امیرِ المومنین سے چند گزارشات
ریاستِ مدینہ عرف پاکستان کے امیر المومنین کی گوناگوں مصروفیات کا مجھ ناچیز کو بخوبی احساس ہے۔
یہ بھی اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سپہ سالار سے متعلق ملازمتی و توسیعی قوانین کو باضابطہ و پارلیمانی شکل دینے کے لیے چھ ماہ کے اندر اندر کسی دستاویزی نتیجے پر پہنچنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔
اور مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ ان چھ ماہ کے دوران اس ملک کی کرپٹ حزبِ اختلاف اور ملک کو لوٹ کر کھا جانے والی مافیا کے تعاون سے یہ کام کرنا امیر المومنین کے لیے زہر کا پیالہ پینے کے برابر ہوگا، مگر مجھے یقین ہے کہ امیر المومنین اس آزمائش سے بھی سُرخرو ہو کر نکلیں گے۔
فی الحال تو بس مفادِ عامہ کے تعلق سے دو تین عرضیاں گوش گزار کرنی ہیں تاکہ امیر المومنین ریاستِ مدینہ کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں انھیں بھی ایک نظر دیکھ لیں۔
ان عرضیوں کا تعلق پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتے سے ہے۔
تین کمسن بچے صائم علی، ثاقب علی اور ذوالقرنین کے والدین نے طلاق کے بعد الگ الگ شادیاں کر لیں اور ان بچوں کو پھوپھی (سویرا رمضان) کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
پھوپھی معاشی طور پر ان بچوں کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں لہٰذا انھوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ عدالت نے ان بچوں کے حقیقی والدین کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
میری درخواست ہے کہ کسی بھی ممکنہ عدالتی فیصلے سے قطع نظر سرکار ان تینوں بچوں کو بے حس والدین کے حوالے کرنے کے بجائے اپنی نگرانی میں لے لے۔ ورنہ اس وقت ریاستِ مدینہ عرف پاکستان کی سڑکوں پر جو لاکھوں بچے لاوارث گھوم رہے ہیں ان میں مزید تین کا اضافہ ہو جائے گا۔
اگرچہ تین بچوں کی دیکھ بھال کا کام ریاست کے لیے مشکل نہیں ہونا چاہیے البتہ اس کارِ خیر سے بھی پہلے اگر امیر المومنین بیت المال کے تحت لاہور میں چلنے والے یتیم و بے سہارا بچیوں کے کاشانہِ اطفال کی برطرف ناظمہ افشاں لطیف کی انکشافی ویڈیو بھی دیکھ لیں تو بہت اچھا ہوگا۔
اس کاشانہِ اطفال میں اس وقت لگ بھگ 57 نو عمر بچیاں ہیں اور بقول سابق ناظمہ ان بچیوں پر اعلیٰ اہلکاروں اور بااثر افراد کی سفلی نظر ہے۔ امید ہے کہ امیر المومنین ریاستِ مدینہ کی ان یتیم بچیوں کے تحفظ کا معاملہ ’ارجنٹ کاموں کی ڈائری‘ میں نوٹ فرما کر براہِ راست ماجرا معلوم کرنے اور انصاف دینے کی کوشش کریں گے اور ’وِسل بلوئر‘ کے تحفظ کا بھی اہتمام کریں گے۔
ایک اور مسئلہ بھی حضورِ والا کی فوری توجہ چاہتا ہے۔
ریاستِ مدینہ کے ضلع دادو کے علاقے واہی پاندھی میں گذشتہ ہفتے (21 اور 22 نومبر کی درمیانی شب) علی بخش رند نے اپنی نو برس کی بیٹی گل سما کو بدچلنی کے شبہے میں چار دیگر رشتے داروں کی مدد سے سنگسار کر کے دفنا دیا۔
خوش قسمتی سے اس واقعے میں کوئی طاقتور اور بااثر شخص بھی ملوث نہیں لہٰذا امیر المومنین سے دست بستہ عرض ہے کہ اس معاملے کو براہِ راست دیکھ لیں۔
اسی سے ملتا جلتا تین چار دن پرانا واقعہ پنجاب کے علاقے میلسی میں جہان پور میں ہوا ہے۔ گنے کے کھیتوں سے چھ برس کی زری اور سات برس کی ثانیہ کی لاش ملی ہے۔پولیس کو قریبی رشتے داروں پر شبہہ ہے البتہ ہلاکت سے پہلے ان بچیوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی یا نہیں، اس کا تعین ہونا فی الحال باقی ہے۔
بلوچستان کے ضلع آواران میں چار خواتین علیحدگی پسندوں کو اسلحہ پہنچانے کے الزام میں زیرِ حراست ہیں۔ ان پکی عمروں کی خواتین کی ایک تصویر بھی جاری کی گئی ہے جس میں ان کے سامنے مبینہ طور پر برآمد شدہ اسلحہ بھی سجا ہوا ہے۔
ان خواتین کو حراست میں لیے جانے کے حالات کی بابت متضاد مؤقف سامنے آ رہے ہیں۔ چونکہ بیشتر بلوچستان میں آزاد میڈیا کی رسائی خاصی مشکل ہے، لہٰذا امیر المومنین اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا فرمان جاری کریں، کیونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ بلوچ خواتین کی اس طرح بطور ملزم تصویر جاری ہوئی ہو۔
ااور اگر ہو سکے تو امیر المومنین انتیس نومبر کو ملک گیر طلبا مارچ کے میڈیا بلیک آؤٹ کے ذمہ داروں کی نشاندہی کا بھی حکم جاری کریں۔اس بلیک آؤٹ کی ذمہ داری پیمرا، چینل مالکان اور کیبل آپریٹرز سمیت کوئی لینے کو تیار نہیں۔ ان طلبا مظاہروں میں گلگت تا کراچی بس ایک نعرہ مشترک تھا ۔ ’ہم لے کے رہیں گے آزادی ‘۔ کیا یہ اتنا خطرناک نعرہ ہے کہ شہید طالبِ علم مشال خان کے والد سمیت تین سو افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو جائے ۔
امید ہے کہ جس طرح اوریجنل ریاستِ مدینہ میں بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہوتا تھا نئی ریاستِ مدینہ بھی ان حقوق کے احترام کے بارے میں غور فرمائے گی۔ مگر کوئی جلدی نہیں۔ ابھی تو کم ازکم چار برس باقی ہیں۔