وزیراعظم عمران خان کابینہ اجلاس کی کارروائی مکمل کرکے جانے لگے تو وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ وہ جانے سے پہلے ایک اہم بات سن لیں۔
عمران خان اسد عمر کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ بولے کہ اُنہیں فواد چوہدری کے تازہ انٹرویو کے ذریعے پتا چلا ہے کہ میں سازشوں میں ملوث ہوں اور میں نے جہانگیر ترین کو نکلوانے یا پھنسانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسد عمر کی گفتگو میں فواد چوہدری کے بارے میں شکایت کا عنصر واضح تھا۔
جب اسد عمر وائس آف امریکہ کو دیے گئے اس انٹرویو میں فواد چوہدری کے مختلف نکات پر بات کر رہے تھے تو اس وقت فواد چہرے پر خفیف مسکراہٹ سجائے ساری باتیں غور سے سن رہے تھے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی موقع غنیمت جان کر اپنے مخصوص انداز میں فواد چوہدری پر تنقید کی۔
فواد چوہدری نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ کیا آپ نے میرا انٹرویو دیکھا ہے؟ نہیں! مجھے رپورٹ ملی ہے، انٹرویو پورا نہیں دیکھا، وزیراعظم نے جواب دیا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جناب میری درخواست ہے کہ وہ 9منٹ کا انٹرویو ضرور دیکھیں اور بعد میں اس پر اپنی رائے دیں۔
وزیراعظم عمران خان نے دونوں باتیں سنیں اور گفتگو کا آغاز اس وضاحت سے کیا کہ انہوں نے جہانگیر ترین کے خلاف کسی ذاتی بنیاد پر کچھ نہیں کیا بلکہ مکمل ایمانداری سے چینی کے معاملے پر شفاف تحقیقات کرائیں۔
وزیراعظم نے فواد چوہدری کے سیاسی تجزیوں کی تعریف کی تاہم انہیں میڈیا میں پارٹی امور پر گفتگو کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت بھی کی۔
وزیراعظم کی گفتگو ختم ہوئی تو وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ سر میری نظر میں فواد چوہدری نے ایک تجزیہ کیا ہے مگر اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا فورم درست نہیں تھا۔ فیصل واوڈا جب بھی کابینہ اجلاس میں بولتے ہیں تو حاضرین کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اس بار بھی توقع کے عین مطابق وواڈا نے کابینہ اجلاس میں بیٹھے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ یہ بات عام ہے کہ یہ دونوں وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور یہیں سے سازشوں کا آغاز ہوتا ہے۔ واوڈا کی ان کڑوی کسیلی باتوں کے نتیجے میں وزیراعظم نے انہیں کہا کہ ایسا مت کریں اور اپنے ساتھیوں کا اس طرح نام نہ لیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت ایک ایسے مرحلے میں ہے جہاں چھ ماہ بعد ہمیں اپنے منصوبے مکمل کرنا ہیں۔ انہوں نے اپنے وزیروں سے کہا کہ آپ سب کے پاس چھ ماہ ہیں اپنی کارکردگی دکھائیں۔ عمران خان بات کرتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھے اور فیصل واوڈا سے بات کرتے ہوئے ہال سے دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اس ساری گفتگو کے دوران وزیراعظم عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے دو وزرا زلفی بخاری اور مراد سعید نے کوئی خاص بات نہ کی بلکہ وہ خاموشی سے ساری کارروائی سنتے رہے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس کی 23جون کی یہ کارروائی وزیراعظم ہائوس میں منعقد ہوئی تو تھوڑی دیر میں کابینہ کارروائی کے دوران فواد چوہدری کی طرف سے وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو پر گرما گرمی کی خبروں سے ٹی وی اسکرینز آگ برسا رہی تھیں۔ جیو نیوز کے ایاز اکبر یوسفزئی بھی اس خبر کے مختلف پہلو رپورٹ کر رہے تھے۔
اگلے روز وفاقی وزیر اسد عمر اور فواد چوہدری ایک تقریب میں اکٹھے تھے، دونوں آپس میں تپاک سے ملے اور پھر اسد عمر اور فواد چوہدری اکٹھے اسد عمر کے دفتر میں چلے گئے، دونوں نے خوب گپ شپ کی بعد ازاں فواد چوہدری کی ایک طاقتور شخصیت سے ملاقات بھی ہوئی۔
فواد چوہدری کے اس انٹرویو نے تین چیزیں واضح کر دی ہیں۔ اول یہ کہ عمران خان سمجھتے ہیں ان کے پاس صرف چھ ماہ ہیں اور اگر اس دوران کارکردگی نہ دکھائی گئی تو صورتحال ان کے ہاتھ سے مکمل طورپر نکل جائے گی۔
دوسرا یہ کہ تحریک انصاف کے اندر جہانگیر خان ترین کے جانے کے بعد جو دو رہنما یعنی شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اہم سمجھے جا رہے تھے وہ اس انٹرویو اور اس کے بعد کابینہ اجلاس میں فیصل واوڈا کی تنقید کے بعد شک کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔
فواد چوہدری کی آرا کو وزیراعظم اہمیت دیتے ہیں اور ان کی باتیں پارٹی کے اندرونی حالات کی نشاندہی ضرور کرتی ہیں۔ ان کے تازہ انٹرویو سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب میں بھی لوگ حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بہرحال حکومت کے ساتھ ہے مگر اس کا ایک بڑا حصہ پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر اس صوبے کا عام آدمی خوش نہیں تو اس کا اثر اسٹیبلشمنٹ پر بھی پڑتا ہے اور اس کے فیصلوں پر بھی؛ تاہم فواد چوہدری نے مسکراتے چہرے کے ساتھ تلخ باتیں کرکے اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو بھی اپنے خلاف کرلیا ہے۔
فواد چوہدری نے جو باتیں سرعام کیں انہیں سازش سے تعبیر کرنا تو درست نہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان باتوں پر غور کرکے گورننس اور معیشت کی سمت ٹھیک نہ کی گئی تو سازشوں کے ایک ایسے نئے دور کا آغاز ضرور ہوگا جو حکومت کو مزید کمزور اور عوامی طور پر رسوا کردے گا۔
ایسے میں اسٹیبلشمنٹ شاید چاہتے ہوئے بھی حکومت کا ساتھ نہیں دے سکے گی یوں ایک نیا بحران پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہوگا۔