میں ان دنوں بہت سونے لگا تھا اور خواب بھی بہت دیکھتا تھا، ایک روز میں نے ایک بہت عجیب خواب دیکھا، وہی خواب جو ایک دفعہ انتظار حسین نے بھی دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں مدینے کے سفر پر روانہ ہوا ہوں۔ سفر بہت لمبا اور صبر آزما تھا۔ میں سارا دن چلتا رہتا اور رات کو کسی سرائے میں قیام کرتا جہاں ساری رات قرآن مجید کی تلاوت کرتا، نمازیں ادا کرتا، نوافل پڑھتا اور صبح پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا۔ مجھے علم نہیں کہ وہ کون سا ملک اور کون سا شہر تھا جہاں میں ایک بڑے پیڑ تلے بیٹھا گیان دھیان میں مشغول تھا کہ میری نظر سامنے کی طرف اٹھی تو میں نے دیکھا کہ بستی کے کچھ لوگ جن میں خستہ حال عورتیں، مرد اور بچے بھی شامل تھے، میرے سامنے مؤدب بیٹھے تھے۔ جب انہوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ پایا تو ان میں سے ایک مرد نے آگے بڑھ کر میرے قدموں کو بوسہ دیا اور فریاد کی کہ اس کی فصلیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے جل گئی ہیں اور اب اس کے بچے گھروں میں بھوکے بیٹھے ہیں۔ پھر ایک عورت نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا کہ وہ بےاولاد ہے اور اس کے شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا ہے۔ وہ میرے حلیے سے اور میرے گیان دھیان سے مجھے کوئی ولی اللہ سمجھ بیٹھے تھے۔ میں نے ان کے اصرار پر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بہ آوازِ بلند آمین بھی کہا مگر جو سفر تمام تر صعوبتوں کے باوجود میری روحانی آسودگی کی بدولت بہت آسان محسوس ہو رہا تھا وہ مجھے بہت مشکل معلوم ہونے لگا۔ اس بستی کے لوگ میرے لئے نذر نیاز بھی اپنے ساتھ لائے تھے جو میں نے اپنے فقیری چولے کی جیبوں میں رکھ لئے تھے۔ مجھ میں تبدیلی یہ واقع ہوئی تھی کہ اب میں راہ چلتے ہوئے ہر کسی کی جانب اس توقع سے دیکھتا کہ وہ میری طرف عقیدت سے دیکھ رہا ہوگا مگر ان میں سے غالباً کسی کو بھی میرے چہرے سے نور کی شعائیں نکلتی نظر نہیں آئیں۔ اس نفسانی خواہش کے باوجود میرے ذوق و شوق میں ابھی تک کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ میں اسی طرح دن کے اوقات میں جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا، اس کے علاوہ میری زبان پر ہر وقت درود شریف ہوتا، میں قیام کے دوران پہلے ہی کی طرح ساری ساری رات نوافل ادا کرتا، قرآن پاک کی تلاوت کرتا اور دن کو مدینے کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا۔ اگلے روز میں نے لوگوں کا ایک ہجوم اپنی جانب بڑھتے دیکھا۔ ان میں امیرِ شہر بھی تھا اور اس کے جلو میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس عوام کا ایک پورا جلوس۔ امیرِ شہر نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا ’’میرے اہلکاروں نے اطلاع دی ہے کہ آپ ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں، چنانچہ یہ سب لوگ آپ کی قدم بوسی کیلئے حاضر ہوئے ہیں‘‘ بعدازاں امیر شہر نے دست بستہ مجھ سے التجا کی کہ میں ان کے ساتھ ان کے غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماؤں۔ یہ غریب خانہ کیا تھا ایک طلسمات کی دنیا تھی۔ کھانے کا وقت ہوا تو دنیا جہان کی نعمتیں دستر خوان پر موجود تھیں۔ سونےکیلئے بستر نرم و گداز تھا اور کمرے کے پردے حریر و ریشم سے بنے تھے۔ چنانچہ جب سویا تو آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کب کا نکل چکا۔ میں اس رات عبادت بھی نہ کر سکا اور فجر کی نماز بھی قضا ہو گئی۔امیرِ شہر نے مجھ سے درخواست کی کہ میں کچھ دن مزید اسے میزبانی کا اعزاز بخشوں۔
میں نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے مزید کچھ روز اس کے پاس قیام کیا۔ بعد ازاں مجھے مکمل احترام اور عقیدت سے رخصت کرتے ہوئے اس نے مجھے قیمتی ہیرے جواہرات بطور نذرانہ پیش کئے جو میں نے اپنے فقیری چولے میں بھر لئے!میرا رخ تو اب بھی مدینے ہی کی طرف تھا لیکن میرے اندر ایک تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔ میں نے امیر شہر کے محل سے نکلتے ہی پارچات کی ایک دکان کا رخ کیا اور بہت اعلیٰ درجے کے ملبوسات خریدے۔ جن میں سے ایک میں نے وہیں پہن لیا۔ اب راستے میں میرا قیام کسی بہت مہنگی سرائے میں ہوتا تھا۔ میں بہت لذیذ کھانے کھاتا تھا۔ دنیاوی خواہشات میرے اندر اس طرح سرایت کر چکی تھیں کہ میں ہر آنے جانے والے کو اس امید سے دیکھتا کہ شاید یہ میرے ہاتھ چومنے کیلئے آ رہا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔ البتہ یہ تبدیلی ضرور آئی تھی کہ لوگ میرا زرق برق لباس اور میری امارت کے دوسرے مظاہر دیکھ کر مجھ سے مرعوب ہوتے تھے مگر عزت اور عقیدت میں بہت فرق ہے چنانچہ میں نے ایک شخص کو ملازم رکھا جس کا کام صرف یہ تھا کہ وہ لوگوں کو بتاتا تھا کہ یہ بہت نیک آدمی ہے اور مدینے کے سفر پر روانہ ہے۔اس سفر میں مجھے کئی دن گزر چکے تھے اور مجھے مدینہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ایک دن مجھے محسوس ہوا کہ میں مدینے کے مضافات میں پہنچ گیا ہوں چنانچہ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میں نے برابر سے گزرتے ہوئے ایک گھڑ سوار سے پوچھا ’’برادر! یہ جو شہر سامنے نظر آ رہا ہے یہ مدینہ ہے؟‘‘ اس نے میری طرف رحم آمیز نظروں سے دیکھا اور کہا ’’تو غالباً رستہ بھول چکا ہے یہ شہر مدینہ نہیں،تو کہاں سے آیا ہے؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ اسلام آباد سے آیا ہوں۔ اس پر اس نے قہقہہ لگایا اور کہا تو اب بھی اسلام آباد ہی میں ہے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی، میں بہت ملول ہوں، مگر مجھے علم ہے کہ میرا سفر کسی اور نے نہیں، میں نے خود کھوٹا کیا!