منتخب تحریریں

پینتیس پنکچروں سے علامہ اقبال کی نظم تک

Share

ڈاکٹر صاحب میرے دوست بھی ہیں اور بڑے بھائیوں جیسے بھی۔ میڈیسن کے ڈاکٹر یعنی ایم بی بی ایس ہیں اور ساری عمر بیوروکریسی میں گزاری ہے۔ خود شاعر نہیں لیکن شاعری کا ذوق بہت ہی عمدہ ہے۔ ایسا عمدہ کہ ان کے بھیجے گئے اشعار شاد کر دیتے ہیں۔ بندہ ان اشعار کو پڑھ کر، بلکہ بار بار پڑھ کر لطف لیتا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے انہوں نے ایک فوٹو شیئر کی۔ یہ ایک نظم تھی۔ نظم کے نیچے علامہ اقبال کا نام تھا۔ ایمان داری کی بات ہے نظم پڑھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا کہ یہ نظم کم از کم اس عاجز نے تو علامہ اقبال کے کسی بھی مطبوعہ کلام میں نہیں دیکھی تھی اور مزاج کے اعتبار سے بھی یہ علامہ اقبال کی نظم نہیں لگتی تھی؛ تاہم حیرت اس بات پر تھی کہ ڈاکٹر صاحب سے ایسی غلطی کیسے ہو گئی؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔ یہ تو فیس بک والی شاعری کے قریب بھی نہیں پھٹکتے‘ پھر یہ گھپلا کیسے ہو گیا؟ اسی اثنا میں اس نظم کو پڑھ کر، اور ڈاکٹر صاحب کی شاعری کے ذوق کے بارے میں مشکوک ہونے کے بعد جب یہ میسیج پورا کھولا تو پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ نظم بصورت تصویر مع وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے ٹویٹ والے پیغام کے محض مجھے فارورڈ کی تھی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے ذوق شاعری کے بارے میں اپنے گمان پر بلکہ بد گمانی پر خود کو دل ہی دل میں برا بھلا کہا‘ لیکن پھر سوچا‘ اب اس نظم اور اسے بھیجنے والے اصلی صاحبِ ذوق کا کیا کروں؟
لیکن میرا خیال ہے پہلے اس ٹویٹ کا ترجمہ آپ تک پہنچا دوں۔ گو کہ اس نظم کے حوالے سے کافی کچھ کہا جا چکا ہے مگر علامہ اقبال کے ساتھ ہونے والے اس سلوک پر اب تک جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس سے کم از کم میرا کلیجہ تو ٹھنڈا نہیں ہوا۔ ٹویٹ کا ترجمہ ہے: علامہ اقبال کی یہ نظم میری زندگی کے لائحہ عمل کی عکاسی کرتی ہے۔ میں اپنے نوجوانوں کو اس بات کی ترغیب دوں گا کہ وہ عظیم شاعر کی اس نظم کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے ان کی وہ خدا داد صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں گی جو اس نے ہمیں بحیثیت اشرف المخلوقات ودیعت کر رکھی ہیں۔
اب اصل مسئلہ جو در پیش ہے‘ یہ ہے کہ اس نظم کے پیغام کو ہمارے پیارے وزیر اعظم نے اپنی زندگی کا لائحہ عمل قرار دیا ہے اور ظاہر ہے اس نظم کو علامہ اقبال کی نظم سمجھ کر ہی یہ اعلیٰ مرتبہ عطا کیا گیا وگرنہ کسی ایرے غیرے کی نظم ہوتی تو ہمارے وزیر اعظم اسے در خور اعتنا ہی نہ سمجھتے؛ تاہم اس سے بھی مجھے ایک بڑا مزے دار واقعہ یاد آ گیا ہے۔ اس کے راوی ہمارے ہر دلعزیز اور بہت ہی شاندار مزاحیہ شاعر جناب انور مسعود ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے‘ انور مسعود صاحب اور میں لندن کے علاقے بارکنگ میں ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ ہم ہوٹل کی لابی میں اپنے میزبان کا انتظار کر رہے تھے‘ جب انور مسعود صاحب نے یہ واقعہ سنایا۔ وہ کہنے لگے کہ ان کے ایک دوست نے انہیں بتایا کہ اس نے (انور صاحب کے دوست نے) فلاں شخص کو کئی بار غُچہ دیا ہے۔ انور صاحب نے اپنے اس دوست کو کہا کہ یہ لفظ دراصل غُچہ نہیں بلکہ غَچہ ہے۔ غین کے اوپر پیش نہیں ہے بلکہ زبر ہے۔ انور مسعود صاحب لفظ کے تلفظ اور صحت کے بارے میں بڑے حساس ہیں‘ اس لیے انہوں نے فوری طور پر اپنے دوست کے تلفظ کی تصحیح کر دی۔ انور صاحب کی یہ بات سن کر ان کا وہ دوست ایک دم خاموش ہو گیا‘ اور کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ اسے اس طرح خاموش اور کسی حد تک پریشان دیکھ کر انور صاحب کہتے ہیں‘ مجھے بڑی تشویش ہوئی کہ اسے ایکدم کیا ہو گیا ہے‘ ابھی تو اچھا بھلا تھا‘ باتیں کر رہا تھا۔ انور صاحب نے اس دوست سے اس کی پریشانی کے بارے میں دریافت کیا کہ اسے کیا مسئلہ در پیش ہو گیا ہے؟ وہ دوست ان سے کہنے لگا: میں اس بات پر پریشان ہوں کہ میرے پہلے والے تو سارے ہی غچے غلط ہو گئے ہیں‘ اب اسے نئے سرے سے غچے دینے پڑیں گے‘ آپ خود سوچیں آخر بندے کو پریشانی تو ہوتی ہے ناں!
میں کئی دن سے سوچ رہا ہوں کہ اپنے وزیر اعظم صاحب جس نظم کو علامہ اقبال کی نظم سمجھ کر اسے اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنا چکے تھے‘ وہ نظم تو سرے سے علامہ اقبال کی ہے ہی نہیں۔ اب انہیں نئے سرے سے اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کرنا پڑے گا اور نئے سرے سے زندگی کے اہداف طے کرنے پڑیں گے۔ شاہ جی نے میری بات سنی تو کہنے لگے: ویسے زیادہ مناسب ہے بھی یہی کہ وہ اپنی زندگی کے لیے اہداف اور نیا لائحہ عمل طے کریں۔ ان کا یہ والا لائحہ عمل تو نہ صرف یہ کہ غلط نکلا ہے، بلکہ قوم کے لیے بھی کافی نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اگر انہوں نے اپنی زندگی کا آئندہ کا لائحہ عمل بھی محترم علامہ اقبال کی کسی نظم کو سامنے رکھ کر ہی طے کرنا ہے تو براہ کرم اس بار وہ کسی اردو ادب کے استاد سے پوچھ کر طے کریں‘ یہ نہ ہو کہ انہیں پھر غلطی لگ جائے اور سارا کیا کرایا پھر سے اکارت ہو جائے۔ ویسے ایک بات طے ہے کہ ان کے طرز عمل سے ہی پتا چل رہا تھا کہ ان کی زندگی کے اہداف اور لائحہ عمل واقعتاً کسی غلط والی نظم کے ہی مرہون منت ہیں۔
گزشتہ دنوں شاہ جی ملے تو میں نے حسب معمول ان سے اس بارے میں بھی سوال جڑ دیا۔ شاہ جی بڑے متحمل مزاج آدمی ہیں‘ کسی نا معقول سے نا معقول سوال پر بھی نہ تو ناراض ہی ہوتے ہیں اور نہ ہی سوال کرنے والے کو اس کی کم علمی پر شرمندہ کرتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ شاہ جی! آخر اپنے عمران خان صاحب نے یہ نظم علامہ اقبال کے پیٹے میں کس خوشی میں ڈال دی تھی؟ شاہ جی کہنے لگے، آج کل فیس بک کی ہر پوسٹ صدقہ جاریہ سمجھ کر فارورڈ کرنے کا چلن ہے سو انہوں نے بھی یہی کیا۔ میں نے کہا‘ وزیر اعظم اور عام آدمی میں فرق ہونا چاہیے۔ شاہ جی کہنے لگے‘ اپنے خان صاحب بے شک وزیر اعظم بن گئے ہیں مگر اندر سے عام آدمی ہی ہیں۔ میں نے کہا‘ آخر انہوں نے یہ بات پوسٹ کرنے سے پہلے اپنے کسی مشیر سے کیوں نہیں پوچھا؟ آخر یہ مشیر کس مرض کی دوا ہیں؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے‘ آپ مشیروں کی لسٹ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کیا ان میں سے کوئی اتنا پڑھا لکھا، میرا مطلب ہے اس مضمون میں دسترس رکھنے والا کوئی شخص ان کا مشیر ہے؟ کوئی ایسا شخص جسے اردو ادب یا شاعری سے کوئی لینا دینا ہو؟ پھر وہ آخر کتنے مشیر اور رکھیں؟ جاپان اور جرمنی کی مشترکہ سرحدوں والے معاملے پر ان کو جغرافیہ میں مہارت رکھنے والا مشیر چاہیے۔ رابندر ناتھ ٹیگور اور خلیل جبران کے اقوال میں گڑ بڑ سے روکنے کے لئے عالمی ادب سے واقفیت والا مشیر چاہیے۔ اتنے مشیر ان کو عدالت نہیں رکھنے دیتی اور انہوں نے دنیا کے ہر موضوع پر اپنا علم بھی سب پر آشکار کرنا ہے۔ اب لے دے کر سنی سنائی باتیں اور فیس بک ہی ان کی علمی درس گاہ ہیں۔ ان کا اس میں کیا قصور ہے؟ کوئی ان کے کان میں پینتیس پنکچروں کا انکشاف پھونک دیتا ہے اور کوئی علامہ اقبال کی وہ نظم ان کو بھیج دیتا ہے جو علامہ اقبال نے لکھی ہی نہیں۔ خان صاحب کو خود پر بڑا زعم ہے اور ارد گرد والوں پر بے پناہ اعتبار اور یہ وہ اعتبار ہے جو کبھی وہ جہانگیر ترین پر کرتے تھے۔