صف اول کے ایک تحقیقی مرکز نے احساسات اور جذبات کا کھوج لگانے والی یعنی ایموشن ڈیٹیکٹنگ ٹیکنالوجی کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے نئے قوانین بنانے کی اپیل کی ہے۔
آے آئی ناؤ انسٹی ٹیوٹ نامی تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ شعبہ ’واضح طور پر متزلزل بنیادوں پر تعمیر کیا گیا ہے۔‘
اس کے باوجود یہ سسٹم ملازمت کے امیدواروں کو جانچنے، مشتبہ مجرموں میں جھوٹ کی علامات کا پتا لگانے، اور انشورنس کی قیمتیں سیٹ کرنے کے لیے فروخت کیے جا رہے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ وہ اس قسم کے سافٹ ویئر کے اُن اہم فیصلوں کے لیے استعمال پر پابندی چاہتا ہے جس سے لوگوں کی زندگی اور مواقع تک رسائی متاثر ہو۔
امریکی ادارے کی برطانیہ میں ایموشنل ریسپانس ٹیکنالوجی تیار کرنے والی ایک کمپنی کے بانی نے حمایت کی ہے لیکن اس کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ کسی پابندی سے قبل ان چیزوں کا باریک بینی سے خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس میدان میں ہونے والے تمام کاموں میں رکاوٹ نہ آئے۔
ہمیشہ تغیر پزیر
اے آئی ناؤ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس ٹیکنالوجی کا ذکر اس کے باضابطہ نام ’افیکٹ ریکگنیشن‘ سے کیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ یہ شعبہ زبردست ترقی کے دور سے گزر رہا ہے اور اب تک یہ ممکنہ طور پر 20 ارب امریکی ڈالر (15.3 ارب پاؤنڈ) کی مالیت کا ہوچکا ہوگا۔
ادارے کی شریک بانی پروفیسر کیٹ کرافورڈ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’اگر آپ غور کریں تو اس کا دعویٰ ہے کہ یہ آپ کے اندر کی جذباتی کیفیت کو آپ کے چہرے کے باریک تاثرات، آپ کے لہجے، اور یہاں تک کہ آپ کی چال سے پڑھ کر بتا دے گی۔‘
’مناسب ترین امیدوار کو بھرتی کرنے سے لے کر مریضوں کے درد کے تجزیے اور کون سا طالب علم کلاس میں متوجہ ہے کا پتا چلانے تک، اس کا استعمال ہر جگہ ہو رہا ہے۔‘
’اب جہاں یہ ٹیکنالوجی پھیل رہی ہے تو وہیں بہت سے تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آ رہی ہے ’لوگوں کے احساست اور ان کے چہرے کے تاثرات کے درمیان کوئی مستقل تعلق ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہیں۔‘
پروفیسر کرافورڈ کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ایک حصہ یہ ہے کہ بعض کمپنیاں اپنے سافٹ ویئر کی بنیاد پال ایکمین کے کاموں پر رکھ رہی ہیں۔ پال ایکمین ایک ماہر نفسیات ہیں جنھوں نے سنہ 1960 کی دہائی میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ صرف چھ قسم کے بنیادی احساسات ہی چہرے پر جھلکتے ہیں۔
لیکن پروفیسر کرافورڈ نے مزید کہا کہ بعد کے مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی کہ جذباتی کیفیات کی تعداد اور ان کے اظہار کے طریقوں دونوں میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا: ’یہ مختلف تہذیبوں و ثقافتوں، مخلتف حالات میں اور یہاں تک کہ ایک ہی دن میں بھی مختلف ہوسکتا ہے۔‘
مائیکرو ایکسپریشنز
اے آئی ناؤ نے ایموشن ڈیٹیکٹنگ ٹیکنالوجی فروخت کرنے والی کمپنیوں کی کئی مثالیں دی ہیں جن میں سے بعضے نے جواب بھی دیا ہے۔
آکسیجن فارنسکس کا حوالہ پولیس کو جذبات کا پتہ چلانے والا سافٹ ویئر دینے کے سلسلے میں کیا گيا تھا لیکن اس نے اپنی کوششوں کا دفاع کیا ہے۔
کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر لی رائبر نے کہا: ‘غصہ، دباؤ یا تشویش جیسے جذبات کا پتہ چلانے کی صلاحیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وسیع پیمانے پر ہونے والی تحقیقات میں اضافی امداد فراہم کرے گی۔
’نتیجتاً ہمارا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا ذمہ دارانہ استعمال اس دنیا کو محفوظ مقام بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔‘
ایک اور مثال ہائر ویو کی ہے جو کہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشیل انٹیلیجنس) پر مبنی ویڈیو پروگرامز فروخت کرتی ہے جو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ کمپنی کو کس امیدوار کو انٹرویو کے لیے بلانا چاہیے۔
اس میں امیدواروں کے چہرے پر موجود باریک تاثرات کے ذریعے ‘جذباتی لگاؤ’ کا پتا چلانے کے لیے تھرڈ پارٹی الگوریتھم کا استعمال ہوتا ہے، تاکہ فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے۔
اس کمپنی کی ترجمان کم پاؤنے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ملازمت کے کئی امیدواروں نے ہائر ویو کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا ہے جس سے انھیں بھرتی کے رائج مرحلوں میں موجود واضح انسانی تعصبات کو ہٹانے میں مدد ملی ہے۔‘
اس رپورٹ میں کوجیٹو کا بھی ذکر ہے جس نے کال سینٹر کے سٹاف کے لیے آواز کے تجزیے کا الگورتھم تیار کیا ہے تاکہ انھیں یہ پتہ چل سکے کہ گاہک کب جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہا ہے۔
اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو جوشوا فیسٹ نے بی بی سی کو بتایا: ’اس سے قبل کہ ایموشن ڈیٹیکشن سسٹم خود سے فیصلہ لینے لگیں، اس صنعت کو ایسے مزید کئی شواہد کی ضرورت ہوگی کہ مشین مؤثر اور مستقل طور پر انسانی جذبات کا پتہ چلا سکتی ہے۔‘
‘جو آج کیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ ان حرکات و سکنات کو جانچا جائے جو مخصوص جذبات کے عکاس ہوتے ہیں، اور یہ معلومات انسان کو دی جائیں تاکہ وہ زیادہ بہتر فیصلہ کر سکے۔ کل اور مستقبل کے لیے یہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد پر منحصر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، تحقیق کریں اور حل تیار کریں جس سے وہ گہری فہم پیدا ہو جو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رشتوں کی راہ ہموار کرے، اور یہ ٹیکنالوجی کے باوجود نہ ہو، بلکہ اس کی وجہ سے ہو۔‘
بی بی سی نے رپورٹ میں درج بعض دیگر کمپنیوں سے بھی رابطہ کیا لیکن ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
سیاق و سباق کی ضرورت
برطانیہ کے شہر برائٹن میں واقع کمپنی ایمٹیک جذبات کا پتہ چلانے والی ٹیکنالوجی کو ورچوئل ریئلٹی ہیڈ سیٹ کے ساتھ جوڑنا چاہتی ہے مگر تحفظات کے حوالے سے اس کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
اس کے بانی نے کہا کہ اگرچہ آج کا مصنوعی ذہانت کا نظام چہرے کے مختلف تاثرات کو پہچان سکتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر کسی شخص کی اندرونی کیفیات کو بیان کرنا کوئی سادہ معاملہ نہیں۔
کمپنی کے بانی چارلس اینڈوکا نے کہا: ’ایسے میں اس پس منظر کو سمجھنا ہوگا جس کے تحت وہ جذباتی تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔‘
’مثال کے طور پر کوئی شخص بھنویں چڑھا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غصے میں ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی چیز پر توجہ مرکوز کر رہا ہو یا پھر سورج تیزی سے چمک رہا ہو اور وہ اپنی آنکھوں کو بچانا چاہتا ہو۔ پس منظر اہم ہے اور یہ آپ محض کمپیوٹر پر چہرے کے تاثرات کے تجزیے سے حاصل نہیں کر سکتے۔‘
ان کا بھی کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن انھوں نے یہ تشویش بھی ظاہر کی کہ ایسا کرتے ہوئے کہیں قانون ساز ان کے اور دیگر افراد کی طبی شعبے میں ایموشن ڈیٹیکشن ٹیکنالوجی کے استعمال کی کوششوں پر پابندیاں نہ لگا دیں۔
انھوں نے کہا: ’اگر اس پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ لوگ جھولے کے ساتھ بچہ بھی نہ پھینک دیں۔‘