہ کے شروع میں سامنے آگئے تھے مگر اب یہ ایک معتبر طبی جریدے نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے ہیں، جس میں خون کے گروپ کی قسم کے تعلق تو ثابت نہیں کیا گی، مگر مارچ میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج کی تصدیق کی گئی، جس میں ایسے ہی نتائج سامنے آئے تھے۔

اس تحقیق میں اٹلی، اسپین، ڈنمارک، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے سائنسدانوں نے کام کیا تھا اور انہوں نے کووڈ 19 کے 2 ہزار بہت زیادہ بیمار افراد کا موازنہ ایسے ہزاروں افراد سے کیا تھا جن میں اس کی شدت معتدل یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

محققین نے 6 جینز کی اقسام کو سنگین بیماری کے ساتھ جوڑا جن میں سے کچھ وائرس کے حوالے سے کمزور افراد پر اثرانداز ہوسکتی ہیں جبکہ بلڈ گروپس کو ممکنہ خطرے کے ساتھ منسلک کیا گیا۔

خون کے 4 مرکزی گروپس ہیں اے، بی، اے بی اور او، جن کا تعین خون کے سرخ خلیات کی سطح پر موجود پروٹینز سے ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ او گروپ کے حامل افراد مخصوص پروٹینز کو شناخت کرنے کے معاملے میں بہتر ہوتے ہیں، جس سے انہیں کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں نتائج جاری کیے گئے تھے ان میں انسانی جینوم میں ایسے 2 مقامات دریافت کیے گئے جو کووڈ 19 کے شکار افراد میں نظام تنفس ناکام کرنے کا خطرہ بڑھاتے ہیں، ان میں سے ایک مقام اس جین میں تھا جو خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ کے حامل افراد میں کووڈ 19 ہونے کی صورت میں آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

تاہم تحقیق میں شامل جرمنی کی کایل یونیورسٹی کے مالیکیولر میڈیسین کے پروفیسر آندرے فرینک نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ بلڈ گروپ کسی فرد کے زیادہ بیمار ہونے کا تعین کرے۔

انہوں نے کہا ‘ہم اب تک یہ فرق نہیں کرسکے تھے کہ بلڈ گروپ یا بلڈ گروپ سے منسلک کچھ جینیاتی عناصر بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، اپنے کام کے دوران ہم نے بلڈ گروپس کا تجزیہ کرنے کے بعد تخمینہ لگایا کہ او گروپ والے افراد کو 50 فیصد زیادہ تحفظ اور اے گروپ والوں کے لیے 50 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے’۔

رواں ماہ بائیو ٹیکنالوجی کمپنی 23 اینڈ می کی ابتدائی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ او بلڈ گروپ والے افراد میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

نتائج کے مطابق او بلڈ گروپ والے افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں 9 سے 18 فیصد کم ہوتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ وائرس کے خطرے سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں جیسے طبی عملہ اور ضروری کاموں میں مصروف افراد یا ایسے لوگ جو کسی متاثرہ فرد کے رابطے میں رہتے ہیں، تو ان میں او بلڈ گروپ افراد میں وائرس کا خطرہ 13 سے 26 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے دیگر بلڈ گروپس کے خطرے میں کوئی نمایاں فرق دریافت نہیں کیا مگر یہ ضرور بتایا کہ او بلڈ گروپ کے حامل افراد کا ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق پر اپریل میں کام شروع ہوا تھا اور اس میں شامل رضاکاروں سے سروے میں سوالات کے جواب حاصل کیے گئے تھے جیسے کیا انہیں فلو یا نزلہ زکام جیسی علامات کا سامنا ہوا اور کب ان یں تشخیص ہوئی، علاج ہوا یا کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں داخل ہونا تو نہیں پڑا۔

ان رضاکاروں کی جینیاتی معلومات بھی حاصل کی گئی۔

ابتدائی نتائج میں دریافت کیا گیا کہ اے بی او جین جو مختلف بلڈ گروپس کا تعین کرتا ہے، بیماری کی تشخیص کا خطرہ کم کرتا ہے۔

او بلڈ گروپ کے مریضوں کی مجموعی تعداد 1.3 فیصد تھی جبکہ اے بلڈ گروپ کے مریضوں کی تعداد 1.4 اور بی اور اے بی بلڈ گروپس کے مریضوں کی تعداد 1.5 فیصد تھی۔

جب محققین نے یہ دیکھا کن افراد میں وائرس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ او بلڈ گروپ میں کووڈ 19 کی تشخیص کا امکان دیگر کے مقابلے میں میں سب سے کم 3.2 فیصد تھا، اے بلڈ گروپ میں 3.9، بی بلڈ گروپ میں 4 اور اے بی بلڈ گروپ میں 4.1 فیصد تھا۔

مگر کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں اعتراف کیا گیا کہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔

اسی طرح مارچ میں چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں بی کہا گیا تھا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں کووڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ او بلڈ گروپ کے مالک افراد میں یہ خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ مختلف بلڈ گروپس اور کووڈ 19 کے خطرے میں فرق ممکنہ طور پر خون میں موجود مخصوص اینٹی باڈیز کا نتیجہ ہے، تاہم اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

دیگر طبی ماہرین نے نئی تحقیق کے حوالے سے کہا کہ یہ کام محدود ہے اور تحقیقی ٹیم متعدد دیگر عناصر کو زیرغور نہیں لائے جو کسی فرد میں کووڈ 19 کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محققین کو چاہیے کہ وہ دیگر عناصر کو بھی زیرغور لائیں تاکہ سمجھنا ممکن ہوسکے کہ آخر او بلڈ گروپ اس بیماری کے خلاف سوفیصد تحفظ کیوں فراہم نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ ہر ایک کو اس کورونا وائرس کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے چاہے ان کا بلڈ گروپ جو بھی ہو، اس طرح کے ابتدائی شواہد میں یہ تو کہا گیا کہ خون کے گروپس اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق ہے مگر کسی بھی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ او بلڈ گروپ کے حامل افراد کو اس بیماری کے خلاف سوفیصد تحفظ حاصل ہے یا اے بلڈ گروپ والے افراد سو فیصد خطرے کی زد میں ہیں۔