کچھ عرصے سے ہمارے ہاں تصوف ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے مگر سچے صوفی ہر دور میں موجود رہے ہیں اور اس وقت بھی ہمارے درمیان ہیں۔ میرے مرشد صوفی غلام رسول ہیں۔ میں ان کی پوری زندگی سامنے رکھ کر ان کا مرید بنا ہوں۔ آپ ایک دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ان کی چار بیٹیاں ہیں، تین بیاہی گئی ہیں۔ ایک ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے، صوفی غلام رسول جس دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے وہاں دس بیس ہزار روپے یومیہ ’’دہاڑی‘‘ کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر صوفی صاحب اپنی محدود تنخواہ میں گزارہ کرتے رہے، ان کا آبائی گھر ڈیڑھ مرلے کا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ معمولی پنشن کی وجہ سے انہیں مالی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو لیکن میں نے ان کی زبان سے کبھی ایک لفظ بھی اس حوالے سے نہیں سنا، ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ میں جب کبھی صوفی صاحب کی زیارت کیلئے انکے ہاں جاتا ہوں وہ مجھے اتنے مطمئن اور اتنے خوش نظر آتے ہیں جیسے دنیا بھر کی کامیابیاں اور کامرانیاں انکے قدموں میں ڈھیر ہو چکی ہیں۔ میں جتنی دیر انکے پاس بیٹھتا ہوں ان کی زبان سے کسی کی غیبت سننے کو نہیں ملتی، انکی شخصیت میں نہ غصہ ہے، نہ کینہ پروری، نہ انتقام، نہ زمانے کی بے قدری کا گلہ، نہ کسی پر بہتان لگاتے ہیں نہ علم کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ انہیں اپنے تقویٰ کا کوئی زعم ہے۔ نماز کا وقت ہوتا ہے تو صرف اتنا کہتے ہیں ’’میں ابھی حاضر ہوا‘‘ اور پھر واپس آ کر دوبارہ اسی طرح محوِ کلام ہو جاتے ہیں، مجھے انکی باتوں میں گُلوں کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ انکے چہرے پہ ہر وقت ایک خوبصورت مسکراہٹ کھلی رہتی ہے اور دیکھنے والا انکی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ میں جب کبھی پریشان ہوتا ہوں، انکی طرف جاتا ہوں اور دعا کے لئے کہتا ہوں، وہ فرماتے ہیں ’’میں تو ایک گنہگار انسان ہوں، مجھے تو خود آپ کی دعائیں درکار ہیں‘‘ میں انکے جواب میں ہنستے ہوئے کہتا ہوں’’پھر تو آپ میرے لئے ضرور دعا کریں کیونکہ میں نے سنا ہے گنہگاروں کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں‘‘۔ وہ بہت کم قہقہہ لگاتے ہیں مگر میری اس طرح کی بات پر وہ ایک ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ’’اللہ کرم کرے گا!‘‘ اور اللہ مجھ پر واقعی کرم کرتا ہے۔
دوسری طرف جن ’’صوفیائے کرام‘‘ کو میں جھوٹی کرامتوں کے شو رومز میں سجا دیکھتا ہوں، وہ کمر کمر تک دنیا میں دھنسے ہوئے ہیں، ان کے دل نفرتوں سے بھرے پڑے ہیں، انکے رویے ان کی اَنا کے اسیر ہیں، ان کے جسموں میں کینہ پروری اور انتقام کے کیڑے پڑ چکے ہیں۔ میں جانتا ہوں ان میں سے کچھ لوگ اپنی گناہ آلود زندگیوں سے بیزار ہو کر سچ کی تلاش میں گھروں سے نکلے تھے لیکن ان کی بدقسمتی کہ انکے مرشد ان کے دلوں کی صفائی نہ کر سکے، انہوں نے دل کی صفائی کیلئے ذکر اذکار بتائے، انہوں نے ذکر شروع کر دیا، ممکن ہے نمازیں بھی ادا کرنا شروع کردی ہوں، وظیفے بھی کیے ہوں، کچھ چلے بھی کاٹے ہوں اور اسکے بعد وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور خود کو تصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز سمجھ لیا۔ اب یہ ’’اللہ کے نیک بندے‘‘ تیل میں بھگویا ہوا بارہ نمبر چھتر ہاتھوں میں لئے صبح صبح گھر سے نکلتے ہیں اور ’’گنہگاروں‘‘ کی چھترول شروع کردیتے ہیں۔ انکے مرید ان کی نمازیں، انکے روزے، ان کی تسبیحیں دیکھ کر مطمئن ہیں کہ ان کا ظاہر ہی نہیں ان کا باطن بھی پاک ہے لیکن انہیں علم نہیں کہ زہد کے غرور سے ان کا باطن مزید غلیظ ہو چکا ہے۔
دراصل روحانی دنیا، رومانوی دنیا سے بہت مختلف چیز ہے۔ یہ خواب و خیال کی نہیں، حقیقت کی دنیا ہے، یہاں ظاہری اعمال نہیں، چھپے ہوئے اعمال پرکھے جاتے ہیں۔ جو اس راہ کے سہل پسند مسافر ہیں وہ چند قدم چلنے کے بعد سمجھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے منزل پا لی ہے اور پھر وہ باقی سب کو حقارت اور نفرت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں، انہیں تصوف ہضم نہیں ہوتا۔ اس دور میں جو چند صوفی دانشور ہیں یا گزر چکے ہیں ان میں سے کچھ سے میری نیاز مندی رہی ہے۔ وہ بالکل عام لوگوں کی طرح نظر آتے تھے، نہایت خوبصورت گفتگو کرتے تھے، ان کی صحبت میں انسان کو قرار ملتا تھا، زندہ صوفیوں میں سید سرفراز شاہ میرے مربی ہیں، وہ صاحبِ کشف ہیں، نہایت خوش مزاج اور اعلیٰ درجے کے میزبان۔ ان کی محفل میں بیٹھیں تو ایک سرشاری کی کیفیت محسوس ہوتی ہے، پروفیسر احمد رفیق اختر کے عقیدت مندوں سے اس بےتکلفی کی معذرت لیکن میرا یہ ایم اے او کالج کے زمانے کا دوست ہے جہاں ہم پڑھاتے تھے، اس کی درویشی کی بنا پر اسے ’’جوگی‘‘ کہا جاتا تھا۔ بلاشبہ ایک اعلیٰ درجے کا نیک، پارسا اور عالم شخص، میں نے تو ان سب کے دل صاف دیکھے، کینہ، نفرت، انتقام، ہوس دنیا، دربار داری، مجھے تو یہ ’’صفات‘‘ ان میں کہیں نظر نہیں آئیں۔ جن گھٹیا درجے کے جھوٹے صوفیوں کا ذکر میں نے کالم کے درمیانی حصے میں کیا تھا یہ صوفی نہیں ہیں بلکہ صوفیوں کے بول و براز بھی نہیں مگر روپ انہوں نے صوفیوں ہی کا دھارا ہوا ہے۔ انکے مرشد ان کے ظاہر کو بہتر بنانے میں لگے رہے اور ان کے باطن کی صفائی بھول گئے۔ بس اب آپ بھی ان کی حکایتیں سنا کریں، ان کے علم و فضل اور کرامتوں کے من گھڑت قصے ان کے تنخواہ دار افراد کی زبانی سنتے رہیں، بس ایسے مواقع پر تو اقبالؔ کا یہ شعر یاد کریں، ایک آہ بھریں اور خاموش ہو جائیں۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری