ہاروی کُشنگ اپنے وقت کے دماغ کے آپریشن کے زبردست سرجن تھے۔ ان کے مریض ان سے بہت پیار کرتے تھے اور ان کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ بہت خیال رکھنے والے ہیں لیکن وہ اپنے سٹاف کو مسلسل ایک دہشت کے ماحول میں رکھتے تھے۔
وہ غلطیوں کو برداشت نہیں کرتے تھے، غلطی کرنے پر سختی سے پیش آ سکتے تھے اور غُصے کا مظاہرہ کر سکتے تھے لیکن اُنھیں ان کے اس رویے پر معاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی کارکردگی کے نتائج بہت اچھے تھے۔
سنہ 1931 میں 15 مئی تک اُنھوں نے امریکی ریاست میساچیوسٹس کے شہر بوسٹن کے پیٹر بنٹ برِگھم ہسپتال میں دماغ میں سے رسولی نکالنے کے اپنی زندگی کے دو ہزار آپریشن مکمل کر لیے۔
اس آپریشن کے وقت ان کی اس مریضہ کا نام ایڈا ہرسکووِٹز تھا۔ ہرسکووِٹز کے دماغ میں رسولی کی تشخیص ہوئی تھی جو ان کے لیے سخت سر درد کی وجہ تھی اور ان کی نظر بھی بری طرح متاثر کر رہی تھی۔
کئی گھنٹوں تک کُشنگ نے صبر و استقامت، احتیاط اور ایک نظام کے مطابق آپریشن کیا۔ انھوں نے کھلے ہوئے دماغ کو صاف کیا، خون کی رگوں کو بند کرتے ہوئے بہت نازک طریقے سے ٹشوز کو صاف کیا اور اپنی مریضہ کی نظر بحال کی۔
اُس سے پہلے دس میں سے آٹھ مریض دماغ کے آپریشن کے بعد ہلاک ہو جاتے تھے۔ ان کے ہسپتال میں سرجنز نے اس تعداد کو 8 فیصد تک کم کردیا (یعنی دس میں ایک سے بھی کم)۔ ایڈا ہرسکووِٹز نے اس کے بعد ایک لمبی عمر پائی۔
ییل یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے ہاروی اینڈ کیٹ کُشنگ پروفیسر آف نیورو سرجن، ڈینِس سپینسر کہتے ہیں کہ ’اُنھیں (کُشنگ) نیورو سرجری کا بانی کہا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی دماغ کی سرجری کو ایک تخصیصی ہنر کی شکل میں تبدیل کے لیے وقف کر رکھی تھی۔‘
اینٹی بائیوٹِکس کے دور سے قبل جب آپریشن کی وجہ سے بیکٹیریا کے انفیکشن سے ہلاکت کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا، کُشنگ صفائی کے بہت ہی سخت ماحول میں آپریشن کرتے تھے۔
وہ ہاتھوں میں دستانے اور چہرے پر ماسک پہنتے اور زخموں کو جراثیم سے پاک رکھنے اور کسی بھی انفیکشن کے امکان کو کم سے کم کرنے کے لیے جو بھی ممکن ہوتا، کرتے تھے۔
خاص کر کُشنگ آپریشن کرنے کے بعد بھی اپنے مریض کی دیکھ بھال پر نظر رکھتے یعنی اس وقت جب ایک مریض کے مرنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
پروفیسر سپینسر کہتے ہیں کہ ہر سرجن اپنے مریضوں کا آپریشن کرنے کے بعد اس طرح خیال نہیں کرتا تھا۔ ‘کُشنگ مریضوں کی باریک بینی سے احتیاط سرجری سے لے کر آپریشن کے بعد بھی کرتے تھے۔
ہاروی کُشنگ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان کے مریض کسی بھی انفیکشن سے محفوظ رہیں وہ ان کی دیکھ بھال خود کیا کرتے تھے۔
انھوں نے ایک بہت سخت قسم کا آبزرویشن اور ریکارڈ رکھنے کا سسٹم تشکیل دیا تھا اور بڑے بڑے ایکس رے کا استعمال اور بلڈ پریشر کی مانیٹرنگ کا نظام شروع کیا تھا۔ ایک ایک مریض کی نگرانی ماہرین کی ایک ٹیم کرتی تھی۔
پروفیسر سپینسر کہتے ہیں ’کُشنگ کا وارڈ دوسرے سرجنوں کے وارڈ کی نسبت ایک انتہائی نگہداشت کا یونٹ لگتا تھا۔‘
جونیئر سٹاف اور نرسوں کو پتہ تھا کپ اگر کسی بیڈ کی چادر صحیح طرح بچھی ہوئی نہیں ہے، مرہم پٹی صاف نہیں یا مریض شکایت کر رہا ہے تو وہ ایک مصیبت میں پھنسنے والے ہیں۔
کُشنگ کے وارڈ کی آج کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے زیادہ مشابہت نہیں بنتی ہے جہاں اب ایک مریض پر کئی قسم کی جدید مشینیں یا سینسر لگے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا تصور ایک ہی تھا۔
جہاں دوسری عالمی جنگ اور سنہ پچاس کی دہائی میں آپریشن پیچیدہ ہوتے چلے گئے جیسا کہ اسی دوران پہلا دل کا آپریشن بھی ہوا، وہیں کُشنگ کی آپریشن کے بعد مریض کی دیکھ بھال کی جدّت پر بھی کافی زیادہ عمل درآمد کیا جانے لگا، جس سے ہزاروں مریضوں کی زندگیاں بچائی گئیں۔
تاہم کُشنگ کے ابتدائی دور کے انتہائی نگہداشت کی منصوبہ بندی ایک آپریشن کے لیے کی جاتی تھی، نہ کہ کسی اور بیماری یا صدمے سے متاثرہ مریض کی دیکھ بھال کے لیے۔
بیسویں صدی کے پہلے نصف میں تقریباً ہر برس دسیوں ہزاروں لوگ پولیو سے متاثر ہوتے تھے۔
اس کا وائرس گرمیوں کے موسم میں اپنا اثر دکھایا کرتا تھا جس کا نشانہ بچے بنتے تھے اور اس کی علامات فلو سے ملتی جُلتی تھیں۔
زیادہ سنگین کیسز میں اس کا جسم کے اعصابی نظام پر براہ راست اثر ہوتا تھا جس سے ایک مریض مفلوج ہو جاتا تھا اور اس کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا تھا۔
جو اس حالت سے بچ جاتے تھے وہ مستقل طور پر معذور ہو جاتے تھے یا مستقل طور پر سانس لینے کی دشواری کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔
سنہ 1952 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کا بلائیڈن ہسپتال پولیو سے شدید متاثرہ مریضوں سے بھر گیا تھا۔ سانس لینے میں کسی امداد کے بغیر ان میں سے زیادہ تر ہلاک ہو سکتے تھے۔
اس وقت صرف ایک ہی طریقہ موجود تھا اور وہ تھا، سانس لینے کے لیے ایک مشینی نظام (میکینکل ریسپیریٹری سسٹم) جسے عام طور پر ’آہنی پھیپھڑے‘ کہا جاتا تھا۔
ایک مریض کو ایک تابوت جیسے ٹینک میں لٹایا جاتا تھا جس میں سے صرف اس کا سر اٹھا ہوا نظر آتا تھا۔ اس تابوت نما خول میں مشین پھیپھڑوں کو زیادہ سے زیادہ ہوا کھینچنے کے لیے پھیلاتی تھی۔
ایک متبادل سسٹم کے طور پر جسے ’شیل وینٹیلیٹر‘ کہتے تھے، گنبد نما خول میں مریض کی چھاتی سٹریپس سے بندھی ہوتی تھی، جو پھیپھڑوں کو پھیلنے اور سکڑنے میں مدد دیتی۔
لیکن اس وقت پورے کوپن ہیگن میں 316 مریضوں کے لیے صرف ایک ’آہنی پھیپھڑے‘ کا سسٹم تھا اور صرف چھ وینٹیلیٹر تھے۔
جنوبی انگلینڈ کے شہر باتھ کے رائیل یونائیٹڈ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت یونٹ کی کنسلٹنٹ اور ایک ریسرچ مقالے کی شریک مصنفہ فیونا کیلی کہتی ہیں کہ اُس وقت ’یہ بہت ہی مایوس کن حالت تھی۔ تین سو سے زیادہ مریض ہلاک ہو سکتے تھے۔‘
ہسپتال کے سربراہ نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ اینستھیزیا دینے والے بیون اِبسن نے تجویز دی کہ بجائے اس کے چھاتی کو پھیلانے کے لیے آہنی پھیپھڑوں کے ذریعے منفی طاقت استعمال کی جائے وہ ایک ٹیوب کے ذریعے براہ راست پھیپھڑوں میں ہوا پہنچائیں۔
اُس وقت یہ آپریشن کے دوران بے ہوش پڑے مریض کو سانس دینے کی ایک تکنیک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔
سینکڑوں ڈاکٹروں، میڈیکل اور ڈینٹل طلبا کو ایک پمپ کے ذریعے مریضوں کے پھیپھڑوں میں ہوا پہنچانے کے لیے اور پھر ان کی نگرانی کے لیے بھرتی کیا گیا۔
لیکن ایک مریض کے لیے اس کے نرخرے سے سانس کی ٹیوب گزارنا اور وہاں دیر تک لگائے رکھنا کافی تکلیف کا باعث ہوتا تھا اور یہ اسی وقت تک ممکن ہوتا تھا جب تک انھیں اینستھیزیا کے ذریعے بے ہوش رکھا جاتا تھا۔
اِبسن نے ٹَرَیکیا (نرخرے) کی امامی دیوار میں سوراخ کرنے کی ایک نئی تجویز پیش کی۔ اس طریقے میں گلے پر سانس کی نالی کے ابتدائی حصے جہاں اس کی دیواریں کرکری ہڈی کی ہوتی ہیں، وہاں ایک کٹ لگا کر ایک سوراخ بنایا جاتا اور وہاں سے پھیپھڑوں تک ہوا پہنچانے والی ٹیوب داخل کی جاتی۔
اس ٹیوب کو ایک سادہ سے ربڑ کے تھیلے کے ساتھ جوڑ دیا جاتا تھا جسے ہاتھ کے ذریعے دبا کر ہوا پمپ کی جا سکتی تھی۔
فیونا کیلی کہتی ہیں کہ ’ٹریکیا کی امامی دیوار میں سوراخ کا طریقہ (ٹریکیا سٹومی) تکلیف دہ بالکل نہیں ہوتا ہے، ایک مریض ہوش میں رہتے ہوئے بات چیت بھی کر سکتا ہے۔
جیسا کہ بلائیڈم میں ایک میڈیکل طالب علم سانس پہنچا سکتا تھا جس طرح کے آج کل وینٹیلیٹر کے ذریعے سانس دی جاتی ہے، تو پھر ہم آہستہ آہستہ مریض سے یہ سپورٹ ہٹا سکتے ہیں جب وہ خود سانس لینے کی طاقت بحال کر لیتا ہے۔‘
اِبسن کے اس طریقے نے سینکڑوں لوگوں کی جان بچائی اور اس طرح ایک ہسپتال میں دنیا کا سب سے پہلا انتہائی نگہداشت یونٹ وجود میں آیا جو ایک ایسا وارڈ تھا جس میں وہاں کے نرسنگ سٹاف کا مقصد ہی مریضوں کی انتہائی نگہداشت کرنا تھا۔
لیکن انتہائی نگہداشت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ہسپتال کے صرف ایک وارڈ تک محدود ہو گی بلکہ ایک ایسا اصول کہ کس طرح ایک بہت ہی تشویشناک مریض کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
برطانیہ کے فیکلٹی آف انٹنسیوکیئر میڈیسن کے نائب ڈین، ڈینیئل برائیڈن اپنے اس شعبے کی دسویں سالگرہ مناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انتہائی نگہداشت میڈیکل سائنس میں اب اپنی حیثیت میں خود ایک مہارت کا شعبہ ہے۔‘
لہٰذا اب یہ ایک جگہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک شخص کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے ایک پورے نظام اور اخلاق کا نام ہے۔‘
اِبسن کی اس ایجاد کو دنیا بھر میں اپنایا جانے لگا۔ کُشنگ کی آپریشن کے بعد کی دیکھ بھال کے جدید تصورات سے ملا کر ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے ایک خاص وارڈ کا وجود عمل میں آیا۔
سنہ 1971 میں ڈینِس سپینسر نے امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں ییل نیو ہیون ہسپتال کے ایک سرجیکل وارڈ کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں تبدیل کیا۔
سپینسر کہتے ہیں ’کیونکہ کار میں بیٹھتے وقت سیٹ بیلٹس باندھنا ضروری نہیں تھا تو ہم نے بہت سارے ریڑھ کی ہڈیوں پر چوٹوں والے کیس دیکھے جن کو خاص نگہداشت کی ضرورت ہوتی تھی۔ ہم ایک ہفتے ایک جگہ گئے، اس پر رنگ کیا وہاں کا قالین اکھاڑ کر پھینک دیا اور وہاں پانچ بیڈز لگا دیے۔ پھر ہم نے نرسوں کو ریڑھ کی ہڈی پر چوٹوں والے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی تربیت دینی شروع کردی۔‘
دوسری جگہوں پر ہسپتالوں نے ٹیکنالوجی اور ماہرین، نرسوں، فارماسسٹ، ڈاکٹر اور اینستھیزیا کے ماہرین کو ایک جگہ جمع کر کے تشویشناک حالت کے مریضوں کے علاج کے لیے ’شاک وارڈز‘ بنائے۔
کیونکہ کئی مریضوں کو شدید تکلیف کا سامنا ہوتا ہے یا انھیں بے ہوش کر کے ان کا علاج کیا جاتا ہے اس لیے اس یونٹ میں اینستھیزیا کے ماہر کی ضرورت محسوس کی گئی۔
آج بڑے بڑے ہسپتالوں میں شاید مختلف بیماریوں سے نمٹنے کے لیے مختلف قسم کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ ہوتے ہیں۔
کووِڈ 19 سے متاثرہ سنگین علامت رکھنے والے مریضوں سے لے کر آتشیں اسلحہ سے زخمی ہونے والوں، دل کا دورہ پڑنے والوں یا پیچیدہ آپریشن کرانے والوں تک۔
کیلی کہتی ہیں ’میں محسوس کرتی ہوں کہ ہم اب ہسپتال کے مرکز ہیں۔ ہمارے یہاں دن رات کسی بھی وقت سب سے زیادہ سنگین حالت والے مریض آتے ہیں اور ہم اِس سے ایک عجیب سے مسرت محسوس کرتے ہیں کہ ایک مریض جس کے بچنے کے امکانات بہت کم رہ گئے تھے وہ آہستہ آہستہ بہتر ہوتا جاتا ہے اور ہمارے یونٹ سے اپنے چہرے پر زندگی کی مسکراہٹ سجائے رخصت ہوتا ہے۔‘
اس وقت ہزاروں لوگ انتہائی نگہداشت کی وجہ سے زندہ ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں جو مریض انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہوتے ہیں ان میں دو تہائی زندہ بچ جاتے ہیں لیکن اس پر غور کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ جب انھیں ڈسچارج کیا جاتا ہے، تو پھر کیا ہوتا ہے۔
برائیڈن کہتے ہیں ’جن لوگوں کی دیکھ بھال انتہائی نگہداشت یونٹ میں ہوتی ہے ان کے لیے بعد میں بھی بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صرف زندہ رہنے کے لیے درکار نہیں ہوتی بلکہ معیاری زندگی کے لیے بھی ضروری ہوتی ہے۔‘
انتہائی نگہداشت کے یونٹس کو دیگر مسائل کا سامنا بھی ہے۔ ہاروی کُشنگ نے بلڈپریشر جیسی چیزوں کی مانیٹرنگ متعارف کرائی تھی۔
آج انتہائی نگہداشت یونٹ جدید ٹیکنالوجی پر استوار ہے لیکن اب جب مریض وینٹیلیٹر، دل کی دھڑکن نوٹ کرنے والی مشین، سینسرز، درجہ حرارت لینے والے آلات، آکسیجن ماپنے والی مشین جیسی مختلف قسم کی مشینوں میں گِھرا ہوا ہوتا ہے تو ان سے نئی قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
سپینسر کہتے ہیں کہ ’اتنی زیادہ مشینیں مریض کے بارے میں ڈاکٹروں کو بہت زیادہ ڈیٹا دے رہی ہیں لیک یہ سب منتشر حالت میں ہوتا ہے، اس کو اپنے دماغ میں اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔
اب اس کی اگلی سطح یہ ہوگی کہ یہ مشینیں خود سے ایسے ایلگورِدم تیار کریں جو ان معلومت کے ڈیٹا سے خود ہی معنی بنا کر پیش کریں، یہ انتہائی نگہداشت یونٹ کا مستقبل ہے۔‘
جو کام ایک مشکل اور جنونی سرجن سے اور وبا کے فوری جواب میں شروع ہوا تھا، اُس نے اب میڈیسن کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
فیونا کیلی کا کہنا ہے ’اس کا جو اثر پیدا ہوا ہے اس کا ابھی مقدار میں تعین نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہم ان موجدوں کے بہت ممنون ہیں۔‘