منتخب تحریریں

صاف چلی، شفاف چلی

Share

باوجود اس بات کے کہ میں ذاتی طور پر لاک ڈائون کا حامی تھا اور وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے لاک ڈائون ختم کرنے کے حق میں نہیں تھا، اب مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں رتی برابر تامل نہیں کہ عمران خان صاحب کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ اس کے اثراتِ بد کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی تو رہا ایک طرف وزیر تک خوار ہو کر رہ گئے ہیں۔ جہاں اس لاک ڈائون سے وزیروں کا یہ عالم ہو کہ وہ اپنی معیشت بحال کرنے کے لیے پرائیویٹ ٹاسک فورس بنا کر اور اپنے محکمے کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے اپنے دوستوں کی مال پانی بنانے میں کھلم کھلا امداد پر اتر آئیں بھلا وہاں عام آدمی اور دیہاڑی دار کا کیا حال ہوا ہو گا؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
مجھے ایک دوست نے ایک وڈیو کلپ بھیجا ہے۔ اس کلپ میں پنجاب کے صوبائی وزیر زراعت جناب ملک نعمان احمد لنگڑیال اپنے کسان بھائیوں سے مخاطب ہیں۔ کسانوں کو درپیش مختلف مسائل کا ذکر کرنے کے بعد وہ کسانوں، سیڈ کمپنیوں اور زرعی ادویات کی کمپنیوں اور ڈیلروں کو بتا رہے ہیں کہ انہوں نے ان کے مسائل کے حل کے لیے ایک پرائیویٹ ٹاسک فورس بنائی ہے اور ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاول پور ڈویژن کے زرعی معاملات یہ پرائیویٹ ٹاسک فورس دیکھے گی اور ان کے زیر انتظام صوبائی محکمہ زراعت اپنے ایکسٹینشن، پیسٹ وارننگ اور فیلڈ ورکرز کے ذریعے اس ٹاسک فورس کی معاونت کرے گا۔ ویسے تو کسی سرکاری محکمے کے ہوتے ہوئے کسی پرائیویٹ ٹاسک فورس کا تصور ہی بڑا خوفناک ہے‘ اور خاص بات یہ ہے کہ پنجاب میں زرعی شعبے کے حوالے سے پہلے ہی دو عدد سرکاری ٹاسک فورسز موجود ہیں جن کو باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے قائم کیا ہے۔ ایک ٹاسک فورس فرٹیلائزر کے معاملات کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ہے جس کے چیئرمین مسعود اعوان ہیں اور دوسری ٹاسک فورس برائے زرعی ادویات ہے جس کے چیئرمین ایم پی اے علمدار حسین قریشی ہیں۔ پہلے سے دو سرکاری ٹاسک فورسز کی موجودگی میں وزیر موصوف نے ایک پرائیویٹ ٹاسک فورس بنا کر مارکیٹ میں چھوڑ دی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس پرائیویٹ ٹاسک فورس کا جس میٹرک پاس شخص کو کنوینر بنایا ہے وہ بذات خود درجن بھر زرعی ادویات کی کمپنیوں کا اور زرعی ادویات کی مارکیٹ کا لگ بھگ چار کروڑ روپے کا نادہندہ ہے اور اب اس پرائیویٹ ٹاسک فورس کے کنوینر کی حیثیت سے، وزیر زراعت کی آشیر باد اور محکمہ زراعت کی چھتری تلے ان لوگوں کی گردن مروڑ کر نہ صرف اپنے واجب الادا ادھار معاف کروا رہا ہے بلکہ ان پر ناجائز پرچے کروا کر بھتہ بھی وصول کر رہا ہے۔ اسی پیغام میں وزیر زراعت نے اپنے ایک دوست (وڈیو میں وزیر موصوف نے اس دوستی کا برملا اعتراف کیا ہے) عامر رمضان گجر کو اس پرائیویٹ ٹاسک فورس کا چیئرمین بنانے کا اعلان کرتے ہوئے سب کو یہ بھی بتایا ہے کہ اس شخص کو پرائیویٹ ٹاسک فورس کا چیئرمین بنانے کے فیصلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی مکمل حمایت اور اجازت حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹاسک فورس بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کی منشا سے بنی ہے تو اس کا سرکاری طور پر نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہوا اور کیا اب پہلے والی دو اصلی اور سرکاری ٹاسک فورسز دھنیے کی کاشت میں بہتری کا عظیم کام سرانجام دیں گی؟ اب صورتحال یہ ہے کہ مارکیٹ کا کروڑوں روپے کا نادہندہ شخص چار ڈویژن کے اندر تمام پیسٹی سائیڈ کمپنیوں، ڈیلروں، کھاد ڈیلروں، سیڈ کمپنیوں اور سیڈ ڈیلروں کے سر پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ اور اس نے اپنا کام بھی شروع کر دیا ہے۔
مجھے ایک دوست کے توسط سے ملنے والے ایک شخص نے اس پرائیویٹ ٹاسک فورس کے چیئرمین کے ساتھ اپنی ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ سنائی ہے۔ یہ پریشان شخص ایک چھوٹی سی پیسٹی سائیڈ کمپنی کا مالک ہے جو اس نے برسوں کی محنت سے قطرہ قطرہ جمع کر کے بنائی ہے۔ عامر رمضان گجر نے اس کے چودہ پندرہ لاکھ روپے دینے تھے اور ادھر اُدھر سے کہہ کہلوا کر اس کمپنی والے نے عامر گجر کے پاس عرصہ کئی سال سے اپنی پھنسی ہوئی رقم کا کسی طرح چیک لے لیا تھا۔ اس فون کال میں پرائیویٹ ٹاسک فورس کا چیئرمین اسے فون پر دھمکا رہا ہے کہ اگر اس نے چیک بینک میں جمع کروایا تو اس کی کمپنی پر چھاپہ ڈلوا دے گا۔ اس کمپنی کے مالک نے فون پر دی جانے والی اس دھمکی کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ چیک بینک میں جمع کروا دیا۔ پھر وہی ہوا جس کی دھمکی دی گئی تھی۔ چیک ڈس آنر ہو گیا، اگلے روز اس کمپنی پر چھاپہ ڈلوا دیا گیا اور مالک پر پرچہ ہو گیا۔ وہ شخص عدالت سے اپنی عبوری ضمانت کروا کر سیدھا میرے پاس آیا اور اپنا قصہ سنایا۔
اگر آپ کو ایک شخص کوئی بات کہے تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ بات غلط ہو گی، اس کا کوئی ذاتی معاملہ ہو گا لیکن جب میں نے پتا کیا تو علم ہوا کہ موصوف زرعی ادویات کی مارکیٹ میں کروڑوں روپے کا نادھندہ ہے اور مختلف کمپنیوں میں ملازمت کے دوران فراڈ اور ہیر پھیر سے ان کی ادویات مارکیٹ میں دے کر اور اس کی ساری رقم مالکان کو دینے کے بجائے اپنی جیب میں ڈال کر وہاں سے چمپت ہو چکا ہے۔ بعد ازاں گگو منڈی میں آڑھت اور زرعی ادویات کے کاروبار کی آڑ میں ادھار پر مال خرید کر کمپنیوں اور لوگوں کے کروڑوں روپے ہضم کر چکا ہے اور اب ان تمام کمپنیوں کو جن کا یہ نادہندہ ہے اپنے اس غیر سرکاری عہدے کے زور پر بلیک میل کرکے نہ صرف فراڈ کردہ رقوم کا معاملہ صاف کروا رہا ہے بلکہ بطور جرمانہ ان سے ہرجانہ بھی وصول کر رہا ہے۔ وزیر موصوف نے پہلے اس سلسلے میں ڈی جی زراعت (ایکسٹینشن) و ڈی جی پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول (ایڈیشنل چارج) کو استعمال کرنے کی کوشش کی؛ تاہم اس ایماندار اور قابل، لیکن کمزور ڈی جی نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے وزیر صاحب سے اس سلسلے میں سرکاری نوٹیفکیشن کا مطالبہ کر دیا۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہ تھا۔ سو وزیر صاحب نے ڈی جی کو بائی پاس کرتے ہوئے محکمہ زراعت کے دیگر افسران کو اس پرائیویٹ ٹاسک فورس کے احکامات ماننے کا زبانی حکم جاری کر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کروڑوں روپے کا نادہندہ شخص سیڈ، پیسٹی سائیڈ اور کھاد مارکیٹ کے ڈیلروں اور کمپنیوں کی میٹنگز کی صدارت کر رہا ہے اور محکمہ زراعت کے تمام ضلعی افسران ان میٹنگز میں شرکت کرکے اس کے سرکاری ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ صوبائی وزیر اس سے پہلے بھی مظفر گڑھ کے ایک شخص کو سرکاری طور پر اسی قسم کا عہدہ دلوا کر واردات ڈال چکے ہیں؛ تاہم وہ شخص ایک اور معاملے میں ایک بہت بڑی پیسٹی سائیڈ کمپنی کے مالک سے لمبی رقم ہتھیانے کے چکر میں پھنس گیا تھا اور اس کو حکومت نے ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔ اب وزیر موصوف ان سرکاری چکروں میں پڑے بغیر اپنا کام نکالنے کے چکر میں ہیں۔ ویسے تو چاروں ڈویژن کے زرعی کاروبار سے منسلک کمپنیاں اور ڈیلر عمومی طور پر ہی اس پرائیویٹ ٹاسک فورس سے تنگ ہیں لیکن ان لوگوں کی تو زندگی اجیرن ہو چکی ہے جنہوں نے اس نام نہاد چیئرمین پرائیویٹ ٹاسک فورس سے پیسے لینے ہیں۔ ان کے معاشی حالات لاک ڈائون کے اثرات کے باعث پہلے ہی پتلے ہیں، اوپر سے وزیر زراعت کے دوست نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ شاہ جی کو یہ سارا واقعہ سنایا تو وہ کہنے لگے: اس حکومت کے آنے پر صاف چلی، شفاف چلی کا جو نعرہ لگا تھا وہ بالکل ٹھیک تھا۔ معاملات جتنے شفاف اب چل رہے ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ معاملات اتنے شفاف ہیں کہ آر پار‘ سب صاف نظر آ رہا ہے۔