اسلام آباد: ملک میں گزشتہ 5 روز سے کورونا وائرس کے کیسز کے رجحان میں کمی دیکھے جانے کے بعد ماہرین صحت نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ گراف کے زوال کا آغاز ہوسکتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین توقع کرتے ہیں کہ کیسز کی تعداد میں مزید کمی واقع ہوسکتی ہے تاہم اموات کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ مریضوں کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی وینٹیلیٹرز پر موجود ہے اور ممکن ہے کہ ان میں سے 90 فی صد تک زندہ نہ بچ پائیں۔
ملک میں گذشتہ روز 3 ہزار 622 کورونا کیسز اور 78 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد قومی سطح پر کُل کیسز کی تعداد (24 جون تک) ایک لاکھ 91 ہزار 22 اور اموات 3 ہزار 808 ہوگئیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند دنوں سے روزانہ 4000 سے 5000 کیسز رپورٹ ہورہے ہیں لیکن یہ تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں ٹیسٹنگ کی تعداد جو 32 ہزار سے زیادہ ہوچکی تھی اب کم ہوکر تقریباً 25 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
اس حوالے سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ سچ ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے ٹیسٹنگ کی تعداد کم ہوگئی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک بھر میں مشتبہ مریضوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کا نتیجہ ہوسکتا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ہرڈ امیونٹی کی طرف جارہے ہوں جس کی وجہ سے اب کیسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے‘۔
خیال رہے کہ ہرڈ امیونٹی ایک اصطلاح ہے جس میں اگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوتی ہے تو انفیکشن کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔
عہدیدار نے دعوی کیا کہ کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کی تعداد کو کم کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے ’تاہم ٹیسٹ کم کردیے گئے ہیں کیونکہ ہمیں ہسپتالوں میں مشتبہ افراد کی تعداد کم مل رہی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اسے ایک اور مثال سے ثابت کرتا ہوں، اب سے ایک ہفتہ قبل مثبت کیسز تقریباً 20 فیصد آتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ 100 میں سے 20 ٹیسٹ مثبت پائے جارہے ہیں تاہم منگل (23 جون) کو 16.7 فیصد مثبت کیسز سامنے آئے جس سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے مقابلہ میں مزید مشتبہ افراد کا ٹیسٹ کیا گیا تھا‘۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اموات کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے مگر آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ تقریباً 550 مریض وینٹیلیٹرز پر ہیں اور ان میں سے لگ بھگ 90 فیصد کا زندہ رہنا مشکل ہے،
ساتھ ہی وہ بولے کہ اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے اور گراف میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے لہٰذا ہم ہفتہ (27 جون) کو ایک اجلاس منعقد کریں گے تاکہ آنے والے دنوں میں کیسز کی متوقع تعداد پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔
علاوہ ازیں اس معاملے پر جب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار خود سب کچھ بتارہے ہیں لیکن اس بارے میں بات کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک رجحانات کا تعلق ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ راستہ درست سمت میں ہے لیکن ہمیں فیصلہ سنانے کے بجائے انتظار کرنا چاہیے‘۔
مریضوں کی پروفائلنگ
دوسری جانب وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے پارلیمنٹ ہاؤس میں کورونا وائرس سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے ان کیمرا اجلاس کی صدارت کی۔
اجلاس میں رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف اور شاہدہ اختر علی، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، نیشنل ہیلتھ سروسز کے پارلیمانی سیکریٹری ڈاکٹر نوشین حامد اور دیگر نے شرکت کی۔
بیان کے مطابق شبلی فراز نے وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کو ہدایت کی کہ وہ مریضوں کی عمر کی بنیاد پر ان کی پروفائل تیار کریں اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ڈیٹا کو علیحدہ علیحدہ کریں۔
ذیلی کمیٹی کا خیال تھا کہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی قیمتوں کو نیچے لانے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مریض اس کو کرا سکیں۔
مزید یہ کہ کمیٹی نے تجویز کیا کہ جن علاقوں کو ہاٹ سپاٹ قرار دیا گیا ہے اس کو معیاری آپریشن کے طریقہ کار (ایس او پیز) کے مطابق بند کیا جانا چاہیے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو سختی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جاسکتی ہے۔
اس موقع پر وزارت صحت کو ہدایت کی گئی کہ وہ فیسوں کے مختلف اسٹرکچر کے بارے میں عام لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرے اور نجی ہسپتالوں کے ذریعہ وصول کی جانے والی غیر معمولی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کریں۔
ذیلی کمیٹی نے آئندہ اجلاس 15 دن کے اندر اندر کرنے کا فیصلہ کیا اور متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنز کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے بتائی گئی سفارشات کا تفصیلی جواب دیں۔
549 مریض وینٹیلیٹرز پر ہیں
مزید برآں این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص ایک ہزار 539 وینٹیلیٹرز میں سے 549 ملک بھر میں اس پر موجود ہیں۔
مزید یہ کہ ایک ہزار 895 اضافی وینٹیلیٹر پائپ لائن میں ہیں اور جولائی کے آخر تک یہ استعمال کے لیے موجود ہوں گے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’صوبائی حکومتیں، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آباد عوامی تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے صحت کے رہنما خطوط/ہدایات کی تعمیل اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے پوری کوشش کر رہے ہیں‘۔