آج کل ایک اور سٹوری بڑے زور و شور سے چل رہی ہے اور وہ ہے لندن میں میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی متوقع ملاقات۔ جہانگیر ترین کی جانب سے تو اس متوقع ملاقات کی تردید کی جا رہی ہے‘ تاہم میاں نواز شریف کے کیمپ کی جانب سے خاموشی ہے‘ لیکن یہ خاموشی معاملے کو زیادہ مشکوک بنا رہی ہے اور گمان ہے کہ یہی ان کا مقصد ہے۔
اس ملک میں اس حقیقت کے باوجود کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں اور کلپس میں کم از کم بھی نوے فیصد جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان پر اعتبار کرنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا‘ یہ حماقت زور و شور سے جاری ہے۔ بلاتصدیق ہر بات کو آگے پیل دینے کی پھرتیوں نے تو اور بھی کام خراب کر دیا ہے۔ صرف عمران خان صاحب پر ہی کیا موقوف‘ حکیم الامت اور شاعرِ مشرق پر ہر اس شخص نے ہاتھ صاف کیا ہے جس کو اپنے شعری ذوق کے بارے میں خوش فہمی ہے اور اس حوالے سے لوگوں پر اپنی دھاک جمانے کا شوق ہے۔ ایسا ایسا بے وزن اور خاج از بحر شعر علامہ اقبال کے ذمے لگایا ہے کہ سر پیٹنے کو جی کرتا ہے (اپنا نہیں‘ فارورڈ کرنے والے کا) اور صرف علامہ اقبال پر ہی کیا موقوف‘یار لوگوں نے ہر اس شاعر کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے جس کا انہیں نام آتا تھا۔ اقوال ِزریں کے ساتھ تو اشعار سے بھی زیادہ برا سلوک ہوا کہ شاعری تو چلیں کہیں نہ کہیں سے پکڑی جا سکتی ہے مگر اب ان اقوالِ زریں کا کیا کریں؟ منٹو‘ اشفاق احمد‘ بانوقدسیہ‘ قدرت اللہ شہاب‘ ممتاز مفتی اور اردو کے دیگر ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ فیس بک اوپن یونیورسٹی میں گریڈ بیس اور اکیس کے پروفیسروں نے ٹیگور‘ ژاں پال سارتر‘ ڈاکٹر علی شریعتی‘ خلیل جبران‘ برٹرینڈرسل‘ کافکا‘ پابلونرودا‘ نیوٹن اور آئن سٹائن تک کو رگڑ کر رکھ دیا ہے۔ شکر ہے یہ لوگ زندہ نہیں وگرنہ صدمے سے چل بستے۔لیکن سب سے بُرا حال خبروں کا ہے۔ افواہ اور خواہش کو جس اعتماد اور پھرتی کے ساتھ خبر بنانے کا فریضہ سوشل میڈیا نے سرانجام دیا ہے اس کی مثال ملنا محال ہے ۔ایک تو خبر کی صحت مشکوک‘ بلکہ از حد مشکوک اوپر سے فور جی رفتار اور تیسرا اسے آگے فارورڈ کرنے کا جنون کی حد تک بڑھا ہوا شوق۔ ابھی خبر کی عبارت کے ہجے بھی درست نہیں ہوئے ہوتے کہ دنیا کے دوسرے سرے تک جا پہنچتی ہے۔ بلاتصدیق اور بلا دیکھے ہر خبر کو آگے فارورڈ کر دینے کا کام صدقہ جاریہ بن چکا ہے۔ کوئی بدعت سے بھرپور پوسٹ آپ کو ملتی ہے ‘ساتھ ہی اسے آگے دس لوگوں کو فارورڈ کرنے کی ہدایت ہمراہ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اسے دس لوگوں کو فارورڈ نہ کرنے کی صورت میں آپ کو جہنمی‘ لعنتی‘ کافروں کا دوست اوربعض اوقات باقاعدہ کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ اُکسانے کیلئے ایک اور جملہ بڑا مقبول ہے ”شیطان آپ کو فارورڈ کرنے سے روکے گا مگر آپ نے اس کے بہکاوے میں نہیں آنا‘‘۔
خبر کی مثال ”کاتا اور لے دوڑی‘‘ والے اردو محاورے جیسی ہو چکی ہے۔ ابھی ایک دوست نے لندن سے ایک وڈیو کلپ بھیجا ہے‘ ایک صاحب اپنے مکان کی چھت سے براہ راست بریکنگ نیوز دے رہے تھے کہ شعبہ تعلیم سے لاہور کے ایک تہہ خانے میں بینک کی ملازمت اور پھر اس سے مایوس ہو کر واپس ملتان جا کر اپنے والد کی زمینوں پر کاشتکاری کرنے والے جہانگیر ترین کس طرح اچانک اتنے امیر ہو گئے اور اب وہ پاکستان سے لندن آ چکے ہیں اور انہوں نے میاں نواز شریف کو ملاقات کا پیغام بھیجوایا ہے۔ جواباً میاں نواز شریف کی طرف سے اس ملاقات کیلئے چند شرائط پیش کی گئی تھیں‘ مگر ادھر سے کوئی جواب نہ آیا‘ خیال تھا کہ شاید جہانگیر ترین کو یہ شرائط قبول نہیں مگر بعد ازاں باوثوق ذرائع سے پتا چلا کہ وہ اپنے بینک اکاؤنٹس اور کاروباری معاملات کو دیکھنے کیلئے سوئٹزر لینڈ گئے ہوئے تھے‘ واپسی پر انہوں نے پھر میاں نواز شریف کو ملاقات کا پیغام بھیجوایا تاکہ وہ عمران خان پر اپنا غصہ نکال سکیں۔ اور اب لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی جانب سے جو شرائط تھیں انہیں جہانگیر ترین نے قبول کر لیا ہے۔ ان صاحب نے اپنے اسی باوثوق ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ ان میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ جہانگیر ترین لندن میں میڈیا سے گفتگو کریں اور اپنے سیاسی جرائم کا اعتراف کریں جو انہوں نے 2018ء کے الیکشن میں کئے اور کس طرح انہوں نے بکاؤسیاسی کرداروں کو جہاز اور نوٹوں کے تھیلوں کی مدد سے خریدا۔ ان صاحب نے مزید خبر دی کہ اگر ایسا ہو گیا تو لندن میں ہونے والی یہ پیش رفت پاکستانی سیاست میں ہلچل مچا دے گی۔
ان صاحب کی جہانگیر ترین کے بارے میں معلومات خاصی خام تھیں۔ ملتان میں وہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں کچھ عرصہ ضرور پڑھاتے ر ہے‘ تاہم وہ اعزازی طور پر بلا معاوضہ شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے طلبہ کو پڑھانے آتے تھے۔ دوسرا یہ کہ ان کے والد کا باٹلنگ یونٹ ان کے سیاست میں آنے سے بہت پہلے نوٹ چھاپنے کے کام آ رہا تھا۔ یہ فیکٹری کس طرح لگی یہ ایک الگ کہانی ہے‘ تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جہانگیر ترین منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے اور انہیں پیدائشی کروڑ پتی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے والد اللہ نواز خان ترین کی ترقی کی کہانی بالکل ویسی ہی ہے جیسی ہمارے ہاں اکثر لوگوں کی ہے ‘ لیکن فی الوقت موضوعِ گفتگو میاں نواز شریف کی شرائط ہے (بشرطیکہ مبینہ خبر سچی ہو اور باوثوق ذرائع واقعتاً قابلِ اعتبار ہوں) جو انہوں نے جہانگیر ترین سے ملاقات کیلئے پیش کی ہیں۔ اگر یہ خبر ان کی ذہنی اختراع اور گھر کی چھت پر بنائی گئی سٹوری نہیں ہے تو پھر ان شرائط کو جہانگیر ترین کو پیش کرنے سے قبل میاں نواز شریف کو بھی لگے ہاتھوں اپنے جرائم کا اعتراف کر لینا چاہئے۔
میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ جہانگیر ترین کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کریں اور جہانگیر ترین کو اعتراف جرم کیلئے اُکسانے کی غرض سے پہل کرتے ہوئے اپنے طویل سیاسی و غیر سیاسی جرائم کا اعتراف کریں جس کا مختصر خاکہ یہ عاجز ان کی آسانی کیلئے فراہم کر رہا ہے کہ وہ اپنی منی لانڈرنگ کا‘ لندن میں ٹیکس چوری سے کمائے گئے پیسوں سے خریدی گئی جائیدادوں (یہ کم از کم جرم ہے جو اس جائیداد کی خرید کے سلسلے میں ان پر عائد کیا جا سکتا ہے) کا‘ چھانگا مانگا میں لوٹوں کی خریدوفروخت کا‘ اسمبلی کے فلور پر قطری خط کا افسانہ سنانے کا‘ آٹھ ہفتوں کیلئے لندن آ کر کسی ہسپتال میں جائے بغیر آٹھ ماہ تک بیٹھے رہنے کا‘ پاکستانی سیاست کو پہلی بار بریف کیس سے متعارف کروانے کا‘ آف شور کمپنیاں بنانے کا‘ وزیراعظم پاکستان ہوتے ہوئے خلیجی ممالک کے اقامے حاصل کرنے کا‘ سرکاری رقوم سے ذاتی فوائد حاصل کرنے کا اور ایک آمر کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار کی راہداری میں آنے کا اعتراف کریں تو ان کو جہانگیر ترین سے مطالبہ کرنے کا اخلاقی جواز ملتا ہے۔ گو کہ ایسی اعلیٰ اخلاقی قدروں کی میاں صاحب سے توقع تو نہیں کی جا سکتی‘ مگر اس وقت جب کہ ایک عالمی وبا کے باعث زندگی مزید بے اعتبار ہو کر رہ گئی ہے انہیں آج کا کام کل پر نہیں ڈالنا چاہئے ا وراس کام میں خود پہل کرنی چاہئے کہ ان کے جرائم قدیم بھی ہیں اور ان کی فہرست بھی طویل ہے۔