مجھے واقعی اندازہ نہیں کہ باکرداری اور بد کرداری میں کیا فرق ہے۔ سچائی جانچنے کی کسوٹی کیا ہے اور جھوٹ ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ غیرت کہاں سے شروع ہو کر کب بے غیرتی کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔ جرم کیا ہے اور بے گناہی کس جانور کا نام ہے۔ واقعی مجھے اندازہ نہیں۔
مثلاً تمام تر ویڈیو فوٹیج کے باوجود پچھلے پانچ دن سے رضا ربانی، اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، حامد خان اور جلیلہ حیدر جیسے محترم وکلا بھی طے نہیں کر پا رہے کہ قانون کے پیشے کی عزت کو واقعی داغ لگ چکا ہے یا اب بھی کسر باقی ہے؟ کسی بھی قانون دان کا کوئی بھی مذمتی بیان ’اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، البتہ‘ کی ملاوٹ سے پاک نہیں۔
انسانی حقوق سے لے کر سیاسی تنزلی تک دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں یہ وکیل رہنما قطعی، بے لاگ اور غیر جانبدارنہ رائے دینے سے نہیں ہچکچاتے مگر جب اپنے ہم کوٹ و ہم ٹائی بھائیوں بہنوں کے رویے کو سیاہ و سفید کے ترازو میں تولنے کا مقام ہو تو یہ سینیئرز خود بھی ترازو کے پلڑے میں بیٹھ جاتے ہیں، حالانکہ وہ بار کونسل کی سیاست سے بظاہر بلند ہو چکے ہیں۔
یہی حال ڈاکٹروں کا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز بالخصوص جو بھی بدتمیزی کر لیں، مریضوں کو جب جب بھی انسانی خام مال سمجھ لیں، جس پر چاہیں ہاتھ چھوڑ دیں یا گریبان پر ہاتھ ڈال دیں۔ مجال ہے ان کے سفید کوٹ پر کبھی کوئی داغ کسی بھی سینیئر کو نظر آ جائے۔
میں نے آج تک کسی ہم پیشہ ساتھی کی زبان سے کسی بھی وکیل یا ڈاکٹر کو گناہ گار یا قصور وار نہیں پایا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے وکالت یا طبابت کی حرمت مقدس تھی، اب وکیل اور طبیب کی حرمت زیادہ اہم ہے۔
اور جب میں اور اوپر دیکھتا ہوں تو وکیل اور ڈاکٹر کے سات خون بھی معاف کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔
مثلاً تمام تر عدالتی تحقیقات اور ٹھوس گواہیوں کے باوجود 48 برس بعد بھی اسکول کے نصاب میں بچہ یہی پڑھ رہا ہے کہ 16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ ہمارے عسکری و سیاسی گناہوں کے سبب وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ مشرقی پاکستان کے کروڑوں سادہ لوح محبِ وطن بنگالیوں کو مٹھی بھر شرپسند ہندو اساتذہ نے گمراہ کیا اور انڈیا نے حالات کا فائدہ اٹھا کر ہمیں دو لخت کر دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
مثلاً پرویز مشرف جو آج بھی کسی کو منہ پر جھوٹا یا سچا کہنے سے نہیں ہچکچاتے، انھوں نے بطور صدر درجنوں مجرموں کی سزاِ موت کی توثیق بھی کی ہو گی، مگر جب آرٹیکل چھ کے تحت خود ان پر آئین توڑنے کا الزام لگتا ہے تو وہ اس پورے عدالتی عمل کو ہی فراڈ قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو بے گناہ ڈکلئیر کر دیتے ہیں، اور عدالت سے بچنے کے لیے وہ تمام حیلے بہانے برتتے ہیں جو پہلی جماعت کا بچہ اسکول نہ جانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مگر وہ بہرحال پرویز مشرف ہیں۔
اور پرویز مشرف کا کیا رونا روئیں۔ یہاں تو معطل پولیس افسر راؤ انوار بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کی بین الاقوامی امریکی فہرست میں اپنا نام شامل کرنے کو مسئلہِ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی بین الاقوامی سازش بتاتے ہوئے اپنی ’کردار کشی‘ پر امریکی حکومت کو عدالت میں گھسیٹنے کی وارننگ دے رہا ہے۔
اور راؤ انوار بھی کس کھیت کی مولی ہے جب آسمان یہ منظر بھی دیکھنے کو زندہ ہو کہ ہمارے دور کی جمہوری اور انسانی حقوق کی ہیروئن نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی عالمی عدالتِ انصاف میں روہنگیا نسل کشی پر اپنے ملک کے انہی جرنیلوں کی پالیسی کا پرجوش دفاع کر رہی ہیں جنھیں وہ کل تک انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا دشمن کہتی تھیں۔
یہ مناظر دیکھنے کے بعد مجھے تو حق و ناحق، سیاہ و سفید، جھوٹ و سچ اور اصول و بے اصولی کا سب کاروبار ہی فراڈ لگ رہا ہے۔
شاید اصل گیم طاقت و نا طاقتی کا ہے جسے ہم آج بھی انصاف اور اصول کے ترازو میں تولنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔