کورونا وائرس جب انڈیا پہنچا تو ایک جانب مندر اور مساجد بند کر دیے گئے وہیں دوسری جانب رامائن جیسا ٹی وی سیریل بہت مقبول شو بن گیا۔
ایسے میں لوگ کیا اپنے بھگوان سے مایوس تھے یا پھر ان کا عقیدہ زیادہ مضبوط ہو گیا۔
رامائن سیریل میں سیتا کا کردار نبھانے والی اداکارہ دہیکا چکالیہ ٹوپی والا کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا زیادہ ہی روحانی ہو جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے دوران آبادی کے ایک بڑا حصے کا رحجان قدرت اور روحانیت کی جانب بڑھے گا۔
اجمیر میں صوفی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے نگراں سید گوہر اس وائرس کو اللہ کا عذاب کہتے ہیں۔
گوہر اور ان کے جیسے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ کے فرشتے کورونا وائرس کو مسجد میں نہیں آنے دیں گے۔
جبکہ کچھ لوگوں نے گائے کے پیشاب کو کورونا وائرس کا علاج بتایا۔
سینٹر فار سٹڈی آف ڈویلپِنگ سوسائٹی سے وابستہ ڈاکٹر ہلال احمد کہتے ہیں کہ جدید مذہب کا سائنس کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ انھوں نے سائنس کو درست قرار دیا ہے۔ جب بھی کوئی غیر مثالی چیز ان کے سامنے آتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کے مذہب میں یہ ہمیشہ سے ہی ہوتا آ رہا ہے۔
مذاہب کے لیے ’نیو نارمل‘
غیر یقینی صورتِ حال پریشان ضرور کرتی ہے لیکن جب تک کورونا وائرس کے لیے کوئی ویکسین نہیں بن جاتی لوگوں کو ایک نئی دنیا میں اپنی زندگی شروع کرنی ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کئی مہینے یا کئی سال سکتے ہیں۔
حالانکہ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ انڈین معاشرہ زیادہ مذہبی ہو جائے گا یا پھر اس معاشرے میں سائنس کے لیے سمجھ بڑھے گی لیکن اس بحران زدہ ماحول میں کچھ اشارے مل رہے ہیں۔ دلی میں رہنے والی سماجی کارکن گیتا شرما ایک ماڈرن اور پراعتماد خاتون ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ اگر میں موجودہ وقت کی بات کروں تو کہوں گی کہ بھگوان نے ہمیں روحانیت کی جانب جانے کا موقع دیا ہے۔ گیتا پیشے سے ایک صحافی ہیں اور لاک ڈاؤن کے دوران وہ اپنے ہی ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کوئی ’عذاب‘ یا ’شراپ‘ نہیں بلکہ ایک سبق ہے اور اس کا جواب مراقبہ ہے۔ بنگلور میں ایک بڑا اشرم چلانے والے گرو جی شری شری روی شنکر کے دنیا بھر میں لاکھوں پیرو کار ہیں۔
انھوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کر کے لوگوں کو مراقبے کا مشورہ دیا ہے۔ سید گوہر کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ اب لوگ اللہ کے نزدیک آئیں گے۔
آن لائن عبادت کا دور
انڈیا میں دو ماہ سے زیادہ عرصے کے لیے تقریباً ہر مندر، مسجد، گرودوارہ یا گرجا گھر بند رہے۔ حالانکہ حال ہی میں ان عبادت گاہوں کو کھولا گیا ہے لیکن وہاں جانے کے لیے کئی طرح کے اقدامات اور رہنما اصول طے کیے گئے ہیں۔
مذہبی دنیا میں بھی سماجی دوری کو تسلیم کرنے کا رجحان نظر آ رہا ہے۔
ریاست راجستھان کے کوٹہ ضلع کے ایک دوکاندار خورشید عالم خواجہ معین الدین چشتی سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں درگاہ تک نہیں جا سکتا لیکن اکثر ویڈیو کال کر کے دعاؤں میں شریک ہو جاتا ہوں۔
خورشید جیسے کئی لوگ ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے مذہبی فرائض کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران درگاہ پر انٹرنیٹ کے ذریعے دعا کرنے یا نظرانہ پیش کرنے کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔سید گوہر کہتے ہیں کہ یہ رجحان جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم انٹرنیٹ کے ذریعے دعاؤں کی خدمات پیش کرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ کورونا کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘
ریاست پنجاب میں گولڈن ٹیمپل کی نگرانی کرنے والی تنظیم شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی یعنی اے ایس جی پی سی کے چیف سیکریٹری روپ سنگھ کہتے ہیں کہ سکھ عقیدت مند گرودوارے میں واپس آنے کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے لوگ یہاں آنا چاہتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں جاری کچھ رجحانات بعد تک جاری رہیں گے۔
ویٹی کن سے پوپ فرانسس کی دعائیہ تقریبات اور پیغامات کو انٹرنیٹ کے ذریعے دکھایا جا رہا ہے۔ امریکہ میں گرجا گھر اور اسرائیل میں سینیگاگ میں دعائیہ تقریبات اور عبادات کو انٹرنیٹ پر شروع کر دیا گیا ہے۔
یہاں تک کے مکہ کی عظیم مسجد نبوی بھی بند ہے۔ دن میں صرف پانچ مرتبہ اذان کی لائیو سٹریمنگ شہر کی خاموشی کو توڑتی ہے۔
مذہب سے جڑی معیشت
اچانک لاک ڈاؤن کے بعد سے مذہبی مقامات کو ملنے والے عطیات اور چندہ میں زبردست کمی آئی ہے۔ دلی سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر منجِندر سنگھ سرسا کہتے ہیں پہلے ہزاروں لوگ گرودوارہ آیا کرتے تھے تو عطیات دیا کرتے تھے جو اب بلکل بند ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور وہ انٹرنیٹ پر لوگوں سے چندہ دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے دلی کے بنگلہ صاحب گرودوارے میں رضا کار ہر روز 25 ہزار لوگوں کا کھانا بنایا کرتے تھے جبکہ ہفتہ اور اتوار کو یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ پہنچ جاتی تھی۔
چونکہ لاک ڈاؤن کے سبب غریب لوگوں کے پاس کام نہیں ہے اور کھانے پینے کی پریشانی ہے، ایسے میں گرودوارے میں رضا کار ہر روز دو لاکھ لوگوں کے لیے کھانا بنا رہے ہیں۔
کورونا کی وبا کے بعد مذہب کتنا بدل جائے گا؟
سرسا کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد جب مذہبی مقامات پوری طرح کھل جائیں گے تب بھی کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں کم ہی لوگ گرودوارے آئیں گے اور گرودواروں کو پہلے کی طرح پیسے کی کمی کو پورا کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ گروداوارہ جس پیسے سے اپنا خرچ چلاتا ہے اس میں کمی آئی ہے لیکن ابھی بھی دنیا بھر سے الگ الگ مذاہب کے لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے عطیات بھجوا رہے ہیں،جس سے کام چل رہا ہے۔