سید زادی کا کنگن اور واجپائی کی مبارکباد
14جون 2001کو، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل محمود، ساڑھے آٹھ بجے شب، صدر محمد رفیق تارڑ کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے گفتگو وہیں سے شروع کی جہاں گزشتہ شب ٹوٹی تھی۔ ’’سر بےحد ندامت ہے۔ سخت شرمندگی محسوس ہو رہی ہے…‘‘
صدر نے اُنہیں یہیں ٹوک دیا۔ بولے، کل بھی میں یہی سنتا رہا ہوں۔ آج بھی آپ نے آتے ہی شرمندگی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ جب کربلا میں قیامت بپا ہو گئی۔ سادات کے خیمے جلا دیے گئے تو ایک ننھی سید زادی پناہ کی تلاش میں بھاگی جا رہی تھی۔ اس کے پائوں میں سونے یا چاندی کا کنگن تھا۔ ایک کوفی کی نظر پڑی تو جا لیا۔ وہ اونچی آواز میں گریہ و زاری کرتے ہوئے سید زادی کا کنگن اتارنے لگا۔
معصوم شہزادی نے پوچھا ’’بابا رو کیوں رہے ہو‘‘ کوفی نے اور زیادہ اونچی آواز میں روتے ہوئے کہا ’’کیا کروں بی بی نبیﷺ کی آل پر یہ ظلم ہوتے دیکھ کر کلیجہ پھٹ رہا ہے‘‘۔ سید زادی بولی ’’تو پھر میرا کنگن کیوں اتار رہے ہو؟‘‘ کوفی ہچکیاں لیتے ہوئے بولا ’’بی بی میں نے نہ اتارا تو کوئی اور اتار لے گا‘‘۔ جنرل محمود چپ چاپ سنتے رہے۔ تارڑ صاحب کہنے لگے ’’کوفی کے پاس کوئی دلیل تو تھی کہ کنگن کوئی اور اتار لے گا۔ آپ کے پاس وہ بھی نہیں، سو یہ شرمندگی اور ندامت والی باتیں رہنے دیں۔
وہ بتائیں جس کے لئے آئے ہیں‘‘۔ جنرل محمود بولے ’’سر چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف اگلے بدھ، 20جون کو صدارت کا منصب سنبھالنا چاہتے ہیں۔ یہ فوجی ہائی کمان کا فیصلہ ہے‘‘۔ سپریم کمانڈر نے اپنی فوجی ہائی کمان کا حکم تحمل سے سنا اور کہا ’’ٹھیک ہے‘‘۔ جنرل نے ایک بار پھر استعفیٰ کا ذکر چھیڑا تو صدر تارڑ نے کہا ’’جس طرح آپ کی ہائی کمان کا فیصلہ اٹل ہے، اسی طرح میرا فیصلہ بھی ان شاء اللہ اٹل ہے۔ مشرف صاحب سے کہیں وہ پیرزادہ سے کہہ کے کوئی بندوبست کر لیں، میں استعفیٰ نہیں دے رہا‘‘۔
19 جون، ’’یومِ تسخیر‘‘ کو، جنرل مشرف کے معتمدِ خاص دو پیغامات کے ساتھ صدر تارڑ سے ملنے آئے، پہلا یہ کہ جنرل مشرف کل صبح کے اوقات میں ملاقات کیلئے آنا چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ چیف ایگزیکٹیو کل رات آپ کے اعزاز میں عظیم الشان عشائیہ دینا چاہتے ہیں۔
ان کی خواہش ہے کہ آپ 21جون کو بذریعہ طیارہ لاہور جائیں۔ وہ آپ کو ہوائی اڈے پر الوداع کہیں گے‘‘۔ صدر نے اگلے دن پونے گیارہ بجے کا وقت ملاقات کیلئے دیتے ہوئے باقی تمام عنایات سے معذرت کر لی۔ اُس شام ایوانِ صدر کے آس پاس اچانک فوجی دستوں کی نقل و حرکت بڑھ گئی۔ تمام داخلی اور خارجی راستے سیل کر دیے گئے۔
محمد رفیق تارڑ کا ایوانِ صدر ان کی معزولی سے کئی گھنٹے پہلے محاصرے میں لیا جا چکا تھا۔ میں نے گرین فون پر صدر سے بات کی تو بولے ’’پتا نہیں انہیں مجھ سے کیا ڈر ہے‘‘ ہم جمہوریت، آئین، قانون، عدلیہ، روایات، اخلاقیات، عالمی رائے عامہ اور جانے کیسے کیسے لایعنی خرخشوں میں کیوں پڑے رہتے ہیں؟ 20جون کی صبح زور آوروں کے جادو گھر کے پروردہ جادوگر کا تیار کردہ فرمان جنرل پرویز مشرف کے دستخطوں سے جاری ہوا۔ کہا گیا ’’یہ فرمان فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
اس ترمیمی آرڈر نمبر 2، برائے 2001کے اجرا سے فوراً پہلے جو شخص بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصبِ صدارت پر فائز تھا، وہ فی الفور اپنے عہدے سے فارغ سمجھا جائے گا‘‘۔ بس اتنی سی بات تھی۔ پرویز مشرف کے دستخطوں کے نیچے ان کے چاروں عہدے اہتمام سے درج تھے۔ پانچواں اور مملکت پاکستان کا سب سے بڑا عہدہ اذنِ باریابی کیلئے دست بستہ، دہلیز سے لگا کھڑا تھا۔
منتخب صدر کو ’’جو شخص‘‘ قرار دے کر فارغ کر دینے والی دستاویز پر دستخط کرکے، جنرل مشرف پونے گیارہ سے کوئی بیس منٹ بعد ایوانِ صدر پہنچے۔ اُن کے اسٹاف سے معلوم ہوا کہ صبح صبح بھارتی وزیراعظم واجپائی کا فون آ گیا۔
انہوں نے جنرل مشرف کو ’’مسٹر پریذیڈنٹ‘‘ کہتے ہوئے مبارکباد پیش کی۔ جنرل صاحب نے انکساری سے کہا ’’ابھی تو میں چیف ایگزیکٹیو ہی ہوں‘‘۔ واجپائی بولے۔ ’ہمیں پتا ہے۔ بس چند گھنٹوں کی بات ہے۔ ہم پریذیڈنٹ مشرف کے دورے کے منتظر ہیں‘‘۔
امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے جنرل مشرف کے اس اقدام پر ناپسندگی کا اظہار کیا۔ مسرت و شادمانی کا واحد سندیسہ بھارت سے آیا۔
ملاقات مختصر رہی۔ ساڑھے گیارہ بجے دونوں ایک ساتھ کمرے سے نکلے ہم اُن کے ساتھ ہی لفٹ سے نیچے اترے۔ پورچ میں معزول صدر کی گاڑی کھڑی تھی۔ گاڑی سے دونوں پرچم اتر چکے تھے۔ تارڑ صاحب کے چہرے پر گہرا سکوت تھا۔ چیف ایگزیکٹیو کے چہرے پہ کچھ بھی نہ تھا۔
تارڑ صاحب کی گاڑی حرکت میں آئی تو جنرل مشرف نے چھڑی بغل میں لے کر فوجی سیلوٹ کیا۔ تارڑ صاحب نے پلٹ کر دیکھا نہ سیلوٹ کا جواب دیا۔ بعد میں محترمہ بینظیر بھٹو نے اسے منتخب صدر کی جمہوری ادا قرار دے کر ستائش کی اور لطف اٹھایا۔
تارڑ صاحب دفتر سے نکل کر رہائشی حصے میں آ گئے۔ نوافل پڑھے۔ ظہر کی نماز ادا کی، ہمارے ساتھ الوداعی تصویر بنوائی۔ جنرل مشرف کے اصرار پر وہ سرکاری گاڑی پر لاہور جانے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ ان کی اپنی کوئی گاڑی تھی بھی نہیں۔ پورچ میں تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔
نیوی کا اے ڈی سی عالم اُن کے ساتھ جا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کی لاہور سے لائی ہوئی رضائی سمیت معزول صدر کا سارا اثاثہ دو گاڑیوں کی ڈگیوں میں سما گیا تھا۔ گاڑیاں چلیں۔ ہم نے ہاتھ لہرائے۔ فوراً ہی صدر کی گاڑی رُک گئی۔ ڈرائیور نیچے اُترا۔ بونٹ کے دائیں اور بائیں کھڑے، جھنڈوں سے محروم ڈنڈوں کولٹا دیا۔ بادباں دھجیاں ہو جائیں تو مستول بھی کیوں؟
سہ پہر کو پانچویں منزل پر جشنِ تاج پوشی کا میلہ سج گیا۔ پرویز مشرف مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ایوانِ صدر پہنچ گئے۔ حلف کا وقت ہو گیا لیکن تقریب شروع نہ ہوئی۔ پتا چلا کہ چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ایک عجب اَڑ چن ڈال دی ہے۔ (جاری ہے)