چند برس قبل وزیر اعظم عمران خان نے بطور اپوزیشن رہنما انڈیا کے ایک ٹیلیویژن چینل، این ڈی ٹی وی، کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو کے دوران شدت پسند تنظیم القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جس انداز میں انھیں ہلاک کیا گیا اُس نے انھیں چند لوگوں کے نزدیک شہید بنا دیا ہے۔‘
تاہم اس انٹرویو کے کئی برسوں بعد جمعرات کو بطور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمان کے ایوان زیریں میں اپنے خطاب کے دوران اسامہ کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کچھ ایسا کہا جس سے اسامہ بن لادن پاکستان میں ٹرینڈ کرنے لگے ہیں اور ایک بحث چھڑ گئی ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کئی موضوعات پر بات کرتے کرتے یہ گنوانے لگے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر کب کب شرمندگی اٹھانی پڑی اور انھوں نے کہا ‘ایک وہ واقعہ ہے جس سے پاکستانیوں کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ انھوں نے ایبٹ آباد میں آ کر اسامہ بن لادن کو مار دیا، شہید کر دیا۔ اس کے بعد ساری دنیا نے ہمیں گالیاں دیں۔ ہمیں برا بھلا کہا۔ یعنی ہمارا اتحادی ہمارے ملک میں آ کر کارروائی کر رہا ہے اور ہمیں نہیں بتا رہا۔ ہمارے ستر ہزار پاکستانی اس وقت تک مر چکے تھے اس جنگ میں۔’
عمران خان کی جانب سے شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سربراہ اور ایک وقت پر دنیا کی سب سے مطلوب شخصیت اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے ’شہید‘ کا لفظ استعمال کرنے کی دیر تھی کہ ان کا قومی اسمبلی کا وہ کلپ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی وائرل ہوگیا ہے۔
’اسامہ بن لادن کو مار دیا، شہید کر دیا‘
عمران خان نے یہ بات اُن کی حکومت کی خارجہ پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کی۔ ایک طرف جہاں انھوں نے موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کو ‘کامیاب ترین’ قرار دیا وہیں انھوں نے امریکہ کے ساتھ ان کی اور ماضی کی حکومتوں کے تعلقات پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ہم نے اُن کا ساتھ دیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو جو ذلت اٹھانی پڑی۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی ملک نے امریکہ کا اس جنگ میں ساتھ دیا ہو اور امریکہ نے اسی ملک کو بُرا بھلا کہا ہو۔ اگر وہ افغانستان میں کامیاب نہ ہوئے تو اس کا ذمہ دار بھی پاکستان کو بنایا گیا۔’
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘ایک وہ واقعہ ہے جس سے پاکستانیوں کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ انھوں نے ایبٹ آباد میں آ کر اسامہ بن لادن کو مار دیا، شہید کر دیا۔ اس کے بعد ساری دنیا نے ہمیں گالیاں دیں۔ ہمیں برا بھلا کہا۔ یعنی ہمارا اتحادی ہمارے ملک میں آ کر کارروائی کر رہا ہے اور ہمیں نہیں بتا رہا۔ ہمارے ستر ہزار پاکستانی اس وقت تک مر چکے تھے اس جنگ میں۔’
انھوں نے کہا کہ اس واقعے کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستانیوں کو ذلت برداشت کرنا پڑی۔
یاد رہے کہ سنہ 2011 میں امریکی افواج نے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں آپریشن کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بطور قوم دوسری شرمندگی کی بات پاکستان میں امریکی ڈرون حملے تھے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ماضی کی حکومتیں کہتی تھیں کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں مگر پھر امریکی حکام نے بتایا کہ یہ سب حملے پاکستان کی حکومت کی اجازت سے ہو رہے ہیں۔ امریکی حکام نے کہا کہ معلوم نہیں کہ پاکستانی حکومت اپنے لوگوں سے کیوں جھوٹ کیوں بول رہی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے آتے ہی یہ پالیسی اپنائی کہ ہم کسی جنگ میں شرکت نہیں کریں گے بلکہ امن کی بات میں مدد فراہم کریں گے۔’آج کوئی ہمیں نہیں کہتا کہ پاکستان دھوکہ دے رہا ہے۔ ہمارے تعلقات اب ایسے ہیں کہ کوئی ہمیں ذلیل نہیں کر رہا بلکہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کے معاملے پر ہماری مدد کریں۔’
اسامہ بن لادن کا ٹرینڈ
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بن لادن کے لیے ’شہید‘ کا لفظ استعمال کرنے کی دیر تھی کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین نے اس پر اپنی آرا کا اظہار کرنا شروع کیا۔ اور ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی دیکھنے کو ملا۔ پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ کے دو ٹرینڈ اسی حوالے سے چل رہے ہیں۔
صحافی امبر رحیم شمسی نے عمران خان کے انڈین چینل کو دیے گئے انٹرویو کے کلپ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’اسامہ بن لادن کو براہ راست شہید نہ کہنے کے حوالے سے عمران خان ہمیشہ محتاط رہے ہیں۔ یہاں (کلپ میں) وہ کہتے ہیں کہ ‘معاشرے کا ایک طبقہ’ سوچتا ہے کہ وہ (اسامہ شہید) ہیں۔ آج نیشنل اسمبلی میں انھوں نے اس فلٹر کی وضاحت کر دی۔‘
عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے بھی اس بات پر اپنی رائے کا اظہار یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’آکسفورڈ سے فارغ التحصیل وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اسامہ بن لادن کو ‘شہید’ قرار دے دیا ہے۔‘
صحافی اسد علی طور نے لکھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان پاکستان کے چیف ایگزیکیٹیو بھی ہیں اور اگر وہ کوئی بات اسمبلی کے فلور پر کہتے ہیں تو اسے پالیسی بیان سمجھا جاتا ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے والے شخص اسامہ بن لادن کو سرکاری سطح پر شہید قرار دے دیا ہے؟‘
انڈین صارف روہت جسوال کا کہنا تھا کہ ‘اگر عمران خان نے اسامہ بن لادن کے لیے ‘شہید’ کا لفظ استعمال کیا ہے تو لوگ اس پر حیران کیوں ہیں۔ انڈیا میں بھی ایسے سیاستدان ہیں جو اسامہ بن لادن کو ‘اسامہ جی’ کہتے ہیں۔ آپ میں سے کتنوں کو یہ بات یاد ہے۔ مذاق ایک طرف، اسامہ کو شہید کہنا ان افراد کی توہین ہے جنھوں نے نائن الیون کے واقعے میں اپنی جانیں گنوائیں۔’
عاطف ضیا نامی صارف نے پاکستان میں شدت پسندی کے خلاف جنگ کے نتاظر میں لکھا کہ ’ایک ایسا شخص جس نے ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ہلاک کیا اسے ہمارے وزیر اعظم ‘شہید’ قرار دے رہے ہیں۔ یہ کتنی شرمندگی کی بات ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت افسردگی ہوئی کہ پاکستانیوں کا قاتل شہید بن گیا ہے۔‘
صحافی مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ ’ستر ہزار پاکستانی مارے گئے مگر اسامہ بن لادن شہید ٹھہرے۔‘
احمد ولید نے اپنے رائے کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا
تاہم کئی صارفین ایسے بھی ہیں جو عمران خان کے اس بیان کی حمایت کرتے نظر آئے۔
صحافی انصار عباسی نے لکھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان نے اسامہ بن لادن کو شہید کہا جو مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کی سوچ کی ترجمانی ہے۔‘
انصار عباسی کی اس ٹویٹ پر ایم ایس گورایا نامی صارف نے لکھا کہ ’میں متفق ہوں، وہ شہید ہے کیونکہ بغیر مقدمہ چلائے، الزام ثابت کیے، صفائی کا موقع دیے بغیر انھیں جان سے مارا گیا، لہذا وہ شہید ہیں۔۔۔‘
نفیس احمد نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’لیڈر لیڈر ہی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ببانگ دھل کہا ہے کہ ہمارے لیے شرمندگی کا باعث تھا کہ امریکہ پاکستان میں داخل ہو کر اسامہ بن لادن کو شہید کر دیا۔ آج تک نہ کسی میڈیا اور نہ کسی مسلم لیڈر میں عظیم مسلم مجاہد لیڈر اسامہ بن لادن کو شہید کہنے کی جرآت نہیں۔‘