بھارت میں ’’کمیونل فسادات‘‘ کی تیاری
گزشتہ جمعہ کے روز صبح اٹھنے کے بعد میں نے چند طویل مضامین اور ایک کتاب بہت چائو سے بستر کے سرہانے رکھی۔ ارادہ باندھا کہ یہ کالم لکھنے کے لئے دو دنوں کا جو وقفہ ملا ہے اس کے دوران انہیں غور سے پڑھا جائے۔ یہ سمجھنے کی کوشش ہو کہ لداخ کی سرحد پر چین اور بھارت کے مابین کیا گیم چل رہی ہے۔1984سے بھارت کی خارجہ پالیسی پر گہری نگاہ رکھنے کی بڑھک لگاتا رہا ہوں۔ لداخ کے حوالے سے ابھری نئی صورت حال کی بابت بھی چند گرانقدر خیالات کشید کرتے ہوئے اپنی دانشوری کا بھرم رکھا جائے۔
ابھی اس ضمن میں تیاری کر ہی رہا تھا کہ تین دوستوں نے یکے بعد دیگرے بھارت کے سوشل میڈیاپر وائرل ہوئی ایک وڈیو کلپ Whatsappکی بدولت مجھے بھی فارورڈ کردی۔میں نے اس کلپ کو دیکھا تو سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔
“Times Now”کے نام سے ایک بھارتی چینل ہے۔ اس کے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر اینکر خواتین وحضرات بھارت کو دُنیا کی ’’سپرطاقت‘‘ بننے کی جانب برق رفتاری سے بھاگتا دکھاتے ہیں۔ہندوازم کے احیاء پر مبنی نسل پرستی کو فروغ دینے میں یہ ٹرمپ کے پسندیدہ Fox Newsکے متعارف کردہ ’’معیار‘‘ کی بھونڈی نقالی میں مصروف رہتا ہے۔’’میاں مدن‘‘ والی بات مگر ابھی تک بن نہیں پائی۔ میں اپنی آنکھوں اور کانوں کو فقط پیشہ وارانہ گرائمر کے تقاضوں کے عین مطابق اس کی سکرین سے ہر ممکن حد تک بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔
بہرحال مجھے ملنے والی کلپ میں ’’بینڈ،باجہ اور بارات‘‘ کے ساتھ ایک’’بریکنگ نیوز‘‘چلائی جارہی تھی۔ اس ’’نیوز‘‘ کے ذریعے لداخ کے صدر مقام میں مقیم ایک ’’کانگریسی رہ نما‘‘ کی نئی دلی میں بیٹھے ایک دوست سے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کو برسرعام لایا گیا۔حماقت کی انتہا یہ بھی ہے کہ اس گفتگو کو لیک کرتے ہوئے اینکر بارہا دہراتے رہے کہ مذکورہ گفتگو ’’پرائیویٹ‘‘ تھی۔’’پرائیویٹ‘‘یعنی نجی گفتگو کو ٹیپ کرنا اور ٹی وی کے ذریعے نشر کرنا دُنیا بھر کے مہذب ملکوں میں قابل تعزیر جرم شمار ہوتا ہے۔دکھاوے کی حد تک ہی سہی ’’دُنیاکی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کے دعوے دار بھارت میں بھی ایسا ہی کوئی قانون کتابوں میں یقینا موجود ہوگا۔
’’وطن سے محبت‘‘ کے بہانے مگر کئی اصولوں اور قوانین کی بے دریغ پامالی ’’جائز‘‘ ٹھہرائی جاتی ہے۔مذکورہ ٹی وی نیٹ ورک نے انتہائی ڈھٹائی سے اس بہانے کو اپنی ڈھال شمار کیا ہوگا۔ لداخ اور دلی میں بیٹھے دو افراد کے مابین جو ’’پرائیویٹ‘‘ گفتگو ہوئی اس میں دلی میں بیٹھے دوست کو لداخ والا بہت ’’مان‘‘ سے یہ بتارہا تھا کہ چینی افواج لداخ کے محاذ پر ’’132میل‘‘ تک آگے بڑھ گئی ہیں۔ بھارتی افواج ان کی پیش قدمی کی راہ میں کسی بھی حوالے سے مزاحمت نہ دکھاپائیں۔بھارتی سرکار مگر یہ دعویٰ کئے چلی جارہی ہے کہ چین نے بھارت کے ’’زیر نگین علاقوں‘‘ پر قبضہ نہیں جمایا۔ فقط 20ہلاکتوں کا اعتراف کیا۔لداخ سے گفتگو کرنے والا شخص مگر یہ بتارہا تھا کہ اب تک ’’سینکڑوں‘‘ بھارتی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
لداخ کی ’’تازہ ترین‘‘ صورت حال اپنے دوست کو بتانے کے بعد وہاں مقیم شخص نے اسے یہ بھی بتایا کہ اب بھارت کے لئے مقبوضہ کشمیر کو اپنے قابو میں رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔بہت مارا ماری ہوگی۔اس کا دلی میں مقیم دوست اسے یہ مشورہ دیتا ہے کہ وہ لداخ چھوڑ کر دلی آجائے۔وہ اس کے لئے اس شہر میں کوئی مکان ڈھونڈلے گا۔’’بروقت‘‘ وہاں پہنچ کر اپنی حفاظت یقینی بنائے۔
لداخ کے محاذ پر حقیقتاََ کیا ہوا۔اس سوال کو فی الوقت نظرانداز کردیتے ہیں۔مذکورہ ٹیپ کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے طشت ازبام کرتے ہوئے Times Nowکے اینکر بارہا دہراتے رہے کہ لداخ سے بات کرنے والاشخص سونیا گاندھی کی کانگریس کا مقامی سیاست کے حوالے سے ’’ ایک اہم رہ نما‘‘ ہے۔بادی النظر آپ کو گماں ہوگا کہ مذکورہ ٹیپ کو نشر کرتے ہوئے Times Nowوالے درحقیقت لوگوں کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ کانگریس میں بیٹھے ’’غدار‘‘ چینی افواج کے ہاتھوں بھارت کی بنی درگت سے پریشان ہونے کے بجائے لطف اندوز ہورہے ہیں۔مودی اور اس کی BJPسے اندھی نفرت میں ’’وطن سے محبت‘‘ فراموش کربیٹھے ہیں۔’’کانگریس‘‘ کی ’’غداری‘‘ ناقابلِ معافی ہے۔
طشت ازبام ہوئی ٹیپ کو ذرا غور سے سنیں تو بات اتنی سادہ دکھائی نہیں دیتی۔لداخ سے جس ’’کانگریسی رہ نما‘‘ نے گفتگو کی وہ ایک مسلمان تھا۔دلی میں بیٹھے جس شخص سے وہ گفتگو کررہا ہے اس کا نام بھی ’’نثار‘‘ ہے۔وہ بھی اپنی گفتگو سے مسلمان سنائی دیتا ہے۔ اس تناظر میں لیک ہوئی آڈیو گفتگو پر غور کریں تو پیغام یہ دیا جارہا ہے کہ لداخ ہی نہیں بھارت کے کسی بھی شہر میں موجود مسلمان دل سے بھارتی فوج کے خیرخواہ نہیں۔وہ چینی افواج کے ہاتھوں اس کی درگت پر انتہائی شادمانی محسوس کررہے ہیں۔
نشرواشاعت کے تقاضوںکو ذہن میں رکھیں تو Times Nowنے فقط ایک گفتگو کو جسے وہ خود ’’پرائیویٹ‘‘ کہہ رہا ہے ریکارڈ کرنے کے بعد نشر کرنے کا جرم ہی سرزد نہیں کیا۔بھارتی ہندوئوں میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش بھی ہے کہ وہاں بسے مسلمانوں کو اپنے وطن سے محبت نہیں۔ہندو مسلم نفرت کو بھڑکانے کی یہ انتہائی مذموم کوشش تھی۔
ابلاغیات سے متعلق مبادیات کی ’’پرائیویٹ‘‘ گفتگو کو منظرِ عام پر لانے کی خلاف ورزی تو اپنی جگہ ہوئی۔ہندومسلم فسادات بھڑکانے کی بھی لیکن دیدہ دانستہ کوشش ہوئی۔بھارت کے تحریری قوانین کے مطابق ’’کمیونل‘‘ منافرت کی آگ بھڑکانا بھی قابل تعزیر جرم شمار ہوتا ہے۔”Times Now”والے مگر سینہ پھلاکر اپنے ناظرین کو یہ اطلاع دے رہے تھے کہ لداخ پولیس نے وہاں مقیم مسلمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔وہ مگر ’’مفرور‘‘ ہے۔اس کی تلاش جاری ہے۔
مجھے خبر نہیں کہ ’’مطلوبہ ’’غدار‘‘ ابھی تک پولیس کی گرفت میں آیا یا نہیں۔ RSSاور BJPکی سیاسی چالوں کا طالب علم ہوتے ہوئے اسلام آباد بیٹھا میں اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ ’’حب الوطنی‘‘ کے نام پر مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر بھڑکانے کی کاوشیں شروع ہوگئی ہیں۔چین کی جانب سے لداخ میں ہوئی پیش قدمی کو اس کا جواز بنایا جائے گا۔
لداخ میں جو کچھ ہوا اس نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔5اگست 2019کے دن سے بارہا اس کالم میں سوال اٹھاتا رہا کہ مودی سرکار کی جانب سے آرٹیکل 370کا خاتمہ وسیع تر تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔لداخ کو مگر ماضی کی ریاستِ جموںوکشمیر سے کاٹ کر دلی سے براہِ راست چلائی Union Territoryکیوں بنایا گیا۔میرا دُکھ یہ بھی ہے ہمیں 24/7باخبر رکھنے کے دعوے دار پاکستانی میڈیا نے اس سوال کو کماحقہ اہمیت نہیں دی۔ مجھ جیسے ’’دفاعی امور‘‘ کی بابت قطعی جاہل افراد کو ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ’’علم‘‘ عطافرمانے والے ’’ماہرین‘‘ بھی اس حوالے سے خاموش رہے۔
ٹھوس اطلاعات تک رسائی کے بغیر مجھے کامل یقین تھا کہ چین لداخ کی ماضی کی ریاستِ جموںوکشمیر سے علیحدگی کو ہضم نہیں کر پائے گا۔جس لداخ کو نئی دلی کی براہِ راست نگرانی میں لایا گیا وہ ہمارے گلگت بلتستان سے ملحق ہے۔چین کو گوادر کی بندرگاہ تک جدیدترین رسائی پہنچانے والی CPECکا آغاز اسی خطے سے ہوتا ہے۔اسی باعث چین نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو آرٹیکل 370کے خاتمے کی بابت غور کرنے پر اُکسایا۔سکیورٹی کونسل نے بے اعتنائی دکھائی تو چین Plan-Bکو بروئے کار لانے کو مجبور ہوگیا۔
اس پلان پر عملدرآمد کے لئے چین نے کمال مہارت سے مناسب وقت کا انتظار کیا۔اسے بخوبی علم ہے کہ ’’مودی کا یار‘‘ ٹرمپ ان دنوں Covid-19کی وجہ سے بوکھلایا ہوا ہے۔اس برس کے نومبر میں اسے دوسرا صدارتی انتخاب بھی لڑنا ہے۔وہ ہرگز اس قابل نہیں کہ چین کے مقابلے میں جنگی اعتبار سے کمزور بھارت کا ان دنوں بھرپور انداز میں ساتھ دے سکے۔ چین کے ساتھ بھارت اپنے تئیں ’’حساب برابر‘‘ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
اپنی خفت کے حقیقی اسباب پر غور کرنے کے بجائے مگر مودی کے انتہاپسند جنونی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی نئی آگ بھڑکاتے ہوئے ایک Diversionایجاد کرنے کی مشق میں مصروف ہوگئے ہیں۔Times Nowپر نشر ہوئی ٹیپ اس حوالے سے پہلی Moveہے۔اس حوالے سے بھارتی جوتشیوں کو بھی ’’متحرک‘‘ کردیاگیا ہے۔میں ’’گردش افلاک‘‘ میں گم ستاروں کی چال پر توجہ دینے کا عادی نہیں۔ بھارتی Mass Mediaپر مگر کئی ’’ستارہ شناس‘‘ بھارت کو اس برس کے ’’اگست،ستمبر‘‘ میں ’’کمیونل فسادات‘‘ کی ’’خبر‘‘ بھی سناتے پائے گئے ہیں۔