فتووں کابازار ایک بار پھرگرم ہے۔ پیغامِ پاکستان کہاں ہے؟
یہ دائرہ اب مزید سکڑ گیا ہے۔ آغاز دو فرقوں سے ہوا اوراب یہ ایک مسلک کے تنگنائے تک سمٹ گیا ہے۔ ہم مسلک ایک دوسرے کے خلاف فتوے دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ہر فتنے کو مہمیز دے دیتا ہے۔ یوں اس کی صدائے بازگشت ہر جگہ سنی جا رہی ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ مساجد بند ہیں ورنہ ‘سوادِ اعظم‘ کا یہ داخلی بحران، نہیں معلوم کیسا ہنگامہ برپا کرتا۔
فرقہ اور مسلک کیوں وجود میں آتے ہیں؟ اس لیے کہ آپ اختلاف کرتے ہیں۔ آپ اختلاف کیوں کرتے ہیں؟ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ کبھی مفاد، جو مسلم تاریخ میں فرقہ واریت کا اصل محرک ہے۔ کبھی کسی متن کی تفہیم میں اختلاف جو مسلکی اختلاف کا باعث بنا۔ اسباب اور بھی ہو سکتے ہیں مگر میرے خیال میں اصل یہی ہیں۔ باقی ان کی فرع ہے۔
تاریخی عمل نے اس اختلاف کو مستحکم کیا۔ صدیوں سے جاری ان مناقشات کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ کتب کا احد جتنا پہاڑ کھڑا ہو جائے اگران موضوعات پر لکھی گئی کتب کو جمع کیا جائے۔ کوئی علمی دلیل ان کا خاتمہ کر سکی نہ کوئی مناظرہ۔ اب ہمیں اِن کے ساتھ جینا ہے۔ یہاں تک کہ عالم کے پروردگارکی عدالت لگ جائے اور وہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے۔
اس میں کوئی حرج نہیں اگر یہ اپنے دائرے تک محدود رہے۔ یہ علمی مکالمے کا دائرہ ہے۔ لوگ اپنی بات کہیں اوراس کا استدلال واضح کر دیں۔ دوسرے کے موقف کا رد کریں اور اس کی دلیل بیان کر دیں۔ اس کے بعد یہ فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیں کہ وہ کس رائے کو درست سمجھتے ہیں۔ پھر یہ کہ اختلاف کو نقطہ نظر تک محدود رکھا جائے‘ فردکو ہدف نہ بنایا جائے۔ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ اس دائرے سے باہر نکلتے اور نقطہ نظر کے بجائے فرد کو موضوع بناتے ہیں۔ خود کو مسئلے کی تفہیم و تنقیح تک محدود نہیں رکھتے، دوسروں کے کفروایمان کے بارے میں فیصلہ دیتے ہیں۔ تاویل کا جو حق خود استعمال کرتے ہیں، وہ دوسرے کو نہیں دیتے۔ یوں بحث علم کی دنیا سے نکلتی اور اخلاقیات کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔
فرد کے باب میں اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ حسنِ ظن کو اہمیت دی جائے۔ یہ بحث اس دائرے میں داخل ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسی کا خون ہوتا ہے۔ دوسرے مسلمان کے کفر و اسلام کے بارے میں اس تساہل کے ساتھ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ آدمی کانپ اٹھتا ہے، اگر وہ اس کے نتائج سے واقف ہو۔ اگر وہ جانتا ہو کہ اس باب میں ذرا سی چوک اس کو کس گڑھے میں دھکیل سکتی ہے۔ ایک دنیادار تو شاید اس بات کی نزاکت کو نہ سمجھتا ہو لیکن یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ عالمِ دین کی شہرت رکھنے والا کوئی آدمی اس سے بے خبر ہو گا۔حیرت در حیرت یہ ہے کہ اس بار دوسرا فریق ہم مسلک ہے۔ گویا اصل ہی نہیں، فرع میں بھی۔ آپ سے اتفاق رکھنے والا ہے۔ آپ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور آپ ہی کے مسلک کا وکیل ہے۔ اس کا ایمان آپ کی قائم کردہ کسوٹی پہ پورا اترتا ہے۔ اب یہ توممکن ہے کہ کسی بات کے بیان میں اس سے کوئی چوک ہوگئی ہو جس کی طرف توجہ دلائی جا سکتی ہے‘ لیکن فتویٰ اور وہ بھی آخری درجے کا؟
مقامِ عبرت ہے کہ جو فتوے کا ہدف ہے، وہ بھی دوسروں کے بارے میں فتوے دیتے وقت اسی رویے کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہی بے احتیاطی اور یہی بے باکی۔ اس طرح جو عمل جہاں سے شروع ہوتا ہے، سفر کرتا وہیں لوٹ آتا ہے۔ یہ دائرے کا سفر ہے جو مدت سے جاری ہے۔ حادثہ یہ ہے کہ کوئی اس سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ کیا یہ لازم نہیں کہ اظہارِ اختلاف کو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے؟
ضابطہ اخلاق موجود ہے اور تمام مسالک کے جید علما کی تائید سے جاری ہو چکا۔ اسے ‘پیغامِ پاکستان‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ میں نے فتویٰ بازی کا محاذ گرم ہوتے دیکھا تو پہلا خیال اسی کا آیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی موجودگی میں، یہ کیسے ممکن ہوا کہ منبرومحراب اور سوشل میڈیا پر یہ کاروبار جاری ہے اور کوئی قانون، کوئی ریاست حرکت میں نہیں آ رہی؟
‘پیغامِ پاکستان‘ میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس بائیس نکاتی دستاویز کا ایک نکتہ کہتا ہے ”مسلمانوں میں مسالک اور مکاتبِ فکر قرونِ اولیٰ سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گے، لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہیں ہیں‘‘۔
پیغامِ پاکستان‘ کا تیرہواں نکتہ تو بہت واضح ہے ”عالمِ دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ صحیح اور غلط نظریات کے بارے میں دینی آگہی مہیا کرے اور مسائل کا درست شرعی حل بتائے؛ البتہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے، یہ ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے‘‘۔
گویا ایک ضابطہ اخلاق موجود ہے اور اسے تمام مسالک کے علما کی تائید سے جاری کیا گیا ہے۔ اب عملی صورتحال کیا ہے؟ اختلاف کی بنیاد پر فتوے دیے جا رہے ہیں‘ گالیاں بھی۔ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیرِ عام بھی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ ‘پیغامِ پاکستان‘ کی مخالفت کیا قانونی جرم ہے یا اس کی حیثیت محض اخلاقی ہے؟ جس کا دل چاہے مانے اور جس کا چاہے نہ مانے؟ علما اور مذہبی لوگوں کے لیے تو اخلاقی قید ہر پابندی سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ اخلاقی پابندیوں کا تعلق آخرت میں جواب دہی کے ساتھ ہے۔ ایک عالمِ دین سے بجا طور پر یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت، اخلاقی ذمہ داریوں کے بارے میں زیادہ حساس ہو گا؛ تاہم کسی فعل کے خلاف، قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی وقت متحرک ہو سکتے ہیں جب قانون ان کی پشت پر کھڑا ہو۔ اسی لیے ‘پیغامِ پاکستان‘ کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال کا اٹھنا فطری ہے۔
یہ دستاویز جنوری 2018ء میں جاری ہوئی۔ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا۔ اسے ابھی تک پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ حکومتوں نے اس کے عملی نفاذ کے حوالے سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یوں فتوے بازی کا آتش کدہ سرد ہونے کو نہیں آ رہا۔ اس کو مسلسل ایندھن فراہم کیا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ بھی سمٹتا جا رہا ہے۔
قانونی حیثیت سے قطع نظر، کیا یہ رویہ سماجی و معاشی صورتِ حال سے ہم آہنگ ہے؟ ملک میں اضطراب ہے۔ اس کے اسباب معاشی بھی ہیں اور سیاسی بھی۔ ان پر مستزاد کورونا کی وبا۔ کیا یہ صدیوں پرانے قضیے چھیڑنے کا وقت ہے؟ جو اختلاف صدیوں سے قائم ہے،کیا آج حل ہو جائے گا؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
معاشروں کی بقا صرف حکومت یا ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ یہ ایک سماج کی اجتماعی قوت ہے جو کسی قوم کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ آج بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب تاتاری بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے تو مسلمان علما کن مباحث میں الجھے ہوئے تھے؟ مؤرخ کا کردار آج بھی تبدیل نہیں ہوا۔ یقیناً وہ ذکر کرے گا کہ جب پاکستان ہمہ جہتی بحران میں گھرا ہوا تھا، اس وقت علما کن بحثوں میں اپنی قوت صرف کر رہے تھے۔
ہرمعاشرے اورریاست کامستقبل صرف ایک سوال کے ساتھ جڑا ہواہے: سماج کی سیاسی، مذہبی، علمی، سماجی اور ریاستی قیادت جن ہاتھوں میں ہے،ان کی ذہنی سطح کیا ہے؟ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں صرف اسی ایک سوال کا جواب ہیں۔