منتخب تحریریں

ملکی سیاست میں اب ’’باصفا‘‘ کون ہے

Share

کوئی پسند کرے یا نہیں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی طرح فرزندِ جہلم فواد چودھری صاحب کو بھی میڈیا سے کھیلنا خوب آتا ہے۔دورِ حاضر میں مجھ جسے ’’گزشتہ‘‘ کہلاتے کالم نگاروں کے علاوہ ذہین اور خوب صورت اینکر خواتین وحضرات کی ایک فوج ظفر موج بھی ہے جو شام کے سات بجے سے رات کے بارہ بجے تک عوام کی توجہ حاصل کرنے کو مرے جارہی ہوتی ہے۔ ’’بکائو میڈیا‘‘ کے متبادل مگر سوشل میڈیا نمودار ہوچکا ہے۔اس کی بدولت ’’صحافت‘‘ کا فریضہ سرانجام دینے والے تنخواہوں کے محتاج نہیں۔سچ اور صرف سچ کو فقط ’’نذراللہ نیاز حسین‘‘ کی نیت سے منظر عام پر لاتے ہیں۔تحریک انصاف نے ’’یوٹیوب‘‘ پر حق گوئی کو فروغ دینے کے لئے ’’اصل صحافیوں‘‘ کی ایک بریگیڈ بھی تیار کرلی ہیں۔ان کے چینل باقاعدگی سے دیکھیں تو آپ صحافت کی ڈگری حاصل کرنے کا امتحان دینے کی قوت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

ایسے حالات میں میرے ایک مہربان دوست سہیل وڑائچ کو انٹرویو دے کر 24/7نیوز سائیکل پر چھاچھوجانا کوئی آسان بات نہیں۔فواد چودھری نے جو انٹرویو دیا ہے اسے ریکارڈ تعداد میں Clicksاور Baitsنصیب ہوئے ہیں۔Ratingsکے شیر ہوئے اینکر خواتین وحضرات بھی سکرین پر دیہاڑی لگانے کے لئے اسی انٹرویو کو زیر بحث لانے کو مجبور ہوئے۔ مجھ سے بھی کئی قارئین نے تقاضہ کیا ہے کہ چودھری صاحب نے اپنے انٹرویو میں جو ’’سنسنی خیز انکشافات‘‘ کئے ہیں ان کے بارے میں آج کے کالم میں اپنی رائے کا اظہار کروں۔

میں لیکن پنجابی محاورے والا ’’بچپن میں ذرا کمزورشمزور ‘‘رہا ہوں۔ سہیل وڑائچ مجھ سے بہت محبت فرماتے ہیں۔فواد چودھری سے مرحوم چودھری الطاف کی یاد نے ایک رشتہ بنارکھا ہے۔پرانی وضع کا قیدی ہوا میں اس رشتے کو کسی نہ کسی صورت برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔چودھری صاحب مگر جن دنوں اس حکومت کے وزیر اطلاعات تھے تو اس دوران میرے کیرئیر کے حوالے سے چند ایسے ’’اذیت دہ‘‘ تحفے ملے جنہیں مرتے دم تک مجھ جیسے ذہنی اعتبار سے ’’چھوٹے‘‘ شخص کے لئے بھلادینا ممکن ہی نہیں۔

مذکورہ انٹرویو کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے عمران حکومت کے ایک بلند آہنگ وزیر نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزراء اور اراکین اسمبلی گزشتہ کئی ہفتوں سے اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھے بیان کرتے چلے جارہے ہیں۔فواد چودھری کی ’’لبِ بام‘‘ پر ہوئی گفتگو نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ عمران حکومت میں سب اچھا نہیں ہے۔

وفاقی کابینہ میں ہوئی ’’اندر کی باتیں‘‘ میرے ایک اور صحافی دوست رئوف کلاسراجس انداز میں ڈھونڈکراپنے یوٹیوب چینل پر بیان کرتے ہیں میں انہیں سنجیدگی سے لیتا ہوں۔انکے علاوہ دیگر کئی قابل اعتبار رپورٹروں کا بھی دعویٰ ہے کہ منگل کے روز کابینہ کا جو اجلاس ہوا اس کے دوران فواد چودھری کے دئیے انٹرویو کا بہت چرچا رہا۔بالآخر طے کیا ہوا؟ اس کے بارے میں راوی خاموش رہے۔

مجھے کامل یقین ہے کہ عمران خان صاحب کی ’’صداقت وامانت‘‘ کے دل وجان سے معتقد فواد چودھری صاحب سے یہ انٹرویو دینے کی وجہ سے بہت ناراض ہوں گے۔یوٹیوب پر چھائے حق پرستوں میں سے چند ایک کو بھی شاید اس ضمن میں ان کی ’’کلاس‘‘ لینا پڑے۔ایسا کرتے ہوئے اگرچہ وہ پنجابی محاورے والا ’’گھسن نیڑے یا ربّ؟‘‘ والا سوال بھی ذہن میں رکھیں گے۔’’جٹ داکھڑاک‘‘ ایسے ہی ہماری روزمرہّ زبان کا حصہ نہیں بنا۔

میں کرونا کے خوف سے ان دنوں اپنے گھر میں دبک کر بیٹھا رہتا ہوں۔ وباء کے نازل ہونے سے کئی ماہ قبل ویسے بھی فواد چودھری سمیت عمران حکومت کے تمام وزراء سے ’’گریز‘‘ کی پالیسی اپنارکھی تھی۔اتفاقاََ کسی محفل میں ملاقات ہوجاتی تو لکھنوئی تہذیب کے عین مطابق ’’آداب-تسلیم ‘‘ کا سہارا لیتے ہوئے بحث میں الجھنے سے اجتناب برتا۔ دانستہ اختیار کردہ اس دوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جسارت کرنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ فواد چودھری نے مذکورہ انٹرویو کے ذریعے اپنے لیڈر عمران خان کا کمال ’’سادگی اور ہوشیاری‘‘ سے دفاع کیا ہے۔ ان کے اس دعوے کو تقویت پہنچائی ہے کہ انہیں ’’اچھی ٹیم‘‘ نہیں ملی۔ان کے وزراء اور مشیر بجائے ’’گڈگورننس‘‘ فراہم کرنے کے ہدف پر توجہ دینے کے گروہوں میں تقسیم ہوکر باہمی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔

میری بدقسمتی یہ ہے کہ صحافت کا آغاز 1975سے کیا تھا۔ اس سے قبل بحیثیت طالب علم ’’انقلاب شنقلاب‘‘ لانے کی کوشش بھی کی۔ملکی سیاست کو لہذا کافی قریب سے دیکھا ہے۔ میرے علم کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے Populistرہ نما تھے۔عمران خان اس حوالے سے ان کی بنائی راہ کے مسافر ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے مگر ’’گج وج‘‘ کر حکومت کی۔ انتخابی مہم کے دوران ان کا وعدہ تھا کہ برسر اقتدار آنے کے بعد وہ اجارہ داروں کی غلام ہوئی صنعتوں کو قومیا لیں گے۔یہ فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔فی الوقت مگر یہ حقیقت یاد دلانا ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے صنعتوں کو قومیا لیا تھا۔اس کے علاوہ پاکستان کو ایٹمی قوت سے مالا مال کرنے والے فیصلے سمیت کئی اقدامات ہیں جو ہر حوالے سے ’’انقلابی‘‘ اور تاریخ ساز ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف یہ تمام فیصلے لئے بلکہ ان پر سختی سے عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا۔اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی کابینہ بھی گروہوں میں تقسیم تھی۔ ایک جانب مولانا کوثر نیازی مرحوم جیسے ’’اسلام پسند‘‘ تھے تو دوسری جانب ’’بابائے سوشلزم‘‘ کہلاتے شیخ رشید۔ اس کابینہ میں خان عبدالقیوم جیسے قدآور رہ نما بھی تھے جن کی آج کے KPKکی سیاست پر حاوی ’’سرخ پوشوں‘‘ سے نفرت بہت شدید اور قدیمی تھی۔ان گروہوں کے علاوہ ایک صاحب ’’رفیع رضا‘‘ بھی تھے جنہیں ’’امریکہ کے قریب‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔

مرکز کے علاوہ پنجاب میں غلام مصطفیٰ کھر تھے۔ان کے مقابلے میں حنیف رامے اور ملک معراج خالد جیسے ’’عوام پرست‘‘ تھے۔ صوبائی کابینہ ہی میں نہیں بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی ان دونوں گروہوں کے مابین آئے روز جھگڑے ہوتے۔ مرکز اور پنجاب میں وزراء کے مابین تقسیم مگر ذوالفقار علی بھٹو کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے اہداف سے غافل نہ کرپائی۔ انہوں نے ہر وہ کام کیا جس کا انہوں نے عوام کے روبرو عہد باندھ رکھا تھا۔ عمران صاحب اپنے وزراء کی گروہ بندی کی وجہ سے ’’مجبور‘‘ نظر آرہے ہیں تو فواد چودھری صاحب ہم سادہ لوح بدنصیبوں کو ایک جاٹ کی جبلی ہوشیاری کے ذریعے یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم اُردو شاعری کے محبوب کی طرح ہیں۔حسین،نیک طینت اور رحمدل ہیں۔ان کے ’’دربان اور قاصد‘‘مگر قابلِ مذمت ہیں۔ درباریوں کی سازشوں کی وجہ سے ’’بے چارے بادشاہ‘‘ کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ویسے بھی ان کے علاوہ ملکی سیاست میں اب ’’باصفا کون ہے‘‘۔ ان کا متبادل میسر نہیں۔ان سے گزارہ کریں اور مصلیٰ بچھا کر ربّ سے فریاد کریں کہ وہ ان کے وزراء میں اتحاد پیدا کرے۔وہ نیک نیتی سے یکسو ہوکراپنے قائد کے مشن کو پورا کرنے کی لگن میں جت جائیں۔

جو کہانی بتائی گئی ہے اس کے بارے میں مزید کوئی رائے دینے سے معذور ہوں۔یہ کالم ختم کرتے ہوئے مگر اصرار کرنا لازمی شمار کرتا ہوں کہ اسد عمر کی جہانگیر ترین کی ’’سازشوں‘‘کے باعث ہرگز فراغت نہیں ہوئی تھی۔عالمی معیشت پر نگاہ رکھنے والا ایک ادارہ ہے۔نام ہے اس کا IMF۔وہ پاکستانی معیشت کی نگہبانی سے کنارہ کشی اختیار کرلے تو عالمی منڈی پر چھائے ساہوکاروں سے ہمیں کاروبارحکومت چلانے کے لئے ناقابل برداشت شرح سود پر قرض لینا پڑجاتے ہیں۔ FATFگرے لسٹ میں ڈال دیتا ہے۔واشنگٹن سے Do Moreکے تقاضے شروع ہوجاتے ہیں۔

اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان صاحب لوگوں کو یقین دلاتے رہے کہ وہ IMFسے رجوع کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔بطور وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے اپنے قائد کو ’’خودکشی‘‘ سے بچانا چاہا۔ بات مگر بنی نہیں۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تب بھی بات بنانہیں پاتا۔ IMFسے پاکستان کارشتہ 1950کی دہائی سے شروع ہوا تھا۔ اب یہ ’’کیتھولک شادی‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے جس میں طلاق کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عمران خان صاحب کو اس رشتے کی مجبوری دریافت کرنے میں تھوڑا وقت لگا۔ امریکی صدر ان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی افغانستان کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا نہایت رعونت سے اعلان کرچکا تھا۔ اسے بھی ’’ٹھنڈا‘‘کرنا ضروری تھا۔ ان تمام عوامل کے اشتراک کی بدولت اسد عمر ہماری معیشت کی کشتی پر وہ ’’بوجھ‘‘ تصور ہونا شروع ہوگئے تھے جو ڈوبنے سے بچنے کیلئے ’’اتارنا‘‘ ضروری ہوجاتا ہے۔ جہانگیر ترین کی ہرگز اتنی ’’اوقات‘‘ نہیں کہ ازخود اسد عمر کو فارغ کرواسکتے۔ اسد عمر کی فراغت کے فیصلے ’’کہیں اور‘‘ ہوئے تھے۔ ان سب کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے ایک کالم نہیں کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔