کتاب مقدس کی سورہ فرقان کی آیت 63میں ہدایت کی گئی کہ زمیں پر تواضع (یعنی تحمل اور آہستہ روی) اختیار کی جائے اور اگر جاہلوں سے واسطہ پڑ جائے تو انہیں سلام کرکے اپنی راہ لی جائے۔ اپنے سچ پر قیام، دوسروں کے ساتھ رواداری اور فساد سے گریز کا اس سے بہتر نسخہ کیا ہو سکتا ہے۔ مناسب ہوگا کہ مکی دور کی اس آیہ مبارک کے ساتھ قریب قریب اسی دور کی سورۃ الشوری میں بیان کی گئی حکمتوں پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ ارشاد ہوا کہ ’بےشک، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘۔ اور پھر ایک توقف کے بعد فرمایا۔ ’الزام تو اْنہی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمیں میں بغیر کسی حق کے (ناجائز) سرکشی کرتے ہیں‘۔ سبحان اللہ، ایک ہدایت سماجی حکمت سے تعلق رکھتی ہے اور دوسرے مقام پر عمرانی معاہدے کی قوت نافذہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ زمیں (اور اہلِ زمین) پر اختیار کے جواز کا ٹکڑا ایسا نہیں کہ پڑھنے والوں کی نگہ نکتہ رس سے اوجھل رہ سکے۔ اب الوہی حکمت کے ان جواہر پاروں کی روشنی میں آج کے تناظر میں چلے آئیے۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کورونا کی وبا کے بارے میں احتیاطی تدابیر سے بےپروائی برتنے پر اہلِ لاہور کو جاہل کہہ دیا۔ اس پر اہلِ لاہور بھڑک اُٹھے۔ اور سیاست تو آپ جانتے ہیں کہ ایسی چوپال ہے جہاں پگڑی اچھلتی ہے۔ (شاعر نے چوپال کے بجائے ایک بھلی سی جگہ کا نام لیا تھا)۔ سیاسی مخالفین کو موقع مل گیا۔ خوب غزلے دو غزلے کہے گئے۔ یاسمین راشد کا اہلِ لاہور سے رشتہ نصف صدی پر محیط ہے۔ ملک غلام نبی کے صاحبزادے راشد ملک سے بیاہ کر 1972میں لاہور آئی تھیں۔ یہیں طب میں تعلیم کے مراحل طے کئے۔ تیس برس شعبہ طب میں خدمات انجام دیں۔ کرشن نگر کی گلیوں میں اپنی انتخابی مہم چلاتے ہوئے دیکھ کر درویش نے انہیں مادرِ لاہور کہا تھا۔ اہلِ لاہور کو شاید یاد نہیں رہا کہ ملک غلام نبی صوبائی وزیر تعلیم تھے تو ان کی خوش بیانی کا شہرہ بھٹو صاحب تک جا پہنچا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ اپنے طبی تخصص کے باوصف دوٹوک گفتار میں اپنے مرحوم خسر کی قادر الکلامی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ملک صاحب مغفور پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ ان کے صاحبزادے شاہد نبی نے بھی پیپلز پارٹی ہی کے ٹکٹ پر انتخابی معرکے لڑے۔ ڈاکٹر یاسمین سے روایت ہے کہ بڑے ملک صاحب نے انہیں تحریک انصاف میں شمولیت کی نصیحت کی تھی۔ ٹھیک سو برس کی عمر میں ملک غلام نبی نے 2009 میں داعی اجل کو لبیک کہا تو ڈاکٹر صاحبہ ابھی سرکاری ملازمت میں تھیں اور نیا پاکستان مجریہ 30اکتوبر 2011کسی صاحب شجاعت کے کاسہ سر میں محو استراحت تھا۔ اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔ بے جا بدگمانی سے بچنا چاہئے۔ اس دوران ایک دفاعی تجزیہ کار نے بھی نامعلوم کس نادر لمحہ حق گوئی میں ٹیلی وژن پر اعتراف کیا کہ دو برس پہلے موجودہ حکمران جماعت کو ووٹ دینا ان کی جہالت تھی۔ کھیل کی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ کھلاڑی کی قامت کسی ایک مقابلے میں کارکردگی سے طے نہیں پاتی۔ علم اور جہالت مزاج کی افتاں و خیزاں کیفیت سے تعلق نہیں رکھتے، عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے۔ تو صاحب، وہ جو برسوں دنیا بھر کے معاملات پر بلند آہنگ تبصرے اور تحکمانہ تجزیے کیے تھے، اب ان کا کیا کریں۔ تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا۔۔۔
مائیں بیٹوں کی تادیب کریں تو اس میں بھلائی ہی کا پہلو کارفرما ہوتا ہے۔ کم از کم درویش کو ڈاکٹر صاحبہ کی جھنجھلاہٹ میں شفقت محسوس ہوئی۔ ایک پہلو البتہ قابلِ غور ہے۔ گزشتہ برسوں میں یہ رائے بار بار سامنے آئی کہ پاکستان کا تعلیم یافتہ شہری طبقہ عمران خان اور ان کے سیاسی موقف پر فریفتہ ہے۔ پرانی سیاست گری خوار ہے، زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے۔ یہ ایک عجیب تقسیم تھی کہ قلم اور کتاب سے تعلق رکھنے والے تیغ و سناں کی چھتری تلے جا کھڑے ہوئے۔ جدیدیت کا دعویٰ رکھنے والوں نے قدامت کے دفاع پر کمر باندھی۔ سیاسی حد بندیوں میں عصبیت کو دخل تو ہوتا ہے لیکن صاحبان علم اپنے تنقیدی شعور کو کسی فرد کے چرنوں پر ارپن نہیں کرتے۔ غوث بخش بزنجو (خدا ان کے مرقد کو نور سے بھر دے) ایم آر ڈی کی تحریک میں جنرل ٹکا خان کے ساتھ ایک میز پر جا بیٹھے لیکن اپنے مخصوص انداز میں گہرا سانس لے کر اسے ’تاریخ کا جبر‘ قرار دیا۔ نواز شریف کو میثاق جمہوریت کے لئے رحمان ملک کی قیام گاہ واقع ایجویئر روڈ جانا پڑا تو وہ اس پر خورسند نہیں تھے۔ ہمارے ملک میں علم کا دعویٰ رکھنے والوں کو جاننا چاہیے کہ علم بلند بام درس گاہوں کی اسناد، نئی فیشن کے لباس اور اکل و شرب کے انداز سے تعلق نہیں رکھتا۔ علم معلومات کے مختلف اجزا کو ایک ایسی ترتیب میں رکھنے کا ہنر ہے جس سے زمیں پر ظلم کے خلاف مربوط اور قابل عمل حکمت عملی طے پا سکے۔ ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم نے مارچ 1971میں مشرقی پاکستان کے ہم وطنوں پر ظلم کی مخالفت کی؟ کیا ہم نے بلوچستان میں بھٹو صاحب کی چیرہ دستی پر احتجاج کیا؟ کیا ہم نے جنرل ضیاء الحق کے اسلامائزیشن پروجیکٹ کے پس پردہ کارفرما مفادات کی نشاندہی کی؟ کیا ہمارے قلم نے بیان کیا کہ آئی جے آئی کوئی نامیاتی سیاسی بیانیہ نہیں، ظلم کی زنبیل کا دستی اوزار ہے؟ کیا ہم نے افغان پالیسی کی حتمی لاحاصلی پر انگلی اٹھائی؟ کیا ہم نے لکھا کہ پرویز مشرف اپنے سات نکات سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے؟ کیا ہم نے طالبان کی کھلی حمایت کرنے والوں کا احتساب کیا؟ کیا ہم نے 2000سے 2020تک نیب کے احتساب اور سیاسی پخت و پز میں باہم تعلق دریافت کیا؟ کیا ہم نے پوچھا کہ طاہر القادری دو برس سے ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو انصاف دلانے کے لئے وطن واپسی کے روادار کیوں نہیں ہوئے؟ موروثی سیاست کے خلاف ذرائع ابلاغ کو متحرک کرنے والے وطن کیوں چھوڑ گئے؟ انتظار حسین کا ایک کردار کہتا ہے ’’ہمارے باپ ظالم ہیں اور ہماری مائیں جاہل ہیں‘‘۔ بےشک جہالت اس بحران کو کہتے ہیں جب علم ظلم کی مزاحمت سے انکار کر دیتا ہے۔