آپ میں سے جانے کتنے لوگوں نے ڈپٹی نذیر احمد کا یہ ناول پڑھا ہو گایا اس پر بنا ڈرامہ دیکھا ہو گا ناول تو میں نے بھی نہیں پڑھا لیکن اس پر دو بار ڈرامہ بنا ایک تو بہت پہلے بنا جو میرے علم میں نہیں لیکن جو دوسری بار بنا وہ میں نے دیکھا تھا کچھ یاد ہے کچھ بھول گیا ہے لیکن تھا بڑے مزے کا ڈرامہ اس وقت ایسے ڈرامے بہت شوق سے دیکھے جاتے تھے یعنی اس وقت بھی اچھے برے دونوں طرح کے کردار سامنے آتے تھے لوگ زیادہ تر اچھے کرداروں کو اپنانے کی کوشش کرتے تھے اب تو خیر ایسے کرداروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اکبری اور اصغری دو سگی بہنیں ہو کر بھی ایک دوسرے کی ضد تھیں اکبری بڑی ہوتی ہے اور نانی اماں کی لاڈلی،جبکہ اصغری چھوٹی ہوتی ہے مگر بلا کی سمجھدار دونوں بہنوں کی ایک ہی گھر میں شادی ہوتی ہے بڑی اکبری کو ”مزاج داربہو “کا خطاب ملتا ہے اور چھوٹی اصغری کو ”تمیزداربہو“ کا خطاب پہلے بڑی بہن کی شادی ہوتی ہے وہ ہر وقت سج بن کر پلنگ توڑتی ہے ذرا سا کام بتانے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے یا سر پر پٹی باندھ کر لیٹ جاتی ہے گھر کی نوکرانیوں کو کپڑے لتے اور پیسے دے کر اپنی مٹھی میں کر لیتی ہے وہ کچھ بھی کرتی رہیں اس کو کوئی مسلہ نہیں ہوتا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کا نظام بگڑ جاتا ہے آمدن اور خرچ میں توازن نہ ہونے سے گھر کے مالک پر ڈھیروں ڈھیر قرض چڑھ جاتا ہے ماما عظمت جو اس گھر کی پرانی نوکرانی ہوتی ہے جی بھر کے لوٹ مچاتی ہے ایک روپے کا سودا دس روپے میں لاتی ہے لیکن اکبری کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی وہ اپنے ہار سنگھار اور مہندی چوڑی میں مگن رہتی ہے جس کی وجہ سے ماما عظمت اس سے بہت خوش رہتی ہے
بہو کے یہ لچھن دیکھ دیکھ کر ساس کا دل کھٹا ہو جاتا ہے اور وہ دوسری بہن یعنی اصغری کو بیاہ کر لانے میں لیت و لعل شروع کر دیتی ہیں وہ سمجھتی ہیں ایک بہن نے گھر کا یہ حشر کیا ہے تو دوسری کیا کرے گی لیکن بیٹے ماں کو سمجھاتے ہیں کہ اصغری ایسی نہیں ہے اس کو بیاہ لاؤ تاکہ یہ اوندھا گھر دوبارہ سیدھا ہو سکے کیونکہ قرض خواہ تنگ آ کر گھر کے مالک پر مقدمہ کر دیتے ہیں مقدمے کے نوٹس گھر کی دیواروں پر لگتے ہیں تو محلے میں ان کی عزت نہیں رہتی گھر کے مالک جو کسی اور شہر میں ملازمت کرتے ہیں ان کو خط لکھا جاتا ہے وہ بے چارے چھٹی لے کر گھر آتے ہیں اور یہ حالات دیکھ کر سر پکڑ لیتے ہیں کہ چند ہی ماہ میں نوبت مقدموں تک آ گئی بحر حال وہ کسی نہ کسی طرح قرض ادا کر کے مقدمے سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہیں اور بیوی کو کہتے ہیں میں اب آ ہی گیا ہوں تو چھوٹے بیٹے کی شادی کر کے جاؤنگا بیوی مخالفت کرتی ہے کہ پہلے ایک بہو کو بھگت رہے ہیں اب دوسری کو کیسے برداشت کریں گے لیکن میاں سمجھاتے ہیں کہ اصغری اس گھر کو سنبھال لے گی تم فکر نہ کرو اکبری یہ سن کر واویلا شروع کر دیتی ہے وہ بھی نہیں چاہتی کہ اس کی بہن اس گھر میں آئے اور یہ سب اس کے گرویدہ ہو جائیں لیکن گھر کے مالک اس کا حل یہ نکالتے ہیں کہ اکبری اور اس کے میاں کو الگ گھر میں منتقل کر دیتے ہیں اور اصغری کو اپنے چھوٹے بیٹے کی دلہن بنا کر لے آتے ہیں اصغری سے مل کر سب آس پاس کے لوگ محلے کی عورتیں بھی بہت خوش ہوتی ہیں یوں اسے تمیزدار بہو کا خطاب ملتا ہے اصغری کچھ ہی دنوں میں گھر کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے گوشت،سبزی،اناج،سب کی مقدار مقرر کرتی ہے دھوبی،کنجڑا نائی قصائی،دودھ والا سب کا حساب کتاب رکھا جانے لگتا ہے گھر کی ہر چیز معمول پر آنے لگتی ہے تو گھر کے مالک اطمنان سے واپس اپنی ملازمت پر چلے جاتے ہیں اصغری نہ صرف بوڑھی ساس کی خدمت کرتی ہے بلکہ چھوٹی نند کو بھی لکھنا پڑھنا سکھاتی ہے اس کی دیکھ بھال احسن طریقے سے کرتی ہے اب وہ گھر جو قرض پہ چلتا تھا اور قرض خواہ دروازہ بجایا کرتے تھے اس میں اسی خرچے سے بچت بھی ہونے لگتی ہے اصغری اس بچت سے گھر کے برتن،بستر چادریں وغیرہ خرید لیتی ہے اس کا سلیقہ ہر چیز میں نظر آتا ہے مگر نوکرانی ماما عظمت انگاروں پہ لوٹ رہی ہوتی ہے وہ جا کر اکبری سے لگائی بجھائی کرتی ہے ادھر اکبری کا حال سنیں وہ الگ گھر میں بھی اپنی اسی روش پر قائم رہتی ہے ماما عظمت کو پیسے دے کر بہن کی جاسوسیاں کرواتی ہے اپنے لیے جو بھی نوکرانی رکھتی ہے وہ چند دن میں گھر کا کوئی نہ کوئی سامان لے کر بھاگ جاتی ہے کیونکہ وہ دن چڑھے اٹھتی ہے میاں بھوکے پیٹ کام پر چلا جاتا ہے دوپہر کا کھانا وہ کبھی ماں کے گھر کھاتا ہے تو کبھی گھر میں اسے بازار کا کھانا لے کر جانا پڑتا ہے اس لیے اکثر ان کی آپس میں لڑائی ہوتی رہتی ہے ماما عظمت اسے بہن کے خلاف بھڑکاتی ہے کہ یہ سب اسی کا کیا دھرا کیونکہ ماما عظمت کی عیاشیاں بند ہو چکی ہوتی ہیں سودے سلف کا حساب لیا جاتا ہے اصغری اس کی ساری چوریاں پکڑ لیتی ہے جب سارے ثبوت اس کے پاس اکھٹے ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے سسر کو خط لکھتی ہے کہ وہ ایک بار گھر آ کر چکر لگا جائیں کیونکہ ماما عظمت اور اکبری دونوں مل کر اصغری کے خلاف ایک خطرناک سازش کرتی ہیں اصغری اس سازش سے واقف ہو جاتی ہے اس لیے وہ خط لکھ کر سسر کو بلا لیتی ہے جب وہ آ جاتے ہیں تو سہولت سے ان کو ماما عظمت کی چوریوں کے سازشوں کے سارے ثبوت دیتی ہے اور کہتی ہے میرا کام آپ کو آگاہ کرنا تھا ماما عظمت برسوں سے اس گھر میں ہے یہ اور بات کہ وہ اس گھر کو لوٹ رہی ہے اور گھر کے لوگوں میں تفرقہ پیدا کر رہی ہے اب اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں کہ آپ اس کا ہاتھ روکتے ہیں یا اس کو اس کے حال پر چھوڑتے ہیں
ادھر اکبری ایک پھاپھے کٹنی کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کو باتیں کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے سو کر اٹھنے کے بعد بن سنور کر دروازے پر کھڑی ہو جاتی ہے اور راہ چلتی عورتوں کو گھر کے اندر بلا لیتی ہے ایسی ہی ایک شاطر عورت اس کے گھر میں آ جاتی ہے اس سے باتوں باتوں میں سب حالات جان لیتی ہے اس کو کہتی ہے تمھاری بہن نے تم پر اولاد کی بندش کرا رکھی ہے اس وجہ سے تمھارا شوہر بھی تمہیں منہ نہیں لگاتا میں تمہیں فلاں بابا جی سے تعویز لا دونگی تمھاری گود ہری ہو جائے گی تو تمھارے سارے دلدرد دور ہو جائیں اکبری اندر سے بھاگ کر صندوقچہ اٹھا لاتی ہے تاکہ اس عورت کو پیسے دے وہ عورت اندر پڑے زیورات دیکھ لیتی ہے وہ اس کو کہتی ہے یہ زیورات کتنے میلے ہو رہے ہیں تم یہ لے کر میرے ساتھ چلو میرے اعتماد کا ایک سنار ہے میں یہ سارا زیور اجلوا دونگی بے وقوف اکبری سارا زیور اٹھا کر اس کے ساتھ چل پڑتی ہے جب وہ تھوڑی ہی دور جاتی ہیں تو وہ عورت اسے کہتی ہے او ہو وہ ناک کی لونگ تو صندوقچے کے ڈھکنے پر ہی رہ گئی یہ مجھے دو اور بھاگ کے لے آؤ میں یہیں کھڑی ہوں اکبری گھر آ کر لونگ دیکھتی ہے جو کہیں نہیں ہوتی وہ الٹے پیروں واپس جاتی ہے تو وہ عورت بھی کہیں نہیں ہوتی وہ سارا زیور لے کر فرار ہو چکی ہوتی ہے اب سب کچھ گنوا کر اکبری اپنا سر پیٹ لیتی ہے
لیکن یہاں تو ساری اکبریاں ابھی تک سازشوں میں لگی ہیں کیونکہ ان کا اپنا زیور ابھی محفوظ ہے جس دن یہ حساب کتاب مکمل ہو گیا اور ماما عظمت کو سزا مل گئی یہ گھر بھی سیدھا ہو جائے گا جس کا نام پاکستان ہے اس ملک میں سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اب کیوں نہیں ہوتی صرف چوری روکی ہے ہر شئے میں کفایت شعاری اختیار کی گئی جو لوٹوں لٹیروں کو پسند نہیں آئی
اکبری کی شیطانیاں سب کو اتنا خوف دلا چکی ہیں کہ اب اصغری کی نیک نیتی بھی شک کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ایک عام گھر کا نظام بگڑ جائے تو عزت اور زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے یہ تو پھر بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے جس کو جی بھر کے لوٹاگیا ہے اور چوروں نے اس کا اقرار بھی کیا تھا اسحاق ڈار کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے جو اس نے سن2000میں دفعہ 164کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے 45 صفحات پر مشتمل
ایک اعترافی بیان دیا تھا جس میں اس نے بہت بڑے پیمانے پر شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا اسحاق ڈار کے مطابق وہ بیان ان سے زبردستی لیا گیا لیکن قانون دان کہتے ہیں کہ 164کے بیان کے تحت لوگ پھانسی لگ جاتے ہیں اور اس سے قانونی انحراف کسی صورت ممکن نہیں پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس بیان میں اسحاق ڈار سے کوئی زور زبردستی نہیں کی گئی تھی اس ایفی ڈیوٹ میں شریف خاندان کی تمام منی لانڈرنگ کی تفصیلات موجود ہیں جن کو اگلے کالم پر رکھتی ہوں ابھی مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ ستر سال کے بگڑے معاملات ایک دو سال میں ٹھیک ہونے والے نہیں اس میں بہت سے ڈرامے ہونگے مایوسیاں پھیلائی جائیں گی پینترے بدل بدل کر وار کیے جائیں گے کیونکہ جانے والے کرائم کا ایک جال بچھا گئے ہیں اور عوام اس جال میں پھنسی ہوئی ہے،لیکن ایک نہ ایک دن یہ جال ٹوٹے گا انشا اللہ!