25مئی کی شام ایک گورے پولیس افسر کی وحشت کانشانہ بننے والے 46سالہ سیاہ فام جارج فلائڈ کے آخری الفاظ نے ایک دنیا میں آگ لگا دی۔”I can’t breathe‘‘(میں سانس نہیں لے سکتا)کے الفاظ دنیا بھر میں نسلی تعصب کے خلاف‘ انسانی مساوات اور شرفِ آدمیت کی تحریک کا عنوان بن گئے۔
بسا اوقات مطلع ہی کافی ہوتا ہے‘ باقی پانچ سات اشعار تو غزل مکمل کرنے کیلئے کہے جاتے ہیں۔ ایک مصرع پوری نظم پر اور ایک ڈائیلاگ پورے افسانے پر بھاری ہوتا ہے۔ اس ہفتے جناب شاہد صدیقی کے ”زیر آسماں‘‘ کا عنوان ”یونیورسٹیوں کو سانس لینے دیں‘‘ پنجاب میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے مجوزہ ترمیمی ایکٹ پر بھرپور تبصرہ ہے۔ جس کے نتیجے میں ان یونیورسٹیوں کی رہی سہی خودمختاری بھی سلب ہوجائے گی۔ شاہد صدیقی مجوزہ ایکٹ کا بھرپور جائزہ لے چکے‘ یاد دہانی کیلئے صرف ایک دوباتیں‘ مثلاً یہ کہ یونیورسٹی امور میں فیصلہ سازی کے اہم ترین ادارے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اجلاس کی صدارت ‘ جناب گورنر ‘وزیر اعلیٰ کی سفارش پر کسی بھی ریٹائرڈ جج یا بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ وائس چانسلر کو سونپ سکے گا ۔ اس اجلاس میں وائس چانسلر کی حیثیت محض سنڈیکیٹ کے ایک ممبر کی ہو گی ‘ترمیمی ایکٹ کی رو سے وائس چانسلر ایک سرکاری ملازم ہو گا اور اس پر بھی پیڈایکٹ 2006لاگو ہوگا اور سال میں دوبارہ اس کی کارکردگی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کی جائے گی۔
وزیر اعظم جناب عمران خان شہرہ آفاق آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں‘ وہ میانوالی میں بریڈ فورڈ سے ملحق ایک یونیورسٹی کے بانی بھی ہیں(اور اس کے چانسلر بھی) انہوں نے کرکٹ کے دنوں میں اپنی زندگی کے کتنے ہی ماہ وسال انگلینڈ میں گزارے؛ چنانچہ پاکستان میں میڈیا کے معاملات ہوں یا کوئی سیاسی مسئلہ‘وہ انگلینڈ کی مثال لاتے ہیں کہ انہوں نے وہاں یہ سب کچھ قریب سے دیکھا ؛چنانچہ تعلیم وتحقیق کے اعلیٰ ترین اداروں کی حیثیت سے یونیورسٹیوں کی آزادی وخودمختاری کی ضرورت‘ اہمیت اور افادیت سے ان سے زیادہ کون آگاہ ہوسکتاہے۔قیام پاکستان کے وقت ہمیں انگریز سے جواچھی روایات ملیں ‘ ان میں تعلیمی اداروں کا تقدس اور استاد کی عزت واحترام بھی تھا۔ یونیورسٹیوں کی تو بات ہی کیا‘ سکولوں اور کالجوں کی چار دیواری بھی تقدس کی حامل ہوتی تھی اور اساتذہ معاشرے میں احترام کا خاص مقام رکھتے تھے۔ ہمیں اپنے کالج کا زمانہ یاد ہے‘ بہاولپور ڈویژن کے شہر ہارون آباد کی بات ہے‘ 1968کے اواخر میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ملک گیر تحریک میں ہمارے کالج کے طلبہ بھی سرگرم تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول بھی ساتھ ہی تھا‘ یہاں کی نویں دسویں کے طلبہ بھی شامل ہوجاتے۔ پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کے بعد ہم بھاگ کر کالج آجاتے‘ پروفیسرسید محمد احمد غزنوی پرنسپل تھے‘ وہ کالج کے دروازے پر آن کھڑے ہوتے ‘ عام سپاہی تو کجا‘ پولیس افسر کی بھی جرأت نہ ہوتی کہ طلبہ کے تعاقب میں کالج کے اندر قدم رکھ سکے ۔ یہی حال 1972ء میں جاوید ہاشمی کی زیر قیادت ”بنگلہ دیش نامنظور‘‘ تحریک میں تھا۔ ملک بھر کی طلبہ برادری اس تحریک میں شامل تھی تو ہارون آباد والے کیوں پیچھے رہتے۔ شہر میں ہنگامہ آرائی کے بعد‘ پولیس پیچھے پیچھے اور طلبہ آگے آگے۔ کالج کی چار دیواری‘ ان کے لیے پناہ گاہ کا کا م دیتی۔جس کے دروازے کا رخ کرتے پولیس والوں کے پرجلتے تھے۔اساتذہ کے مقام ومرتبے کے حوالے سے مرتضیٰ برلاس کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور ولولہ انگیز بھی ‘لیکن اس کہانی کو ذرا پیچھے سے شروع کرتے ہیں۔ مرتضیٰ کی پیدائش تو رام پور کی تھی لیکن تعلیم کا بیشتر عرصہ مراد آباد میں گزرا ۔ 1955ء میں‘ تب مرتضیٰ کی عمر 23سال تھی‘ ایک ہندو کی دل آزار کتاب منظر عام پر آئی جس پر پورے ہندوستان میں مسلمان سراپا احتجاج تھے۔ مراد آباد میں بھی احتجاجی جلسے جلوس ہورہے تھے ۔ ایسے ہی ایک جلوس میں مرتضیٰ کی شعلہ بار تقریر پرفساد ہوگیا جس میں کچھ ہندو نوجوان زخمی ہوگئے۔بغاوت اور ملک دشمنی کے الزام میں اس ایف آئی آر میں مرتضیٰ برلاس کا نام سرفہرست تھا۔ ان کے بھائی تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے‘ مرتضیٰ بھی بچتے بچاتے واہگہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ راولپنڈی کے سینٹ میری سکول میں جاب مل گئی ‘ یہ1958-60ء کا دور تھا۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان سمیت کتنے ہی اعلیٰ حکام‘ وزیروں‘ مشیروں اور فوجی افسروں کے بچے یہاں پڑھتے تھے۔ صدر ایوب کا چھوٹا صاحبزادہ شوکت ایوب بھی یہاں میٹرک کا طالب علم تھا۔ پڑھائی میں اس کی دلچسپی کم ہی تھی۔ تب استاد کے ہاتھ میں بید کی چھوٹی سی چھڑی بھی ہوتی تھی۔ جس کے استعمال کی نوبت شاذہی آتی اور وہ بھی ہلکے سے‘ محض علامتی طور پر۔ اس دن شوکت ایوب اس کا مستحق ٹھہرا۔ یہ خبر سارے سکول میں پھیل گئی ۔ پرنسپل فادر برن بھی پریشان ہوگئے۔ مرتضیٰ برلاس کو بلا کرفرمایا ‘اب فیلڈ مارشل صاحب کے عتاب کیلئے تیار رہیے۔شام کو ایوب خان کو بھی اپنے لاڈلے کو ملنے والی سزا کی خبر ہوگئی۔ اگلے دن ان کا بڑا صاحبزادہ اختر ایوب‘ اپنے والد کی طرف سے استادِ محترم کا شکریہ ادا کرنے سکول آیا اور یہ پیغام بھی کہ شوکت کو اچھا طالب علم بنانے کیلئے اگر اس سے بھی زیادہ سزا کی ضرورت ہو‘ تو گریز نہ کریں۔ ایوب خان کی تاکید تھی کہ اختر ان کا یہ پیغام کلاس میں جاکر پہنچائے کہ اس سے باقی بچوں کو بھی نصیحت ہو۔سینٹ میری میں یہ جاب مرتضیٰ برلاس کیلئے دال روٹی کا عارضی اہتمام تھا‘ وہ سول سروس میں آنا چاہتے تھے ‘ مقابلے کا امتحان پاس کرکے‘ سول بیوروکریسی میں آ گئے لیکن وہ اپنے ساتھی بیوروکریٹس سے مختلف تھے ‘ایک قابل افسر ہونے کے ساتھ بہت اچھے شاعر بھی؛ چنانچہ جہاں بھی گئے‘ محکمانہ فرائض کی خوش اسلوبی سے ادا ئیگی کے ساتھ شعروشاعری اور علم وادب کے فروغ کی طرف بھی خاص توجہ دی۔ وہ مشاعروں کا اہتمام کرتے جن میں ملک بھر سے شاعروں کو مدعو کیا جاتا۔سروس کے آخری برسوں میں بہاولپور میں کمشنر ‘پنجاب ریونیو بورڈ کے ممبر اور چیف سیٹلمنٹ کمشنر رہے۔ اس دوران کئی بستیاں بسائیں ‘ کئی الاٹ منٹس کیں‘ لیکن 1994ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد گارڈن ٹائون لاہور میں پانچ مرلے کے مکان میں ٹھکانہ کیا‘ شریک ِحیات اگلے جہاں سدھار گئیں تو مرتضیٰ برلاس نے بھی لاہور کو الوداع کہا‘ ان دنوں راولپنڈی بحریہ ٹائون میں صاحبزادی کے ہاں مقیم ہیں۔
اقتدار (اور مطلق العنان اقتدار) کی اپنی ”ضرورتیں‘‘ ہوتی ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے یونیورسٹیوں کو سیاست سے پاک کرنے کے لیے 1962ء میں یونیورسٹی آرڈیننس کا اعلان کیا‘ جس پر بارک اللہ خان (مرحوم) کی زیرقیادت طلبہ نے ملک گیر تحریک چلائی۔وقت وقت کی بات ہے‘ کبھی سکولوں کالجوں میں پرنسپل کی اجازت کے بغیر پولیس قدم نہیں رکھ سکتی تھی ‘ پھر یونیورسٹیوں میں مستقل پولیس چوکیاں بن گئیں۔طلبااپنے ہوسٹلز سے اٹھائے جانے لگے۔ چیف جسٹس موومنٹ کے دوران عمران خان جیسے قومی لیڈر کو یونیورسٹی کی حدود میں گرفتار کر لیا گیا۔ احتساب کا سو نامی آیا تو وائس چانسلر بھی محفوظ نہ رہے اور انہیں ہتھ کڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ممتاز انور چودھری کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی اساتذہ ”یونیورسٹیو ں کی آزادی و خود مختاری کیلئے‘‘ نئے ترمیمی ایکٹ کے خلاف بھرپور مہم چلائیں گے۔ کورونا ان کی راہ نہیں روک سکے گا۔