عمران حکومت کے تیار کردہ بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث کے آغاز سے قبل حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں کے مابین یہ طے ہوا کہ ان ایام میں دونوں جانب سے فقط تقاریر ہوں گی۔تحاریک استحقاق یا التواء پیش نہیں کی جائیں گی۔پوائنٹ آف آرڈر اٹھا کر بھی ایوان کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔اس معاہدہ پر سختی سے عملدرآمد ہورہا تھا۔
بدھ کی سہ پہر تحریک انصاف کے جواں سال وزیر مراد سعید صاحب مگر ایوان میں نمودار ہوئے۔انہوں نے ’’ذاتی وضاحت‘‘ کے بہانے مائیک طلب کیا۔اپنی نشست پر کھڑے ہوکر وہ جو مطالبہ کریں کرسی صدارت پر بیٹھا ہر شخص اس کی فوری تعمیل کو مجبورمحسوس کرتا ہے۔عمران خان صاحب کو کامل یقین ہے کہ مراد سعید ان کی کابینہ میں موجود واحد وزیر ہیں جو ایک کامیاب ’’بائونسر‘‘ کی بھرپور توانائی اور مہارت سے اپوزیشن کو حواس باختہ بنادیتے ہیں۔انہیں ’’بے نقاب‘‘ کرتے ہوئے ’’کسے جوگا‘‘ نہیں رہنے دیتے۔ مراد سعیدکی اس خوبی کا وزیر اعظم نے کئی تقاریر میں بہت مان سے ذکر بھی کیا۔یوں کرتے ہوئے وہ دیگر وزراء کو ان کی تقلید کی ہدایت فرماتے نظر آئے۔
’’ذاتی وضاحت‘‘ کے بہانے مائیک حاصل کرنے کے بعد مراد سعید صاحب نے 23منٹ لمبی تقریر فرمائی۔اپنی شہرت کے برعکس بدھ کے روز مراد سعید اس تقریر میں بہت سنجیدہ اور تھوڑا رنجیدہ سنائی دئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بظاہر ’’بجٹ کے بارے‘‘ میں ہوئی 21تقاریر میں ان کی ذات پر رکیک حملے ہوئے۔بدزبانی سے ان کی بھداُڑانے کی کوشش ہوئی۔
مراد سعید صاحب نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ بھی فرماتے رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نون)کے چند اراکین ان کی وزارت سے متعلق چند ٹھیکوں کے حوالے سے بدعنوانی کے مرتکب پائے گئے تھے۔ اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی سے بچنے کی غرض سے وہ مراد سعید سے رابطے استوار کرتے ہوئے ’’این آر او‘‘ طلب کرتے رہے۔ عمران خان صاحب کے اینٹی کرپشن بیانیے پرثابت قدمی سے ڈٹے مراد سعید مگر ’’پکڑائی‘‘ نہ دئیے۔ مسلم لیگ (نون) کے چند اراکینِ اسمبلی پر ’’این آر او‘‘ کی فریاد کے الزام کے علاوہ وزیر مواصلات نے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی فرمایا کہ اس جماعت ہی کے چند اراکین اپنے ہی چند ساتھیوں کے خلاف بدعنوانی کی داستانیں بیان کرتی فائلیں انہیں فراہم کرتے رہے ہیں۔ مراد سعید صاحب سے تقاضہ ہوا کہ وہ ان فائلوں کے حوالے سے کارروائی کا آغاز کریں۔
مسلم لیگ (نون) کی نشستوں پر ان کی تقریرکے دوران شرمندگی سے بھرپور خاموشی چھائی رہی۔فقط مرتضیٰ عباسی بارہااپنی نشست سے اُٹھ کر چیئرمین کو یاد دلاتے رہے کہ مراد سعید ’’ذاتی وضاحت‘‘ کے ذریعے غلط خبریں پھیلارہے ہیں۔ان کی طولانی تقریرروکی جائے۔اگر ان کی تقریر جاری رہی تو مسلم لیگ (نون) کی صفوں سے ان کا جواب دینے کا موقعہ بھی فراہم کرنا ہوگا۔ان کی گزارش مگر سنی ان سنی کردی گئی۔
مراد سعید پر کاری ’’ذاتی حملے‘‘ میری ناقص رائے میں بنیادی طورپر پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کی جانب سے ہوتے ہیں۔موصوف کاتعلق کراچی کے لیاری سے ہے۔اس علاقے کے مکین اپنی حسِ مزاح کے حوالے سے یکتا ہیں۔ قادر پٹیل ایک دائمی جیالے بھی ہیں۔گلی کی زبان کو بہت ’’متانت‘‘ سے استعمال کرتے ہوئے اپنے مخاطب پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے پُرجوش کارکنوں کو ان کی تقاریر وہ زمانہ یاد دلادیتی ہیں جب اس پارٹی کا ’’انقلابی آتش‘‘ جواں ہوا کرتا تھا۔وہ بہت مان سے قومی اسمبلی میں پٹیل صاحب کی جانب سے ہوئی تقاریر کو سوشل میڈیا پر وائرل بنادیتے ہیں۔
گزشتہ پیر کے روز بھی انہوں نے ایسی ہی ایک تقریر فرمائی۔موضوع اس کا بنیادی طورپرعمران خان صاحب کا اندازِ حکومت رہا۔روانی میں لیکن وہ مراد سعید صاحب کو بھی نہیں بھولے۔نہایت سادگی سے ان کے بارے میں چند ’’پرکار‘‘جملے کہے۔ میں گھروں میں پڑھے اخبار کے لئے ان جملوں کی ’’تشریع‘‘ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ مراد سعید صاحب بھی مگر بلاول بھٹو زرداری کے لتے لیتے ہوئے اکثر یہ بات فراموش کردیتے ہیںکہ بقول ان کے ’’پرچی کی بدولت بنے چیئرمین‘‘ کی جماعت میں چند جنونی اب بھی موجود ہیں۔انہیں اشتعال دلانے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔دوسری جانب اگر سخت فقرے اچھالے جائیں گے تو جواباََ دُعائیں وصول نہیں ہوں گی۔ادلے کا فوری بدلہ لینا ویسے بھی ہماری فطرت کا سب سے متحرک جذبہ ہے۔قادر پٹیل اپنے مخالف کی بھداُڑانے میں جو ’’کاریگری‘‘ دکھاتے ہیں اس کا مؤثر توڑ ڈھونڈنا ناممکنات میں سے ہے۔اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئی سیاست میں ویسے بھی ان دنوں پگڑی ہی اچھالی جارہی ہے۔
منگل کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اسد قیصر صاحب نے دھمکی دی کہ وہ ’’نازیبا‘‘ تقاریر کی ریکارڈنگ سنیں گے۔ بات حد سے بڑھی اور تہدیب سے گری نظر آئی تو ایسی تقریر کرنے والے رکن اسمبلی کو چند روز کے لئے قومی اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینے سے روکنے کا حکم بھی صادر ہوسکتا ہے۔خواجہ آصف نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔اصرار کرتے رہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت سے ایک ’’ضابطہ اخلاق‘‘ مرتب کیا جائے۔دونوں جانب کے اراکین پر اس کی پابندی لازمی ہو۔
بدھ کے دن ’’ذاتی وضاحت‘‘ کے بہانے مراد سعید صاحب ایک طولانی تقریر کرنے کو غالباََ اس لئے مائل ہوئے کہ شاید ان کے خیال میں قادر پٹیل کے خلاف ضابطے کی کارورائی کا معاملہ ٹل گیا تھا۔اپنی تقریر کے دوران انہوں نے یہ انکشاف کرتے ہوئے کم از کم مجھے بہت حیران کیا کہ پیپلز پارٹی کی ایک بہت ہی مستعد اور باوقار رکن اسمبلی محترمہ شازیہ مری صاحبہ اکثر ان سے رابطہ کرتی ہیں۔ ’’مراد بھائی‘‘ سے بقول ان کے ’’درخواست‘‘ کی جاتی ہے کہ وہ بلاول بھٹو زرداری پر ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھیں۔ بجائے ان کی تقریر کے فوری بعد ایوان میں کھڑے ہوکر ’’حساب برابر‘‘ کرنے کے مناسب یہ ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین سے قبل تقریر کرلیا کریں۔ اس طرح ایوان کا ’’ماحول خراب‘‘ نہیں ہوگا۔’’شازیہ بہن ‘‘ کا احترام کرتے ہوئے بھی ’’حقائق اور صرف حقائق‘‘ کو بیان کرنے کی خاطر وہ مگر خود کو بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا فوری جواب دینے کو مجبور پاتے ہیں۔
ایمان داری کی بات ہے کہ مراد سعید صاحب کے اس دعویٰ نے مجھے حیران کردیا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ان کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری پر ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کے لئے رابطے کئے جاتے ہیں۔ 1985سے قومی اسمبلی کی کارروائی کا روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کررہا ہوں۔اپنے تجربے کی بنیاد پر اصرار کرنے کو مجبورہوں کہ میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے زیادہ ’’جی دار‘‘ رکن قومی اسمبلی آج تک دیکھا ہی نہیں۔وہ بطور وزیر اعظم یا قائد حزب اختلاف تقریر کرنے کو کھڑی ہوتیں تو ان کے مخالفین کی جانب سے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر جیسے چند حضرات رکیک جملے کسنا شروع ہوجاتے۔ایسے فقرے بھی اکثراداہوئے جو گلی کے اوباش اور تلنگے نوجوان خواتین کو دیکھ کر بولیں تو محلوں کے بزرگوں سے اکثر ’’کُٹ‘‘ کھاتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ایک لمحہ کو بھی کبھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے گھبرائی نہیں۔اپنی ثابت قدمی سے آوازے کسنے والوں کو بلکہ بالآخر تھکا دیتیں۔ آکسفورڈ کے تقاریری مقابلوں میں حصہ لینے کی وجہ سے انہیں انگریزی زبان کا کاٹ دار استعمال خوب آتا تھا۔ وہ اس زبان کے Nuancesکو کمال مہارت سے بروئے کار لاتے ہوئے شورمچانے والوں کا مکوٹھپ دیتیں۔ اپنی تقریر کے بعد ایوان سے رخصت ہوتیں تو ان کی چال ’’کڑی کمان کا تیر‘‘نظر آتیں۔ یوں محسوس ہوتا کہ کوئی سپہ سالار کسی ’’مقبوضہ رقبے‘‘ کے دورے کے بعد اپنے دفتر واپس لوٹ رہا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے بیٹے اور سیاسی وارث ہوتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے مخالفین کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کے لئے ’’پیغام‘‘ بھیجنے کی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ اگر انہوں نے واقعتا ایسا کیا ہے تو اپنی بہادر ماں کی روح کو یقینا تکلیف پہنچائی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بدترین مخالف بھی دل سے یہ بات تسلیم کرنے کو مجبور ہیں کہ ان سے ’’نجات‘‘ پانے کے لئے بالآخر انہیں راولپنڈی میں دن دیہاڑے قتل کرنا پڑا تھا۔ انہیں جھکانے کے تمام دیگر طریقے ناکام ہوگئے تھے۔
عمران خان صاحب بھی اپوزیشن میں بہت ہی توانا اور جی دار نظر آتے رہے ہیں۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں لیکن وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شرکت سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کی دانست میں وہاں ’’بدتمیزی‘‘ ہوتی ہے۔ بلاو ل بھٹو زرداری کو ا گر واقعتا اپنی والدہ کا حقیقی وارث ثابت کرنا ہے تو مسلسل قومی اسمبلی میں موجود رہیں۔اپنے مخالفین کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کے پیغام نہ بھجوائیں۔ قومی اسمبلی میں شاعری کے بیان کردہ میخانے کی طرح ’’پکڑی اچھلا‘‘ ہی کرتی ہے۔یہاں کے ماحول کا مقابلہ کریں ۔ ویسے بھی سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “It is all about Heat and Dust”۔طیش اور گرد اس کھیل کا لازمی حصہ ہیں۔اس کا مقابلہ کریں۔