Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان میں پائلٹس کے ’جعلی لائسنس‘:حکومتی دعویٰ کی حقیقت کیا ہے؟

Share

21 دسمبر 2018 کو کیپٹن بلال چغتائی معمول کی پرواز پر اپنا طیارہ ایئر بس اے 320 لے کر لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ابوظہبی کے لیے اڑے۔ کیپٹن بلال چغتائی پی آئی اے کے ان ماہر پائلٹس میں سے ایک ہیں جنھوں نے فوکر فرینڈشپ، بوئنگ 737، اے 310، بوئنگ 777، اے ٹی آر اور ایئربس اے 320 کو بطور معاون پائلٹ جبکہ اے ٹی آر اور ایئربس اے 320 کو بطور کپتان چلا چکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پرواز کے فوراً بعد طیارے کے ایک انجن نے خطرے کی گھنٹی بجائی جس پر کپتان نے فوراً توجہ اس جانب مبذول کی۔ کپتان نے چیک لسٹس پر توجہ دی، انجن کو جلنے سے قبل ہی بند کر دیا جس کے نتیجے میں انجن تو تباہی سے بچ گیا مگر 180 سے زیادہ مسافروں اور تین گھنٹے کی پرواز کے ایندھن سے بھرا ہوا بھاری بھرکم طیارہ رن وے پر لانے کا مشکل ترین مرحلہ شروع ہوا۔

کپتان اور فرسٹ آفیسر نے چند منٹ میں سارے مراحل مکمل کر کے ایک انجن پر اتارا اور نہ صرف مسافروں کی قیمتی جانوں کو بچایا بلکہ طیارے اور اس کے اربوں روپے کے انجن کو بھی محفوظ رکھا۔

مگر دو سال قبل کیپٹن بلال چغتائی سمیت درجنوں پائلٹس کے لائسنس اُس فہرست میں آئے جو پاکستان سول ایوی ایشن اور وفاقی وزیر برائے ہوابازی کے مطابق ’مشکوک ہیں یا جعلی‘ ہیں۔

اس فہرست کے مطابق ’پاکستان میں 860 فعال پائلٹس میں سے ان پائلٹس کے امتحانات میں سے 262 ایسے پائے گئے جنھوں نے خود امتحان نہیں دیا بلکہ ان کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا۔ پیسے دے کر ڈمی امیدوار بٹھا دیا گیا۔ اور چار پائلٹس کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں۔‘

گذشتہ روز وزیرِ ہوابازی غلام سرور خان کی جانب سے بھی انکشاف کیا گیا تھا پاکستان میں متعدد پائلٹس کے ’لائسنس‘ جعلی ہیں جس نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے جن کے جوابات حاصل کرنے کی ہم کوشش کرتے ہیں۔

ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے پی آئی اے کے چھ پائلٹس سے بات کی گئی جن میں سے چند کے نام اس فہرست کا حصہ ہیں جن کو مشکوک قرار دیا گیا ہے اور چند کے کیس عدالت میں ہیں۔

اس کے علاوہ پی آئی اے کے سابق پائلٹس جو اب دنیا کی مختلف ایئرلائنز میں کام کر رہے ہیں، سول ایوی ایشن کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار اور پی آئی اے کے دو سابق اعلیٰ اہلکاروں سمیت پالپا اور پی آئی اے کے ترجمان سے بھی اس معاملے کو سمجھنے کے لیے گفتگو کی گئی۔

جب پاکستان کے نمایاں فلائنگ سکولز سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ میٹرک اور انگریزی کی سمجھ بوجھ کافی ہے

1۔ کمرشل پائلٹ اور ایئرلائن پائلٹ میں کیا فرق ہوتا ہے؟

پائلٹ بننے کے لیے عمومی طور پر کوئی قابلیت درکار نہیں ہوتی اور آپ کا انگریزی زبان پر عبور اور تکنیکی سمجھ بوجھ کافی سمجھی جاتی ہے۔

جب پاکستان کے نمایاں فلائنگ سکولز سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ میٹرک اور انگریزی کی سمجھ بوجھ کافی ہے۔

امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی کہتی ہے کہ آپ کی عمر کم از کم 17 برس ہونی چاہیے اور آپ کو معلومات کا پرچہ دینا پڑتا ہے۔ جس کے بعد آپ کا میڈیکل لیا جاتا ہے اور یوں آپ کو سٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد آپ کو مشینوں اور تھیوری کے ذریعے پڑھانے کے بعد طیارے پر بٹھایا جاتا ہے۔ سو گھنٹے کے پروازوں کے بعد آپ کو کمرشل پائلٹ لائسنس ملتا ہے جس کی بنیاد پر آپ طیارے اڑا سکتے ہیں۔ فی گھنٹہ ریٹ ان دنوں 20 ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔

اس کے بعد آپ کو امتحانات پاس کرنے پڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ 1500 گھنٹے کی پروازیں مکمل کرنی پڑتی ہیں جن کی بنیاد پر سول ایوی ایشن اتھارٹی آپ کو ایئرلائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس (اے پی ٹی ایل) جاری کرتی ہے جس کی بنیاد پر آپ مسافر بردار طیاروں کو ایئرلائنز کے لیے اڑا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پائلٹ لائسنس کی دوسری اقسام ہوتی ہیں۔

یہاں ایک اہم نکتہ ذہن میں رکھیے کہ یہ تمام پائلٹس جن کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ان سب کے پاس سی پی ایل یعنی کمرشل پائلٹ لائسنس ہے اور ان میں سے اکثریت کے پاس اے پی ٹی ایل موجود تھا۔ مگر ان سب کی کہانی میں 2012 میں ‘ایک ٹوئسٹ’ آتا ہے جس کے بارے میں ہم آگے چل کر بات کرتے ہیں۔

پی آئی اے کے بہت سے پائلٹس جنھیں پی آئی اے نے ڈگری کی بنیاد پر نکالا ان میں سے کئی سعودی عرب یا دوسرے ممالک میں ملازمت کر رہے ہیں۔ ان میں ایک مشہور کیس کرکٹر وقار یونس کے بھائی فیصل یونس کا بھی ہے

2۔ ڈگری جعلی ہونے کا کیا معاملہ ہے؟ کیا پائلٹ ہونے کے لیے تعلیمی قابلیت ضروری ہے؟

ڈگری جعلی ہونے کا بین الاقوامی طور پر پائلٹ بننے کے ساتھ کچھ خاص تعلق نہیں ہے اور دنیا میں چند ایسے افراد بھی ہیں اور گزر چکے ہیں جو بالکل ان پڑھ تھے مگر انھوں نے لائسنس لیے اور طیارے اڑاتے رہے۔

پی آئی اے کے بہت سے پائلٹس جنھیں پی آئی اے نے ڈگری کی بنیاد پر نکالا، اُن میں سے کئی سعودی عرب یا دوسرے ممالک میں ملازمت کر رہے ہیں۔ ان میں ایک مشہور کیس کرکٹر وقار یونس کے بھائی فیصل یونس کا بھی ہے۔

یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ ڈگری کا تعلق ہر ایئرلائن کے ہیومن ریسورس قوانین کے ساتھ ہے اور بنیادی معاملہ اخلاقی اور دھوکہ دہی کا ہے نہ کہ تعلیم کی کمی کا۔

مگر بہت سے ماہرین یہ بات کہتے ہیں کہ ایک ایسے پیشے میں جس کا دارومدار ایمانداری اور انتہا درجے کے احساس ذمہ داری پر ہے اس کی بنیاد آپ جھوٹ پر رکھ کر کیسے آگے چل سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ پی آئی اے میں ڈگریوں کی چھان بین کا معاملہ نیا نہیں اور اہم بات یہ ہے کہ فیصل یونس جیسے جعلی ڈگری ہولڈرز پر پی آئی اے نے عوام کے ٹیکس کے پیسے سے کم از کم 35 ہزار ڈالر خرچ کیے، جنھیں ایک ڈگری کی تصدیق سے بچایا جا سکتا تھا۔ مگر اس کا پھل اب کوئی اور ایئرلائن کھا رہی ہے۔ اور جن جائز امیدواروں کا حق مارا گیا اس کی داستان الگ ہے۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران پی آئی اے سے کم از کم پانچ سو کے قریب ملازمین کو جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر فارغ کیا جا چکا ہے

3۔ جعلی لائسنس کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور کیوں شروع ہوا؟

جعلی لائسنس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو پائلٹس اس فہرست کا حصہ ہیں انھیں طیاروں کے بارے میں نہیں پتا یا انھیں طیارے اڑانے نہیں آتے۔

جیسے ہم نے کیپٹن بلال چغتائی کا ذکر کیا، ان کا سالوں پر محیط تجربہ ہے اور وہ اور دوسرے پائلٹ کی طرح اب بھی بغیر کسی جھجک کے طیارہ اڑا سکتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر کے سنہ 2012 میں متعارف کروائے گئے نئے امتحانی نظام کے چند مسائل ہیں جن کی بنیاد پر ان کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔

سنہ 2012 سے قبل یہ تمام پائلٹس لائسنس کی بنیاد پر قابل اور درست تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب بھی ان کے پاس پاکستان سول ایوی ایشن کا جاری کردہ لائسنس ہے جو بالکل اصل اور مصدقہ ہے۔

مگر جس امتحان کے نتیجے میں وہ جاری کیا گیا ہے اس پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔

تو اس جرم میں پائلٹس سے زیادہ سول ایوی ایشن اور خصوصاً اس کا لائسنسگ کا شعبہ مشکوک ہے جس نے ان پائلٹس کو کسی بھی وجہ سے ان مبینہ طور پر مشکوک امتحانات کے نتیجے میں لائسنس جاری کیے۔

یہاں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جہاں ان پائلٹس کے جعلی لائسنس کا ذکر ہوتا ہے وہاں اس بات کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا جاتا کہ یہ لائسنس کس نے اور کیوں جاری کیے؟ اگر ان میں کوئی مسئلہ تھا تو اس پر توجہ کیوں نہیں دی گئی اور اب اس پر بات کیوں کی جا رہی ہے؟

یاد رہے کہ یہ امتحانات سول ایوی ایشن کے دفتر میں سول ایوی ایشن کے کمپیوٹرز پر سول ایوی ایشن کی نگرانی میں سول ایوی ایشن کے نظام کے تحت لیے جاتے ہیں۔

انھیں چیک بھی سول ایوی ایشن کے لوگ کرتے ہیں نمبر بھی وہی لگاتے ہیں، پاس اور فیل بھی وہی کرتے ہیں اور پھر نتیجہ نکال کر لائسنس بھی سول ایوی ایشن ہی جاری کرتی ہے۔

یعنی ان امتحانات میں کوئی بھی چھیڑ چھاڑ سول ایوی ایشن کے اہلکاروں کی مرضی منشا اور ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

اور یہ بات تو ہمیں معلوم ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ان مشکوک پائلٹس کے لائسنس کے پیچھے بہت سارے مشکوک سول ایوی ایشن کے اہلکاروں کے ہاتھ بھی کار فرما رہے ہیں۔

یاد رکھیے کہ یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر ہے۔ سنہ 2012 میں پاکستان سول ایوی ایشن نے اچانک سے پائلٹس کے امتحانات کے نظام کو بدلنے کا فیصلہ کیا

4۔ کیا مسئلہ صرف جعلی لائسنس کا ہی ہے؟ اس کے پسِ پردہ کہانی کیا ہے؟

سنہ 2012 میں پاکستان سول ایوی ایشن نے اچانک سے پائلٹس کے امتحانات کے نظام کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔

پہلے دو امتحانات کے نتیجے میں آپ کو لائسنس جاری کیا جاتا تھا۔ فلائنگ آوورز اور دوسرے لوازمات کے ساتھ۔ 2012 کے بعد اسے بدل کر آٹھ پرچوں پر مشتمل کر دیا گیا اور اس کے لیے بائیس ہزار سوالات کا ایک ڈیٹا بیس بنایا گیا جنھیں مکمل کرنے کے لیے مہینے اور کبھی سال لگ جاتا۔

نتیجتاً بہت سارے پائلٹ امتحانات میں فیل ہونا شروع ہوئے کیونکہ امتحانات کا تعلق بہت سارا تھیوری سے تھا جو وہ میدان عمل میں کم استعمال کرتے تھے۔

ان میں سفارش اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے پائلٹس بھی شامل تھے جن کا پی آئی اے میں آنا ہی مشکوک تھا۔ مگر اچانک سے اسی وقت کنٹریکٹ پر پائلٹس کی بھرتیاں بھی شروع ہوئیں۔ جسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔

تو جلد ہی فیل ہونے والوں کو پتا چلنا شروع ہوا کہ پاس ہونے کے طریقے بھی ہیں۔ بس چند لاکھ روپے کا کھیل ہے جو تین چار سے شروع ہوا اور بعض پائلٹس نے پندرہ لاکھ روپے تک ادا کر کے امتحانات دیے۔

ایک پائلٹ کے مطابق ان کی انھیں نقل کروائی گئی۔ بعض کے بارے میں ایک پائلٹ نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ انھیں پرچہ آؤٹ کروایا گیا یا قمیض کے ساتھ کیمرہ لگا کر نقل کروائی گئی۔ اور یوں پائلٹس پاس ہونا شروع ہو گئے۔

اس بہتی گنگا میں چند پائلٹس نے پورے جبکہ چند نے بساط بھر ہاتھ دھوئے اور ان امتحانات کا ٹھپہ لگوا کر اپنے پرانے کام پر واپس چلے گئے اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

دراصل اس سارے امتحانی عمل کا سارے لائسنس میں پانچ فیصد کردار ہے جبکہ نمایاں اور بڑا کردار سیمولیٹر کی تربیت اور دوسری پریکٹیکل چیزوں کا ہے۔

پائلٹس کے مطابق حقیقی زندگی میں اس کا کردار ایک فیصد بھی شاید نہیں مگر چند پائلٹس کے بقول اخلاقی اور اصولی لحاظ سے یہ سو فیصد ہے۔ کیونکہ بنیاد ہی اگر نقل شدہ ہو تو عمارت پر کیا اعتبار؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ 262 پائلٹس نہیں ہیں اصل تعداد کم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف چند ہیں جنھوں سارے کا سارا عمل نقل سے پاس کیا

دو سال قبل سول ایوی ایشن نے یہ بات سامنے لائی کہ پائلٹس کے لائسنس نامناسب یا غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیے گئے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ 262 پائلٹس نہیں ہیں، اور اصل تعداد کم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف چند ہیں جنھوں سارے کا سارا عمل نقل سے پاس کیا۔ اکثر کا ایک یا دو پرچے یا پرچے کے ایک حصے کا ایشو ہے۔

مگر سول ایوی ایشن دنیا میں جگ ہنسائی اور اس پنڈورا باکس کے کھلنے کے ڈر سے اسے چھپاتی رہی مگر بالآخر بھانڈہ بیچ بازار پھوٹ گیا جس میں نوجوان پائلٹس اور کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے پائلٹس کے اختلافات کا اہم کردار ہے اور جس کے نتیجے میں اندر کی باتیں باہر نکلیں۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ کئی پائلٹس نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس فہرست میں سے اکثریت نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کا ان پر الزام لگایا جاتا ہے اور یہ بات وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس بارے میں پائلٹس کی برادری کو یہ بات آج سے نہیں کئی سالوں سے معلوم ہے۔

تو یہ نیا نہیں اس لیے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ مگر سول ایوی ایشن نے اس معاملے میں پائلٹس سے پیسے بٹورنے کے لیے انھیں ہراساں کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں چند پائلٹس عدالت میں گئے اور عدالت نے انھیں لائسنس جاری کروائے۔

چند پائلٹس اور سول ایوی ایشن کے دو سینیئر سابق افسران نے یہ الزام لگایا کہ سول ایوی ایشن میں چند افراد نے مال بنانے کے لیے یہ سارا سلسلہ شروع کیا اور راتوں رات امتحانات کا ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل نظام بنایا جس کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہ پائلٹس سالوں سے طیارے اڑا رہے تھے اور اب بھی اڑا رہے ہیں۔

بلکہ پرانے نظام سے حادثات کم ہوتے تھے نئے کے بعد زیادہ ہو رہے ہیں۔ ان کا یہ الزام ہے کہ ان بے تکی تبدیلی کے نتیجے میں کئی ایماندار اور محنتی افراد بھی بد دیانتی کے مرتکب ہوئے کیونکہ اس سارے نظام کا مقصد چند لوگوں کے لیے مال بنانا تھا جو بنا کر جا چکے ہیں اور کوئی ان کا احتساب نہیں کر سکتا۔

کیپٹن بلال چغتائی سے جب رابطہ کیا تو انھوں نے بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ معاملہ نازک ہے اور وہ اپنے نوکری خراب نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان کا کیس چل رہا ہے۔

وزیر ہوابازی غلام سرور جائے وقوعہ کا معائنہ کرتے ہوئے

مگر انھوں نے یہ کہا کہ وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر یہ امتحانات دینے کے لیے تیار ہیں اور انھوں نے اس امتحان کے باقی سارے مراحل کو فرانس، اردن، ملائیشیا میں عالمی ماہرین کے سامنے مکمل کیا ہے۔ اور دوبارہ جب کہا جائے کرنے کو تیار ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اب یہ سارا معاملہ کیوں اٹھ رہا ہے۔ پائلٹس کا دعوی ہے کہ انتظامیہ انھیں راستے سے ہٹا کر ریٹائرڈ ایئرفورس کے پائلٹس یا کنٹریکٹ پر پائلٹس لانا چاہتی ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کے مطابق ’پی آئی اے اپنے پائلٹس کی تربیت پر کافی وسائل اور سرمایہ خرچ کرتی ہے اور اس مرحلے پر نئے پائلٹس شامل کرنا بالکل بھی مناسب نہیں ہو گا۔ تاہم تحفظ کے معاملات پر کئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب مشکل فیصلوں کا موقع آئے گا تو انھیں کرنے میں کوئی ہچکچکاہٹ نہیں ہو گی۔ تاہم پائلٹس برادری کو زمینی حقائق اور صورتحال کی سنگینی سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ان کی صفوں میں شامل کالی بھیڑ یں ہی ہیں جنھوں نے ملک کا نام اس طرح بدنام کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ بحال کرنے یا اس کی کم سے کم امید کرنے کے لیے ایسے لوگوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنا ہوگی۔

’یہ وقت اخلاقی کردار اور عزم کو ظاہر کرنے کا ہے نہ کہ بے مقصد بھائی چارے یا اقربا پروری میں مشغول ہونے کا۔‘

کیا وفاقی وزیر برائے ہوابازی سول ایوی ایشن میں بھی اس سارے معاملے پر ایک جامع تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کریں گے جو ان لائسنسز کے جاری کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے گا؟

کیونکہ معاملہ اب چند مشکوک لائسنس والے پائلٹس تک محدود نہیں رہا بلکہ وفاقی وزیر برائے ہوابازی نے پارلیمان میں اپنے بیان سے پاکستان کی ہوابازی کی صنعت، اس کے لیے کام کرنے والے سینکڑوں پائلٹس اور ان کے مستقل اور قابلیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جو دنیا بھر میں یہاں سے لائسنس لے کر کام کر رہے ہیں یا زیرتربیت ہیں۔

ایک تباہ حال ایوی ایشن کی صنعت جو کورونا وائرس سے شاید بچ کر نکل جائے اس بحران سے نکلنے کے لیے اسے ایک شفاف، قابل اعتبار سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اس معاملے کی شفاف بین الاقوامی معیار کی تحقیقاتی رپورٹ ہی بچا سکے گی۔

مگر ایوب خاور کے بقول غلام سرور

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں

Exit mobile version