ذرائع کے مطابق پنجاب بھر میں ’ای لائبریریز‘ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور لاہور سمیت پنجاب بھر کی ای لائبریریز کے چیف لائبریرین سمیت تمام اسٹاف کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
سچ پوچھیں تو اس خبر نے گہرے دکھ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ای لائبریریز کا پروجیکٹ علم کی ترویج کا بہت بڑا اور جدید ذریعہ تھا۔ لاہور کی ای لائبریری کو ہی لے لیجئے جس نے ڈیجیٹل نالج کے فروغ کے لیے بہترین کام کیا۔ یہاں کے ہیڈ لائبریرین برادرم بلال چوہدری کی خدمات علم و ادب دوستوں سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لاہور کی ای لائبریری قذافی اسٹیڈیم سے ملحقہ تھی۔
صاف ستھرا ماحول، وسیع و عریض پارکنگ اور ایک گوناگوں سکون کا احساس۔ پنجاب بھر کی ’ای لائبریریز‘ ڈیجیٹل لرننگ کا ایک بہت بڑا پروجیکٹ تھا جسے پنجاب انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بورڈ نے بیک جنبش قلم ختم کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بورڈ نے ای لائبریریز کے انتظامی اختیارات سے بھی سرنڈر کر دیا ہے۔
یوں لاہور سمیت پنجاب کی 20 ’ای لائبریریز‘ کی عمارتیں اور تمام اثاثہ جات پنجاب اسپورٹس بورڈ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
علم و ادب کے ساتھ یہ پہلی واردات نہیں۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ برق ہمیشہ علم و ادب پر ہی گرتی ہے۔ ڈاک کے ٹکٹ اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ اب کوئی ادبی رسالہ چھاپنا شاید آسان ہو لیکن اسے پوسٹ کرنا ممکن نہیں رہا۔
عہد گزشتہ میں بےشمار ادبی رسائل و جرائد شائع ہوتے تھے جو ادیبوں شاعروں کی روایت اور عادت کے مطابق مفت ارسال کیے جاتے تھے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے آج کل فیس بک پیج اور یو ٹیوب چینل کا رواج فروغ پا رہا ہے۔
بات ہو رہی تھی ای لائبریریز کی۔ جو لوگ ان سے استفادہ کر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں کا ماحول کتنا ادب پرور تھا۔ کتابی لائبریریاں تو مفقود ہو چکی تھیں جبکہ ای لائبریریز نے ایک نئے کلچر کو پروان چڑھایا تھا۔ مجھے چونکہ زیادہ تر لاہور کی ای لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا لہٰذا میں اسی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ بلال چوہدری نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر علم دوست اکٹھے کیے۔
بھاگ بھاگ کر انہیں ای لائبریری آنے کی دعوت دی۔ مختلف سیمینار، مشاعرے اور تقریب رونمائیاں منعقد کیں اور ایک دم سے ای لائبریری سب کے حواس پر چھا گئی۔ یہیں ناصر محمود ملک کی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی، یہیں سجاد جہانیہ کی ’ادھوری کہانیاں‘ سننے کا موقع ملا، یہیں قمر ریاض نے ایوارڈ میلہ سجایا۔
اور یہیں مرزا یاسین بیگ نے ادیبوں شاعروں کو اکٹھا کرنے کے بہانے ڈھونڈے۔ بےروزگاری کے اس خوفناک دور میں جہاں نئی ملازمتوں کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں وہاں ای لائبریریز کے اسٹاف کو یکدم معاش سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ لوگ کھیل تماشا نہیں کر رہے تھے۔
لوگوں کو کتاب کی طرف راغب کرنے کا باعث بن رہے تھے۔ مجھے تو افسوس ہے کہ ای لائبریریز کی بندش سے اسٹاف تو فارغ ہوا، ساتھ ہی وہ قارئین بھی فارغ ہوگئے جو شور شرابے سے نکل کر اس پُرسکون جگہ پر کتاب دوستی نبھانے آتے تھے۔ ای لائبریریز جنوری 2018کو قائم کی گئی تھیں۔ یوں دو سال کے اس غنچے کو کم عمری میں ہی زبردستی مرجھانے پر مجبور کر دیا گیا۔
علم و ادب کے سارے مینارے اسی طرح زمین بوس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کتابیں پڑھنے والوں کی حوصلہ شکنی اسی طرح جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں جب ’بک‘ پر ’فیس بک‘ پوری طرح اپنا تسلط جمالے گی۔
معاملہ تو خیر اب بھی ایسا ہی ہے لیکن کتاب سے محبت کرنے والے پریشان ہیں کہ وہ کہاں جا کر سکون سے مطالعہ کریں۔ ویسے بھی لائبریریوں میں صرف کتابیں ہی نہیں ہوتیں ایک فضا بھی ہوتی ہے۔ یہاں آنے والا ہر شخص علم کا متلاشی ہوتا ہے۔ یہاں ایک گہری سوچ سے ملاقات ہوتی ہے۔
اپنے آپ کو دریافت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ نئی نسل کی اکثریت لائبریریوں سے ناواقف ہے۔ ہمارے اکثر اسکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں پر یا تو تالے ہیں یا وہاں کوئی ڈھنگ کی کتاب پڑھنے کو نہیں ملتی۔ اسی رجحان کو دیکھتے ہوئے ای لائبریریز کا اجرا کیا گیا تھا تاکہ لوگ ڈیجیٹل لرننگ کے ذریعے بھی کتاب سے رابطہ رکھیں۔
میرا جب بھی ای لائبریری لاہور جانا ہوا میں نے وہاں پڑھنے والوں کی معقول تعداد موجود پائی۔ یہ سب لوگ آخر وہاں کیوں آتے تھے؟ شاید اس لیے کہ بلال چوہدری نے ای لائبریری کے سارے ماحول کو علم و ادب کی روشنی سے بھر رکھا تھا۔ یہ ہر آنے والے کا خود استقبال کرتے تھے۔
ان سے دوستانہ تعلق قائم کرتے تھے اور بڑھ چڑھ کر اس علمی مشن کے ذریعے معاشرے میں صحت مند سوچ پیدا کرنے کے حامی تھے۔ سارا خواب ایک لمحے میں چکنا چور ہوگیا۔
اِن ای لائبریریز میں اب کیا ہو گا؟ نہیں معلوم۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اپنے جن لوگوں کو حکومت کہیں ایڈجسٹ نہیں کرسکی انہیں یہاں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ بہرحال یہ سنی سنائی بات ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو کوئی بعید نہیں کہ وہ لوگ یہاں تعینات ہوں جن کا کتاب اور ادب سے دور دور کا واسطہ نہیں۔
اللہ کرے میرا خیال غلط ہو۔ اربابِ اختیار سے اتنی ہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ واپس لیں اور ای لائبریریز کو پہلے والی حالت میں دوبارہ بحال کریں تاکہ روشنی پھیلانے کا یہ فریضہ انجام دینے والے دوبارہ اسی محبت اور لگن سے کام کرسکیں۔