آپ کے پسندیدہ افسانہ نگار کون ہیں ؟ منٹو۔ اُن کا پورا نام کیا تھا؟ پورا نام تو یاد نہیں، بس منٹو منٹو کہتے ہیں۔ اچھا کوئی بات نہیں، اُن کے کچھ افسانوں کے نام بتائیے جو آپ نے پڑھے ہوں۔ افسانے تو بہت پڑھے ہیں، مگر اِس وقت بس ایک آدھ نام ہی یاد ہے، ایک تو سفید شلوار تھا۔ بیٹا سفید نہیں کالی شلوار تھا۔ اوہ سوری! مجھے بس شلوار یاد رہی، رنگ بھول گیا، ویسے بھی منٹو صاحب کہہ گئے ہیں کہ رنگوں میں کیا رکھا ہے۔ برخودار یہ بات منٹو نے کبھی نہیں کہی۔ ارے! نہیں کہی تو انہیں کہنی چاہیے تھی نا، اتنی اچھی لائن ہے، کسی بھی افسانے میں فِٹ کر دیتے۔ اور کوئی افسانہ یاد ہے منٹو کا؟ جی ہاں، رضائی، بہت دلچسپ افسانہ تھا۔ نوجوان اُس کا نام رضائی نہیں، لحاف تھا، اور وہ منٹو کا نہیں عصمت چغتائی کا افسانہ تھا۔ وہی وہی، جس کا بھی تھا، بہت مزے کا تھا۔
یہ اُس گفتگو کا مغز ہے جو ایک نوجوان سے کسی یونیورسٹی کی تقریب میں ہوئی تھی۔ نوجوان پر کیا بگڑتا، ہم خود لڑکپن میں منٹو کو ایسے ہی چسکے لے لے کر پڑھتے تھے۔ کچھ روز پہلے کتابوں کے طاقچے میں ’’پورا منٹو ‘‘ کی تین جلدوں پر نظر پڑی تو ایک مرتبہ پھر ورق گردانی کی نیت سے اٹھا لی، منٹو کے افسانے تو اپنی جگہ شمس الحق عثمانی کا ’’مقدمہ‘‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس عرق ریزی سے انہوں نے منٹو کے تمام افسانوں کو اکٹھا کیا اور صرف اُن افسانوں کے متن اٹھائے جو کتاب کی پہلی اشاعت یا پھر منٹو کی زندگی میں ہی کتاب کے آخری ایڈیشن میں شامل تھے، اُس کے بعد اُن نسخوں کو ترجیح دی جو منٹو کی وفات کے بعد صفیہ بیگم کی اجازت سے شائع ہوئے۔ اسی طرح کچھ افسانے ایسے بھی تھے جن میں منٹو نے بعد ازاں تبدیلیاں کیں، انہیں بھی ترمیم شدہ ایڈیشن کے مطابق بنیادی نسخے میں شامل کیا گیا ہے۔ اِس مقدمے کی سب سے دلچسپ بات منٹو کے افسانوں میں زبان کی غلطیاں ہیں جن کی نشاندہی کسی قدر ملفوف، لکھنوی اور شرمیلے انداز میں عثمانی صاحب نے کی ہے۔ ’متن کی تصحیح‘ کے نیچے انہوں نے اغلاط کی تین قسمیں بیان کی ہیں، واضح اغلاط، غیر واضح اغلاط اور تکرارِ لفظی۔ اِن تمام اغلاط کو عثمانی صاحب نے کمال شفقت سے بریکٹ کے اندر ڈال کے درست کر دیا ہے۔ مثلاً ’اُس کے جوابوں کے اس اختصار میں روکھا پن تھا‘ کو عثمانی صاحب نے ’اُس کے جواب کے اِس اختصار۔۔‘ کر دیا ہے۔ اسی طرح غیر واضح اغلاط میں کئی جگہ آپ نے منٹو کی تحریر کو ’درست‘ کیا ہے، مثلاً منٹو نے اگر پلڑا وزنی لکھا ہے تو اسے پلڑا بھاری کر دیا ہے، ایک جگہ ’ادھار‘ کو ’قرض‘ کر دیا ہے کہ بات کی مناسبت سے وہی موزوں تھا۔ منٹو کے افسانوں میں بکھری ایسی بے شمار اغلاط کو ٹھیک کرکے عثمانی صاحب نے متن کو گویا پاک تو کر دیا ہے مگر اِن تمام جگہوں پر احتیاطاً آگے پیچھے سوالیہ نشان بھی ڈال دیا ہے جیسے کہہ رہے ہوں کہ بھائی میں نے تبدیلی نہیں کی فقط سجھاؤ دیا ہے۔ آکسفورڈ کی شائع شدہ اِس ’پورا منٹو‘ کے سرورق پر لکھا ہے ’تحقیق، تدوین، ترتیب۔ شمس الحق عثمانی‘۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک غلطی ہے، اسے درست کرکے لکھا جانا چاہیے ’تحقیق، تدوین، ترتیب، تصحیح۔شمس الحق عثمانی‘۔
سید علی حیدر نظم طبا طبائی کی شرح دیوان غالب بھی فدوی کے سرہانے دھری ہے۔ اللہ کو جان دینی ہے، یہ شرح اصل کلام سے زیادہ دقیق ہے۔ طبا طبائی نے جہاں غالب کے اشعار کی شرح کرکے معانی کے جہان دریافت کیے ہیں وہاں کئی جگہوں پر غالب کی گوشمالی بھی کی ہے اور بہت سے اشعار میں صرف و نحو اور محاورے کی لغزشوں پر غالب کی گرفت کی ہے، بقول ظفر احمد صدیقی ’’ایسے مواقع پر ان کے طرزِ کلام کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طبا طبائی ایک کہنہ مشق استاد ہیں اور غالب ایک تازہ واردِ بساطِ سخن‘‘۔ آگے انہوں نے غالب کے اشعار کی مثالیں دی ہیں جن پر طبا طبائی کے تبصرے کچھ یوں ہیں: ’جگر تشنہ آزار تسلی نہ ہوا‘ میں ’جگر تسلی نہ ہوا خلاف محاورہ ہے‘۔ ایک اور جگہ غالب کا مصرع ہے ’ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن‘ یہاں طبا طبائی نے محاورے کی غلطی پکڑتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ہم ہی اور تم ہی کی جگہ ہمیں اور تمہیں محاورہ ہے‘۔ اگلا مصرع ملاحظہ ہو ’جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی‘۔ اِس مصرع پر طبا طبائی کے اعتراضات دیکھئے ’سب تشبی ہیں لطیف ہیں، لیکن حاصل شعر کا دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ دو نون متعاقب عیب تنافر رکھتی ہیں اور دو دالیں بھی جمع ہو گئی ہیں۔‘‘ (مطلب یہ کہ صوتی طور پر گراں گزرتا ہے)۔ ایک اور مصرع پر اعتراض دیکھئے ’جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے‘۔ اِس پر طبا طبائی کہتے ہیں کہ ’گفتار میں آنا بات چیت کرنے کے معنی پر اردو کا محاورہ نہیں ہے، ترجمہ ہے‘۔ غالب کے کلام میں طبا طبائی نے اور بھی کئی اغلاط کی نشاندہی کی ہے مگر میرا غالب کے عاشقوں کی مزید دل آزاری کا کوئی ارادہ نہیں اِس لیے فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ فدوی کی روزِ اوّل سے یہ رائے رہی ہے کہ جس شعر کا مطلب سمجھنے کے لیے کونسل کا اجلاس بلانا پڑے اُس شعر کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ فدو ی اور طبا طبائی کے خیالات میں زیادہ فرق نہیں، یہ اور بات ہے کہ میں ذرا ’بیمار شمار‘ رہا ہوں۔
فارسی کا محاورہ ہے ’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘ مگر کبھی کبھی ایسی غلطیاں پکڑنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ ایک فوری فائدہ تو مجھے یہ ہوگا کہ آئندہ وجاہت مسعود جیسا کوئی درویش (یعنی ایسا درویش جو صرف قصہ چہار درویش میں پایا جاتا ہے) زبان و بیان کی غلطی پکڑے گا تو چمک کر کہوں گا منٹو بھی ایسے ہی لکھتا تھا اور غالب نے بھی ایک مصرع میں یہی مضمون باندھا ہے۔ اب چاہے ہم عوام کو مونث لکھیں، چیخ پکار کے درمیان زبردستی ’و‘ گھسا دیں یا فارسی اور عربی تراکیب کے بجائے اردو کے الفاظ کے بعد ترین لکھ کر سستا ترین جیسا لفظ گھڑ لیں تو آپ اعتراض نہ کیجیے گا۔ جس ملک میں انصاف کا خون ہو جاتا ہو اُس ملک میں زبان کے خون پر فقط خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو جانے میں ہی عافیت ہے۔