جدید مشینیں آپ کی روز مرہ کی زندگی آسان بناتی ہیں، لیکن ‘سمارٹ آلات’ سے چلنے والی خدمات، مثلاً بلبوں کو روشن ہونا یا آواز سے کنٹرول ہونے والے آلات کا ایسا بھی استعمال ہو سکتا ہے جو کہ ‘گھریلو تشدد ‘ کی ایک قسم کہا جا سکتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں اربوں لوگوں کی زندگی ان کے گھروں میں ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے۔ فلیٹس اور مکانات اب ان کے لیے کام کرنے کی جگہ، جسمانی ورزش، سکول کی جگہ اور ان کے گھر کی بیٹھک سب ہی لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک جگہ یا ایک کمرے میں سمٹ گئی ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنا بہت سارا وقت جدید آلات کے ساتھ بسر کر رہے ہیں جنھیں ہم سمارٹ آلات بھی کہتے ہیں جو کہ انٹرنیٹ کے رابطے میں ہیں اور جنھیں ہم اپنی آواز سے یا اپنے فون میں لگے ہوئے ایپس کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں۔
ایمیزون ایلیکسا کی ورچوؤل معاونت سے لے کر ایپل کا ‘سری’ اور گوگل ہوم اور سمارٹ بلبوں، کیٹل، سیکیورٹی کیمرے کا نظام، اور تھرموسٹیٹس تک، جنھیں اب مختصراً انٹرنیٹ اشیا یا ‘آئی او ٹی’ کہتے ہیں، ہماری زندگی کوکنٹرول کر رہے ہیں۔
اب ہمارے گھروں کی اشیا پہلے ہی سے انٹرنیٹ سے کنٹرول ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ سمارٹ آلات اب ہمارا ذاتی ڈیٹا جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں کہ ہم یہ اشیا کب استعمال کرتے ہیں کس طرح استعمال کرتے ہیں اور گھر میں موجود انٹرنیٹ سے چلنے والی دیگر اشیا کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
سنہ 2017 میں ایک اندازے کے مطابق، مجموعی طور پر مختلف گھروں میں تقریباً 27 ارب ایسے آلات زیرِ استعمال تھے جنھیں ہم انٹرنیٹ اشیا کہہ سکتے ہیں۔ سالانہ 12 فیصد کے اضافے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسی اشیا کی تعداد سنہ 2030 تک سوا سو ارب ہو جائے گی۔
امید یہ ہے کہ ‘سمارٹ آلات’ سے ہر چیز کے خودکار ہو جانے سے ہمارا وقت اور ہماری توانائی بچتی ہے۔ ایسا بہت مشکل ہے کہ اس کا مزا نہ لے سکیں کہ ہماری ایک آواز پر ہمیں دنیا بھر کی خبریں سنائی دیں، بلب روشن ہوجائیں یا بجھ جائیں، ہمارے کمرے کو ہماری خواہش کے مطابق گرم یا ٹھنڈا کرنے کے لیے تھرموسٹیٹ کم یا زیادہ ہو جائے۔
ان آلات کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ہماری زندگیوں کو آسان بنائیں، وقت بچائیں اور ہمیں محفوظ رکھیں۔
انٹرنیٹ سے گھر کے باہر لگی گھنٹی کے ساتھ کام کرنے والے کیمرے کو لے لیجیے جو اب بہت سارے لوگوں کے گھروں پر لگے ہوئے ہیں۔ ان کیمروں کے ذریعے آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ دروازے پر کون آیا ہے اور آپ اس سے بات بھی کر لیتے ہیں حالانکہ آپ اس وقت گھر پر موجود نہیں ہوتے ہیں یا اگر ہوتے بھی ہیں تو آپ کو کورونا وائرس کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے۔
گھروں میں اس قسم کے خود کار آلات وائرس کے لگنے کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ دنیا میں ٹیکنالوجی کی مارکٹنگ پر تحقیق کرنے والی ایک کمپنی ‘اے بی آئی ریسرچ’ کے مطابق، کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ‘سمارٹ آلات’ کی فروخت میں کم از کم 30 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ اس ادارے کے ایک ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ‘سمارٹ آلات’ والا گھر زیادہ محفوظ ہو گا۔
لیکن بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہی ‘سمارٹ آلات’ جن کی بدولت ہماری زندگی آسان ہو جاتی ہے دراصل ہماری زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں کیونکہ یہ سہولت دینے والے آلات گھریلو تشدد کے آلات بھی بنائے جا رہے ہیں۔
- جدید ٹیکنالوجی تشدد کرنے والوں کو ہراساں کرنے، کنٹرول کرنےاور پریشان کرنے کے نئے مواقع مہیا کر رہی ہے
اگرچہ گھروں میں تشدد اور ہراساں کرنے کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں، ٹیکنالوجی تشدد کرنے والوں کو ہراساں کرنے، کنٹرول کرنےاور پریشان کرنے کے نئے مواقع مہیا کر رہی ہے۔ خاص کر موبائیل فون جو کسی بچے یا اپنے شریکِ حیات کی سرگرمیوں پر ان کی اجازت یا علم کے بغیر نظر رکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
نیو یارک کی کورنیل یونیورسٹی کی سنہ 2018 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، جن ماہرین نے دوسروں کی اس طرح سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا سوفٹ وئیر بنایا تھا انھیں معلوم تھا کہ یہ اس طرح استعمال ہوسکے گا۔ جب انھوں نے ‘فائنڈ مائی فون’ یا ‘چائیلڈ سیفٹی’ جیسے سوفٹ وئیر پروگرام بنانے والی 11 کمپنیوں سے پوچھا کہ کیا آپ کے ان پروگراموں کو کسی کی سرگرمیوں پر اس کی اجازت کے بغیر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا، ان میں آٹھ نے کہا کہ وہ یہ بات جانتے تھے کہ اس طرح کا استعمال ہو سکے گا۔
ہمارے گھروں میں ایسے آلات کی تعداد میں اضافے سے جو ہماری حرکات و سکنات کے بارے میں ڈیٹا یا دیگر اطلاعات جمع کرسکتے ہیں یعنی ‘آئی او ٹی’ یا ‘انٹرنیٹ اشیا’، تو اس بات کا امکان ہے کہ یہ گھریلو تشدد کے مواقع پیدا کرسکتے ہیں۔
انٹرنیٹ سے جڑی گھروں کی گھنٹیاں جن پر کیمرے نصب ہوتے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی حصے سے ان کیمروں کے ذریعے وہاں نظر رکھنے کی صلاحیت پیدا کردیتی ہیں۔ ایسی گھنٹیوں پر لگے سینسر یہ بھی بتا دیتےہیں کہ کس وقت کون اس گھر سے نکلا یا اس میں داخل ہوا۔ جبکہ خود کار بلبوں کے روشن اور بجھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کب کس کمرے میں کوئی شخص داخل ہوا ہے۔
انٹرنیٹ سے جڑے گھروں کے تالے کسی کمرے میں اس گھر کے رہنے والے کو داخل ہونے سے روک سکتے ہیں یہ کسی کو گھر سے نکلنے سے بھی روک سکتے ہیں۔ آواز سے چلنے والے مدد کرنے والے آلات کے ڈیٹا کو اگر کھول کر دیکھا جائے کہ کب کس نے کیا حکم دیا تھا تو ایک گھر کے رہنے والوں کے آپس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔
ایسے تمام نظاموں میں ایک ایڈمنسٹریشن اکاؤنٹ بھی ہوتا ہےجو کسی ایک شخص کو پاس ورڈ کے ذریعے تمام آلات کو کنٹرول کرنے کا اختیار دے دیتا ہے۔ اگر آپ ان تمام پہلوؤں کو جمع کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ سمارٹ فون غیر ارادتاً کسی ایک شخص کو اس گھر کے دوسرے فرد یا افراد کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار دے دیتا ہے۔
یونیورسٹی آف لندن کے ‘جینڈر اینڈ آئی او ٹی پراجیکٹ’ کی محقق اور لیکچرار لیونی ٹینکزر کہتی ہیں کہ ‘سیلیکون ویلی کے انٹرنیٹ کی اشیا یا آئی او ٹی بنانے والا کوئی بھی ادارہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچتا ہے۔’ یونیورسٹی لندن کا یہ پراجیکٹ اسی بات کی تحقیق کر رہا ہے کہ سمارٹ آلات کس طرح گھریلو تشدد کے آلہِ کار بن رہے ہیں۔
لیونی کہتی ہیں کہ ‘یہ انہیں اس مفروضے کے تحت بناتے ہیں کہ یہ آلات ایک معمول کے خاندان کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں اور یہ فرض کر لیتے ہیں جو بھی جس جگہ رہ رہا ہے وہ اس بات سے خوش ہے کہ ان کا ذاتی ڈیٹا کوئی جمع کر رہا ہے۔’
لیکن ایسا ہمییشہ نہیں ہوتا ہے۔ سنہ 2018 میں اس طرح کے مشہور ہونے والے مقدمے میں جس میں انٹرنیٹ اشیا کے استعمال سے کسی کا ڈیٹا جمع کیا گیا تھا وہ 11 ماہ قید کی سزا پرمنتِج ہوا تھا۔ روس کیرن کا یہ جرم عدالت میں ثابت ہوگیا تھا کہ اس اپنی ناراض بیوی کی جاسوسی اپنے گھر کے کمرے میں بلبوں کو جلانے اور بند کرنے اور کمرے کو گرم کرنے کے لیے دیوار پر لگی ٹیبلیٹ کے مائیکرو فون سے اپنی بیوی کی معلومات جمع کر رہا تھا۔
جب اُس نے اپنی بیوی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب اس سے محبت نہیں کرتی ہے، تو وہ اس سے لڑنے کے لیے کے اُس گھر کی دہلیز پر پہنچ گیا جہاں وہ کبھی اکھٹا رہتے تھے۔ مقدمے کی تفصیل کے مطابق اس نے اپنی بیوی سے کہا ‘او، تم مجھ سے اب محبت نہیں کرتی ہو۔’
اس کے بعد ان دونوں کے درمیان حالات اور بھی زیادہ خراب ہو گئے۔ کیرن نے اپنی بیوی کو اپنے دو بچوں کے سامنے دھکا دیا۔ اُس کی کار کے سامنے کے شیشے پر تھوکا اور اس کی بے عزتی کی۔
یہ مقدمہ بد قسمتی سے اس قسم کے گھریلو تشدد کے واقعات کا ایک آئینہ دار ہے۔ اگرچہ تاریخی اور روایتی طورپر گھریلو تشدد کو جسمانی ایذا کے طور پر کیا جانے والا تشدد سمجھا جاتا ہے، لیکن اب گھریلو تشدد کے بارے میں ہماری سوچ بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔
برطانیہ کے دارالعوام میں حالیہ دنوں میں گھریلو تشدد کے بارے میں قانون کے ایک بِل کو پیش کیے جانے کے بعد وزیرِ انصاف رابرٹ بک لینڈ اس بل پر مباحثے کے دوران کہتے ہیں کہ ‘تشدد آمیز جرائم کے بارے میں فرسودہ تصور، جس میں عام قسم کے حملے سے لے کر اور بھی زیادہ سنگین قسم کے جرائم شامل ہوتے ہیں، گھریلو تشدد کی اصل نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اس میں خفیہ طور پر کسی دوسرے کے حالات کو کنٹرول کرنا یا دوسرے کے رویے کو ڈرا دھمکا کر متاثر کرنا، اور ہلکا ہلکا نفسیاتی طور پر کسی کو اس طرح پریشان کرنا کہ شروع شروع میں تو یہ نظر آئے کہ دو برابر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن بعد میں یہ نظر آئے کہ ان میں سے ایک فرد دوسرے کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ کنٹرول ہونے والے کی اجازت یا مرضی کے خلاف ہو رہا ہو۔ ایسے حالات یہ ظاہر کریں گے کہ اس طرح کے کنٹرول میں آجانے والا یا والی، دراصل گھریلو تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔’
ٹیکنالوجی کے ذریعے دوسرے کو پریشان کرنا صرف کسی کی سرگرمیوں یا کہیں آنے جانے تک محدود نہیں ہے۔ جب سمارٹ ٹیکنالوجی ایک مکان میں موجود مختلف مشینوں اور آلات کو ایک شحض کو کنٹرول کرنے کا اختیار دیتی ہے تو اسی مکان میں رہنے والے باقی افراد کو ان اختیارات سے محروم بھی کر دیتی ہے۔
کسی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا عمل جلد ہی کسی کا تعاقب کرنے کا عمل بن جاتا ہے۔ اور جب اب تک ایک غیر مرئی سا عمل تھا وہ دوسرے کے لیے ایک ٹھوس حقیقت بن کر اس کے لیے جسمانی خطرہ بن جاتا ہے۔ اور اکثر غصے والے لمحات میں یہ تشدد کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
دنیا بھر میں ایک تہائی عورتوں کو اپنے ساتھ رہنے والے کسی قریبی مرد سے کسی نہ کسی شکل کے تشدد کا سامنا ہوا ہے۔ ایسے واقعات کے اپنے اثرات باقی رہ جاتے ہیں جن میں نفسیاتی امراض کا پیدا ہونا، حمل کے گرنے کے اسباب یا کم وزن کے بچے کا پیدا ہونا یا ایچ آئی وی جیسے متعدی مرض کے خلاف قوتِ مدافعت کا کم ہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔
عالمی ادارہِ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں قتل ہونے والی عورتوں میں سے 38 فیصد اپنے موجودہ یا سابقہ شریک حیات کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔
کنگز کالج لندن میں بچے کی پیدائیش کے ایام کی نفسیات کے پروفیسر، لوئی ہوورڈ کہتے ہیں کہ ‘گھریلو تشدد مقامی وبا کی مانند ہے۔ یہ لوگوں کے تصور سے بھی کہیں زیادہ پھیلا ہوا ہے۔’
ایک وائرس کی طرح گھریلو تشدد بھی ایک دوسرے کے قریب آنے سے پھیلتا ہے۔ مثال کے طور پر لبنان میں سنہ 2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کےمطابق، وہ بچے جو اپنے گھروں میں تشدد ہوتا ہوا دیکھتے ہیں ان میں بڑے ہو کر اپنی شریکِ حیات کے ساتھ تشدد کرنے کے تین گنا زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
اس بارے میں کافی خدشات بڑھ رہے ہیں کہ وہ اقدامات جن سے لوگوں کو کورونا وائرس سے محفوظ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے انھیں وہ کہیں غیر ارادتاً حیران کن حد تک گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافےکا سبب تو نہیں بن رہے ہیں۔
عالمی صحت کے ادارے کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، اس کے رکن ممالک نے مطلع کیا ہے کہ پچھلے ماہ اپریل میں عورتوں پر ان کے قریبی مردوں کی جانب سے تشدد کے واقعات کی شکایات کی ٹیلی فون کالوں میں پچھلے برس کے اپریل کے مہینے کی کالوں کے نسبت 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے انتباہ کیا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن چھ ماہ تک جاری رہا تو دنیا بھر میں جنسی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں مزید تین کروڑ کے اضافے کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریس نے اسے ‘عالمی سطح پر گھریلو تشدد کے واقعات کا خوفناک اضافہ’ کہا ہے۔
ابھی اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ ٹیکنالوجی سے ہونے والا تشدد کتنا پھیلا ہے۔ برطانیہ میں ایک خیراتی ادارے، ‘رفیوج’ نے سنہ 2019 میں جنوری سے لے کر اگست کے عرصے میں ٹیکنالوجی سے متعلق 920 تشدد کے واقعات رپورٹ کیے ہیں۔لیکن یہ صرف ایک خیراتی ادارہ ہے جہاں تشدد کا نشانہ بننے والی عورتیں مدد حاصل کرنے کے لیے رپورٹ کرتی ہیں۔
امریکہ میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے کام کرنے والے خیراتی اداروں نے رپورٹ کیا ہے جن لوگوں نے ان سے رابطہ کیا ان کا کہنا ہے کہ ان کے شریکِ حیات ان پر تشدد کے لیے سمارٹ تھرموسٹیٹ، سمارٹ سپیکرز جیسے آلات استعمال کر ر ہے ہیں۔ کمرے میں درجہِ حرارت ایک دم سے بڑھ جاتا ہے۔ رات کو اچانک بہت زیادہ شور سے موسیقی کی آواز گونجنا شروع ہو جاتی ہے۔ گھر کے مین دروازے کا بغیر کسی وجہ کہ کوڈ تبدیل ہو جاتا ہے۔
سائیبر سکیورٹی کے ماہر ‘کیسپرکی’ کے مطابق، ایسے لوگ جنھوں نے یہ دریافت کیا کہ نام نہاد ‘سٹاک وئیر’ (ایسا سوفٹ وئیر جو اس پر نظر رکھتا ہے کہ کون کون سے پیغامات آ یا جا رہے ہیں، دیگر سرگرمیاں کیا ہیں) جو انھیں تنگ کر رہا ہے، اس کے استعمال میں سنہ 2019 کے پہلے آٹھ ماہ میں سنہ 2018 کے اسی عرصے کے 37 ہزار کے واقعات کی نسبت 35 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
اور یہ اضافہ ان کے فون، ٹیبلیٹس، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز میں دیکھنے میں آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ابھی تو بہت سارے افراد ایسے جاسوس سوفٹ وئیر کے بارے میں آگاہ بھی نہیں ہوں گے کہ یہ ان کے گیجیٹس پر لگا دیے گئے ہیں۔
آج کی دنیا میں جب سپر فاسٹ انٹرنیٹ بھی موجود ہے اور آواز کی صورت میں دی جانے والی کمانڈ کا نظام بھی ہے، ٹیکنالوجی سے دیے جانے والے تشدد کا نشانہ بننے والی عورتوں کے لیے ہیلپ لائینز کم ہونے کی وجہ سے شکایت کرنے کے مواقع بھی کم ہیں۔ برطانیہ میں ‘رفیوج’ واحد خیراتی ادارہ ہے جس کےپاس اپنی ایک ایسی ٹیم ہے جو ٹیکنالوجی کے ذریعے تشدد کا نشانہ بننے والوں کی مدد کر رہا ہے۔
ٹینکزر کا کہنا ہے کہ خیراتی ادارے کے زیادہ تر ارکان انٹرنیٹ اشیا یا ‘آئی او ٹی’ کے معنی سے نا بلد ہیں یا اس سے بھی آگاہ نہیں ہیں کہ ایک سمارٹ بلب کس طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔
بجائے اس کے کہ ہیلپ لائینز متاثرہ خواتین کی مدد کریں، یہ خیراتی ادارے شاید گھریلو تشدد کی نوعیت میں اضافہ کردیں۔ مثال کے طور پر ایک عام تجویز یہ دی جاتی ہے کہ اگر آپ کو یہ شک ہے کہ کوئی آپ پر نظر رکھے ہوئے ہے تو آپ اپنا پاس ورڈ تبدیل کر لیں۔
لیکن جب ایسی صورت میں اس کا شریکِ سفر یہ جانے کہ پاس ورڈ تبدیل کردیا گیا ہے تو وہ زیادہ شک شروع کر دے گا اور ایک اکاؤنٹ استعمال کرنے والوں کے درمیان مخاصمت بھی بڑھ جائے۔
اسی طرح پاس ورڈ تبدیل نہ کرنا یا ایک تشدد کے سلسلے کے بعد کسی سے قطع تعلق کی صورت میں پرانے انٹرنیٹ اکاؤنٹ کو چھوڑ دینا دونوں ہی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ہراساں کرنے والے افراد دور سے بھی اپنا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے، شاید یہ جاننے کے لیے کہ آپ کیا کر رہی ہیں اور آیندہ کیا کرنے جارہی ہے، یا کسی اور سے تعق بنا رہی ہے، وغیرہ۔
ٹینکزر کا کہنا ہے کہ ‘آئی او ٹی’ یا ٹیکنالوجی کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بننے والوں کے لیے ہدایات کا ایک ایسا کِتابچہ نہیں بنایا جا سکتا جس پر وہ عمل کریں اور محفوظ رہیں۔ لیکن اگر کوئی مدد کے لیے فون کرے یا رابطہ کرے تو ان کی شکایت سننے والا مددگار نہ صرف جدید ترین سوفٹ وئیر مثلاً امیزون ایکو یا گوگل ہوم ہب سے واقف ہو بلکہ اس قابل بھی ہو کہ وہ یہ بھی سمجھ سکے کہ جس کو وہ ہدایات دے رہے ہں اس کے حالات کی نوعیت کے مطابق ان سے پیدا ہونے والے خطرے کا بھی اندازہ لگا سکتا ہو۔
آسٹریلیا میں اس قسم کا ایک نظام تیار کر لیا گیا ہے۔ وہاں ای سیفٹی کمشنر، جیولی انمین گرانٹ کی رہنمائی میں آسٹریلیا کی حکومت نے ٹیکنالوجی سے متعلقہ گھریلو تشدد کے ہر قسم کے واقعات کے نشانہ بننے والوں کی مدد کے نظام کو ایک مرکز کی صورت میں منظم کرلیا ہے جہاں تشدد کا نشانہ بننے والی عورتیں ‘آئی او ٹی’ کو سمجھنے والوں اور تازہ ترین معلومات رکھنے والوں سے مدد کے لیے ٹیلی فون پر بات کرسکتی ہیں۔
نت نئی ٹیکنالوجی کےمطابق نت نئی قانون سازی ہی صرف ایک بڑا چیلینج نہیں ہے بلکہ کئی واقعات میں تو جو لوگ ایک نئی ٹیکنالوجی کو خرید رہے ہوتے ہیں وہ خود بھی یہ فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں انہیں اس نئی مشین کی کیا باتیں قابلِ قبول ہیں اور کیا نہیں ہیں۔
‘انگلینڈ کی یونیورسٹی آف کینٹ میں کمپیوٹر سائینس کے ماہر، جیسن نرس کہتے ہیں کہ ‘ٹیکنالوجی میں مسلسل تبدیلیاں آرہی ہیں اور معاشرہ اس تبدیلی کی رفتار کے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک کمرے میں کوئی ایک کتاب پڑھ رہا ہو تو زیادہ تر لوگ وہاں نہیں جائیں گے اور صرف روشنی بند کریں گے اور چلے جائیں گے۔ کیونکہ، آپ ایسا کیوں کریں گے؟ لیکن آئی او ٹی کے واقعات میں آپ دور ہی سے اس بلب کو ایک کمانڈ سے بند کرکے شرارتاً مزے لیں گے۔’
اس طرح کے واقعات کے تکرار سے آپ کو برابری والے تعلقات کے بارے میں شکایات پیدا ہونا شروع ہو سکتی ہیں۔ ٹینکزر کا کہنا ہے کہ ‘عموماً چھوٹی باتوں کے بار بار ہونے کے بعد ایک صورت پیدا ہوتی ہے جب آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میں ایک غیر صحتمندانہ رشتے میں ہوں اور یہ رشتے کی کوئی اچھی نوعیت نہیں ہے۔‘
’اگر کسی ایک گھر میں کوئی ایک شخص ہرسمارٹ مشین کا اکاؤنٹ ایڈمنسٹریٹر ہے تو وہ ان مشینوں کو دوسرے پر دباؤ ڈالنے یا اسے کنٹرول کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اگر گھر میں موجود ہیٹنگ سسٹم، ڈش واشر، واشنگ مشین، لاک سسٹم صحیح طور پر کام نہ کر رہے ہوں تو صرف ایک فرد ہی انھیں ٹھیک کرسکتا ہے۔ یہ ایک طرح سے گھر کے تمام افراد ایک شخص پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، کیونکہ انحصاری والا یہ نظام نافذ ہو جاتا ہے۔‘
یونیورسٹی کالج آف لندن کی ریگولیشن اور ایجادات کے علوم کی ماہر، آئرینہ براس، کہتی ہیں کہ صارفین جب کوئی مشین خریدیں تو انھیں معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ کیا شہ گھر میں لا رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال میں اس وقت آگاہی جو بہت ہی کم نظر آرہی ہے۔ پہلے آپ کے پاس ایک گیجیٹ ہوتا تھا یا زیادہ سے زیادہ دو: آپ کا کمپیوٹر اور آپ کا فون جو انٹرنیٹ سے جڑے ہوتے تھے۔ لیکن اب آپ کے گھر میں کئی ایک مشینیں ایسی ہوتی ہیں جو انٹرنیٹ سے جڑی ہوتی ہیں۔ یہاں کنیکٹیویٹی کے معاملے پر بات نہیں ہو رہی ہے اور یہ بھی کوئی نہیں جاننے کی کوشش کرتا ہے کس قسم کی مشین اور اس کےساتھ کس قسم کی کنیکٹیویٹی اپنے گھر لا رہے ہیں۔’
اس وقت ہمارے زیرِ استعمال کئی ایک سمارٹ آلات قدرے گونگے ہیں۔ ان کا بنیادی کام وائرلیس کے ذریعے گھر میں کسی اور چیز سے رابطہ قائم کر لینے کی صلاحیت ہے۔ ان کے لیے ‘سمارٹ’ کا لیبل غلط ہے۔
لیکن اس کے تبدیل ہوجانے کے کافی امکانات ہیں۔ اب جیسا کہ ‘آئی او ٹی’ سسٹمز آرٹیفیشل انٹیلیجینس کا استعمال زیادہ ہوتا جا رہا ہے اور خودکاری بھی بڑھ رہی ہے تو ہم سب کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ یہ کس طرح استعمال ہو سکتی ہیں اور ان کا کیا کیا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔