طارق عزیز پر میں نے تین کالم لکھے اور پڑھ کر تینوں پھاڑ دیے۔ میں نے محسوس کیا کہ شوبز کا یہ جن میرے قابو میں نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ میں وہ باتیں نہیں دہرانا چاہتا تھا جو میری اس محبوب شخصیت کی وفات کے بعد کئی بار دہرائی جا چکی ہیں۔ چنانچہ باقی باتیں میں بعد میں کروں گا۔ اس سے پہلے میں اس سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اس کی وفات سے کچھ عرصہ قبل اس کے گھر پر ہوئی۔ طارق عزیز کو میں اکثر فون کرکے ہلکی پھلکی گپ شپ کیا کرتا تھا، میں جانتا تھا اتنی بھرپور زندگی اور بےپناہ مقبولیت کے ساتھ کئی دہائیاں گزارنے والا یہ شخص ہر اس شخص کی طرح شدید تنہائی اور اذیت کا شکار ہوگا جو منظر سے غائب ہو گیا ہو اور اب تنہائی کے دن گزار رہا ہو۔ مجھے ہر بار دکھ ہوتا تھا کہ ان کی آواز میں مجھے وہ کھنک اور معانی کی وہ دھنک نظر نہیں آتی تھی جو خدا نے صرف اس کو وعید کی تھی چنانچہ ایک دن میں نے انہیں فون کیا اور کہا قبلہ گاہی زیارت کے لئے حاضر ہونا چاہتا ہوں، اس پر ان کی رگِ ظرافت جاگی مگر اس ظرافت کی تہہ میں دکھ کی ایک لہر بھی تھی، بولے ’’اے مرید باصفا تشریف لائیے اور مجھ پر پھولوں کی چادر چڑھا دیجیے!‘‘
لیکن جب میں انہیں ملا تو میرے سامنے وہی جوانِ رعنا اپنی دراز قامتی کے ساتھ کھڑا تھا اور گفتگو کے دوران آواز کی کھنک اور معانی کی دھنک بھی اسی طرح تھی۔ ہم کوئی دو گھنٹے گپ شپ کرتے رہے۔ طارق عزیز روزِ اول سے ترقی پسندوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جن کا پہلا اور آخری عشق پاکستان تھا۔ وہ بالکل اوائل عمری ہی میں جیل یاترا کر چکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جس کا ذکر انہوں نے انور مقصود سے انٹرویو میں کچھ یوں کیا کہ لاہور کی کرائے کی کوٹھڑی میں جس کا کرایہ سترہ روپے ماہوار تھا، میں اور پروفیسر مہدی حسن آدھا آدھا ادا کرتے تھے۔ ایک دن طارق عزیز کے ’’باغیانہ‘‘ خیالات کی بھنک پولیس تک پہنچی تو انہوں نے پکڑ کر جیل میں بند کر دیا جس پر طارق عزیز خوشی سے نہال ہو گئے کیونکہ وہاں رہائش، کھانا اور کپڑے بھی مفت تھے۔
بہرحال پھر بھٹو صاحب غریبوں کے ملجا و ماویٰ کے طور پر سامنے آئے اور سب ترقی پسندوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئیں۔ طارق عزیز تو اسی دن کے انتظار میں تھے جو پاکستان کے پسے ہوئے طبقوں کی آواز بن کر سامنے آئے چنانچہ انہوں نے پیپلز پارٹی جوائن کر لی۔ طارق عزیز بھٹو صاحب کے ساتھ شملہ بھی گئے مگر اقتدار کا نشہ بہت برا ہوتا ہے۔ چنانچہ جب بھٹو اپنے نظریاتی رستے کو چھوڑ کر جاگیرداروں کے ہتھے چڑھ گئے تو پھر بقول یاس یگانہ چنگیزی ؎
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
معراج محمد خان، طارق عزیز اور بہت سے دوسرے ترقی پسندوں کی راہیں ان کی راہوں سے الگ ہو گئیں۔ یہ بہت لمبی داستان تھی اور اس میں بہت پیچیدہ موڑ آتے تھے مگر میں نے اس کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ میں نے طارق عزیز سے کہا میں کوئی شخص ہائر کرتا ہوں جو آپ کی پوری زندگی فلم، اداکاری، شوبز اور سیاسی دور کی یادداشتیں جمع کرے اور پھر ہم اسے شائع کروائیں۔ طارق عزیز راضی ہوگئے مگر پاکستان کا یہ روشن ترین ستارہ چند ہفتوں کے بعد وہ سب خواب اپنے سینے میں لے کر لحد میں لیٹ گیا جو پاکستان کے پسے ہوئے عوام کے حوالے سے وہ ساری عمر دیکھتا رہا تھا۔
طارق عزیز کی شخصیت کی کوئی ایک جہت نہیں تھی، وہ کثیر الجہات فنکار تھا۔ اس سے بڑا شو مین آج تک پاکستان میں پیدا نہیں ہوا مگر اس جیسا شعر و ادب کا رسیا بھی ان دنوں ہمارے پورے شوبز میں موجود نہیں۔ اسے اساتذہ کے ہزاروں اشعار یاد تھے مگر منیر نیازی اس کے حواس پر چھایا ہوا تھا۔ میرا اپنا بھی یہی حال ہے، وہ جب شو کے دوران منیرؔ کا کوئی شعر پڑھتا تو لگتا منیرؔ کی روح اس میں حلول کر گئی ہے۔ طارق عزیز خود بھی پنجابی کا شاعر تھا اور اس کا شعری مجموعہ بھی میرے لئے بہت محبت بھرے الفاظ کے ساتھ میری لائبریری میں ہے۔ اس کے شو کی بدولت میرا ایک جملہ بھی خواص و عوام میں بہت پسند کیا گیا۔ طارق نے مجھے اپنے شو میں بطور مہمان مدعو کیا تھا، اس نے دورانِ ’’انٹرویو‘‘ پوچھا کہ کیا وجہ ہے کسی کروڑ پتی کے ہاں بھی شادی ہو اور مہمان بھی کروڑ پتی ہوں مگر جونہی ’’کھانا کھل گیا ہے‘‘ کی آواز ہال میں گونجتی ہے، یہ سب معززین کھانے کی طرف اس طرح لپکتے ہیں جیسے کئی دنوں کے بھوکے ہوں۔ میں نے جواب دیا ’’طارق بھائی، صدیوں کی بھوک دو چار نسلوں تک نہیں جاتی‘‘ اور اس پر طارق عزیز نے بےساختہ داد دیتے ہوئے کہا ’’تُسی تے گل ای مکا دِتی اے‘‘ (آپ نے تو بات ہی ختم کر دی)۔
اور اب آخر میں وہ ناگفتنی باتیں جو طارق عزیز سے آخری ملاقات میں ہوئیں اور میں نے کہا تھا، وہ میں بیان نہیں کروں گا اور آپ یقین کریں کہ حسن پرست طارق عزیز کی وہ باتیں میں اب بھی بیان نہیں کروں گا کہ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں