18ویں صدی کا 30واں سال۔ اندرون شہر کی سڑکوں کو رگڑ رگڑ کر دو روز تک دھویا جانا اشارہ دے رہا تھا کہ جسے ان پر چلنا ہے وہ انتہائی خاص ہے۔
لاہور تب پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی راجدھانی تھا۔ 19 برس کی عمر میں جولائی سنہ 1799 میں لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے نام ‘رن جیت’ یعنی ‘ میدانِ جنگ میں فاتح’ کی لاج رکھتے ہوئے گوجراں والا کے یہ سکھ جاٹ جنگجو امرتسر، کشمیر، ملتان، دہلی، لداخ اور پشاور تک اپنی سلطنت کو وسعت دے چکےتھے۔
40 برس تک پنجاب پر حکمران رہنے والے رنجیت سنگھ پاؤں زمین کے بجائے رکاب میں رکھنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ ان کے شاہی اصطبل میں 12 ہزار گھوڑے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی 20 ہزار روپیوں سے کم میں خریدا نہیں گیا تھا۔ ان میں سے ایک ہزار گھوڑے صرف مہاراجہ کے لیے مخصوص تھے۔
وہ تھکے بغیر گھنٹوں گھڑ سواری کر سکتے تھے۔ کوئی پریشانی ہوتی یا غصہ تو گھڑسواری سے اپنے حواس بحال کرتے۔ دو گھوڑے ہمیشہ ان کی سواری کے لیے تیار ہوتے تھے اور گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ان کا دماغ خوب چلتا۔
مہمانوں سے گفتگو گھوڑوں ہی کے موضوع پر کرنا پسند تھا اور ان کے دوست جانتے تھے کہ اچھی نسل کا گھوڑا رنجیت سنگھ کی کمزوری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انگریز بادشاہ نے جہاں انھیں سکاٹش گھوڑے تحفے میں دیے تو حیدرآباد کے نظام نے بڑی تعداد میں عربی گھوڑے بھجوائے۔
رنجیت سنگھ نے اپنے گھوڑوں کو نسیم، روحی اور گوہربار جیسے شاعرانہ نام دے رکھے تھے۔ خوبصورت گھوڑوں کے تو وہ گویا دیوانے تھے اور انھیں حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔
اس کی مثال جھنگ کے ایک نواب سے گھوڑوں کے مطالبے اور انکار پر ہونے والی پیش قدمی کی ہے۔ مہاراجہ کو کہیں سے علم ہوا کہ جھنگ کے نواب کے پاس بہت اچھے گھوڑے ہیں۔
پیغام بھجوایا کہ ان میں سے چند تحفہ کیے جائیں۔ نواب نے اس درخواست کا مذاق اڑاتے ہوئے انکار کر دیا تو رنجیت سنگھ نے حملہ کر کے نواب کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔
نواب اس وقت تو ان گھوڑوں کو لے کر فرار ہو گیا مگر چند روزبعد واپس آیا اور انھیں مہاراجہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
ایسا ہی کچھ ‘شیریں’ نامی گھوڑے کے لیے ہوا جب شہزادہ کھڑک سنگھ کی کمان میں فوج کشی ہوئی اور اس کے مالک شیر خان نے دس ہزار روپے سالانہ کی جاگیر کے بدلے یہ گھوڑا رنجیت سنگھ کو دینا منظور کیا۔
سبک رفتار ‘سفید پری’ نامی گھوڑی منکیرہ کے نواب کے پاس تھی۔ رنجیت سنگھ کا دل اس پر آیا تو اپنے جرنیل مصر چند دیوان کو لکھا کہ وہ نواب سے گھوڑا طلب کریں اور اگر انکار کریں تو ان کی جائیداد چھین لی جائے۔
لاہور کے جن راستوں کی صفائی کا ذکر مضمون کے آغاز میں ہوا وہ بھی ایک گھوڑی کے لیے آراستہ ہو رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسپ لیلیٰ کہلائے جانے والے مہاراجہ کے اس پسندیدہ جانور کے نتھنوں میں خاک کا کوئی ذرہ چلا جائے۔
لیلیٰ تھی بھی تو خوبصورتی میں بے مثال مگر مہاراجہ کا اسے پانے کا جذبہ بھی اتنا ہی شدید تھا۔ اس گھوڑی کے حسن کا چرچا فارس اور افغانستان تک تھا۔
اس کے مالک پشاور کے حاکم یار محمد رنجیت سنگھ کے باجگزار تھے۔ وہ اس گھوڑی کے لیے شاہ ایران فتح علی خان قاچاری کی پچاس ہزار روپے نقد اور پچاس ہزار روپے سالانہ جاگیر اور سلطان روم کی پیشکش ٹھکرا چکے تھے۔
جب پشاور رنجیت سنگھ کے زیرنگیں ہوا تو انھیں لیلیٰ کا علم نہیں تھا مگر جب سنہ 1823 میں انھیں اس کی خبر ملی تو کنہیا لال کے مطابق وہ ‘مجنون‘ ہو گئے۔
رنجیت سنگھ نے گھوڑی کا اتا پتا لگانے کے لیے پوری جماعت تشکیل دے دی۔ کچھ نے کہا کہ گھوڑی پشاور میں ہے جب کہ دوسروں کے مطابق مہاراجہ کی دلچسپی کی خبر ملتے ہی اسے کابل منتقل کر دیا گیا تھا۔
اس اطلاع پر مہاراجہ نے اپنے خصوصی ایلچی فقیر عزیزالدین کو پشاور بھیجا۔ وہ واپسی پر تحائف میں کچھ اچھے گھوڑے ساتھ لائے لیکن لیلیٰ ان میں شامل نہیں تھی کیونکہ یار محمد نے رنجیت سنگھ کے ایلچی کو بتایا تھا کہ ان کے پاس وہ گھوڑی نہیں ہے۔
رنجیت سنگھ کو یقین تھا کہ یار محمد جھوٹ بول رہے ہیں۔ یار محمد کا 12 سالہ بیٹا مہاراجا کے دربار میں تھا۔ ایک بار اس نے مہاراجہ کے کسی گھوڑے کا تقابل لیلیٰ سے کیا۔ مہاراجہ نے پوچھا، مگر کیا لیلیٰ زندہ ہے تو لڑکے نے جواب دیا: ہاں بالکل۔`
یار محمد نے اپنی گھوڑی رنجیت سنگھ کے حوالے کرنا منظور نہ کیا اور سید احمد بریلوی سے جا ملے جو اس وقت مہاراجہ سے برسرِپیکار تھے۔
سنہ 1826 میں بدھ سنگھ سندھری والیا کی زیرِ قیادت ایک سکھ فوج سید احمد سے نمٹنے اور گھوڑی لینے کے لیے پشاور جا پہنچی۔ حکم تھا کہ کچھ بھی ہوجائے، گھوڑی ہر قیمت پر لاہور دربار پہنچنی چاہیے۔ اس موقع پر ایک خونیں جنگ ہوئی جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔
بدھ سنگھ کو بھی یار محمد نے اور گھوڑے تحفے میں دیے مگر لیلیٰ کے بارے میں پھر بتایا کہ وہ تو مر چکی ہے۔ مگر رنجیت سنگھ کے جاسوسوں کی خبر تھی کہ گھوڑی زندہ ہے۔
مہاراجہ نے غصے میں شہزادہ کھڑک سنگھ کی قیادت میں ایک اور مہم بھیجی۔ فرانسیسی جرنیل وینٹورا جو پہلے نپولین کی فوج میں تھے اور اب مہاراجہ کے خاص معتمد بن چکے تھے،اس مہم کا اہم حصہ تھے لیکن ان کے پشاور پہنچنے سے پہلے ہی، یار محمد کو، بعض روایات کے مطابق، ان کے اپنے قبیلے نے گھوڑی پر لڑنے کے باعث ہلاک کر دیا۔
بعض دیگرروایات ان کے پہاڑوں میں روپوش ہونے کی بات کرتی ہیں۔ بہرحال ان کی جگہ ان کے بھائی سلطان محمد نے لے لی۔
اس مہم میں لاہور دربار نے فتح پائی۔ جب سلطان محمد سے جنرل وینٹورا نے لیلیٰ کا مطالبہ کیا تو انھیں بھی یہی بتایا گیا کہ لیلی مر چکی ہے۔
تاہم وینٹورا نے نئے حکمران کو ان ہی کے محل میں پابند کر دیا اور آگاہ کیا کہ 24 گھنٹے کے اندر ان کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ تب جا کر سلطان محمد گھوڑی ان کے حوالے کرنے پر راضی ہوئے تاہم مورخین کے مطابق ایسا کرتے ہوئے وہ ‘ایک بچے کی طرح بلک بلک کر روئے’۔
پشاور سے گھوڑی کو فوری طور پر ایک خصوصی گاڑی میں 500 فوجیوں کی حفاظت میں لاہور روانہ کیا گیا۔ یہ بادامی باغ اور قلعے کے آس پاس دھلی دھلائی سڑکوں سے گزرتی مغربی اکبری دروازے پر لاہور پہنچی۔
یہ سنہ 1830 کا واقعہ ہے، گویا پہلی خبر سے پہلی جھلک تک کا سفر سات سال کا رہا۔
لیلیٰ کی آمد پر سکھ راجدھانی میں جشن کا سماں تھا کیونکہ مہاراجہ کے خواب کی ایک عرصے کے بعد تکمیل ہو رہی تھی۔ بقول سر لیپل ہنری گرفن کے رنجیت سنگھ نے جرمن سیاح بیرن چارلس ہیوگل کو خود بتایا کہ 60 لاکھ روپے اور 12 ہزار فوجی اس گھوڑی کو پانے میں کام آئے۔
ناول نگار اندو سندریسن لکھتی ہیں کہ رنجیت سنگھ کسی بھی گھوڑے پر بیٹھتے تو ان کی شخصیت کا تاثرہی بدل جاتا۔ یوں لگتا کہ وہ اور جانور ایک ہو گئے ہیں۔
جب لیلی کو مہاراجہ کے اصطبل میں لایا گیا تو وہ کچھ اڑیل سی تھی اور اپنے مضبوط، سفید دانت نکوس کر ملازموں کی طرف بڑھتی۔ رنجیت سنگھ نے اس پیارسے اس پر ہاتھ پھیرا اور کان میں کچھ کہا کہ وہ ان کی مطیع ہو گئی۔ اس روز کے بعد لیلی نے مہاراجہ کے علاوہ کم ہی کسی اور کو خود پر سوار ہونے دیا۔
لیلی کو حاصل کر کے رنجیت سنگھ اتنے نہال تھے کہ انھوں نے 105 قیراط کا کوہ نور ہیرا جسے وہ اپنے بازو پر پہنتے تھے، لاکھوں روپے کے دیگر زیورات کے ساتھ گھوڑی کو پہنایا۔
ایسا اہتمام خاص مواقع پر بعد میں بھی ہوتا رہا۔ گلے میں ایسے چھلے پہنائے گئے جن پر قیمتی پتھر جڑے تھے۔ اس کی کاٹھی اور لگام بھی زروجواہر سے جگ مگ کرتی تھی۔
اس وقت کے سربرآوردہ شاعر قادریار نے لیلیٰ کی تعریف میں نظم کہی اور مہاراجہ سے ڈھیروں انعام پایا۔ جنرل ونٹورا کو لیلی لانے پر دو ہزار کا قیمتی خلعت عطا ہوا جبکہ یار محمد کے بیٹے کو بھی آزاد کر دیا گیا۔
مہاراجا رنجیت سنگھ پر ایک کتاب کے مصنف کرتار سنگھ دگل کے مطابق مورخین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ لیلیٰ گھوڑی تھی یا یہ نام گھوڑے کا تھا۔
ان کا کہنا ہے نام سے تو یہ گھوڑی لگتی ہے مگر ساتھ ہی وہ ڈبلیو جی اوسبورن کے حوالے سے رنجیت سنگھ کی یہ بات نقل کرتے ہیں ’میں نے اس سے زیادہ مکمل جانور نہیں دیکھا۔ میں جتنا زیادہ لیلیٰ کو دیکھتا ہوں اتنا ہی زیادہ وہ مجھے شاندار اور ذہین لگتا ہے`۔
چونکہ زیادہ روایات بشمول سر گرفن کے لیلیٰ کا بیان گھوڑی کے طور پر کرتی ہیں اس لیے یہاں ذکر مونث ہی کے طور پر ہے۔ سر گرفن کا کہنا ہے کہ سکھ ریکارڈز کے مطابق لیلیٰ گھوڑی تھی اور نام سے بھی ایسا ہی تاثر ملتا ہے۔
وہ لیلی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس گھوڑے کے بعد کہ جو ٹرائے کے سقوط کا سبب بنا کوئی اورگھوڑا اتنی مصیبت اوراتنے بہادروں کی موت کا باعث نہیں بنا۔
اوسبورن کہتے ہیں کہ مہاراجہ کو اس بات کا بالکل دکھ نہیں تھا کہ انھوں نے ایک گھوڑے کو پانے کے لیے اتنی رقم اور اپنے لوگوں کی جانیں جھونک دیں۔ انھیں اس بات کا بھی افسوس نہیں تھا کہ اس سیدھی سیدھی لوٹ نے ان کے کردار کو کیسا داغدار کیا ہے۔
لیلی مضبوط جسم، شاہ قد اور پھرتیلی تھی۔ ہیوگل نے یہ گھوڑی شاہی اصطبل میں دیکھی۔ وہ بیان کرتے ہیں ’یہ مہاراجہ کی بہترین گھوڑی ہے۔ گھٹنوں پر گول، گول سونے کی چوڑیاں ہیں، گہرا سرمئی رنگ ہے، سیاہ ٹانگیں ہیں، پورے سولہ ہاتھ قد ہے۔‘
ایمی ایڈن کا کہنا ہے کہ مہاراجہ کو لیلیٰ اتنی پسند تھی کہ بعض اوقات دھوپ میں بھی اس کی گردن سہلانے اور اس کی ٹانگیں دبوانے چلے جاتے۔
لیلی کے کسی جنگ یا مہم میں استعمال کا پتا نہیں ملتا مگر یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ نے یہ گھوڑی اور اپنی گھڑسواری کے کمالات سنہ 1831 میں روپڑ میں گورنرجنرل لارڈ ولیم بینٹینک کو دکھائے۔
انھوں نے انتہائی تیزرفتاری سے لیلیٰ کو بھگاتے ہوئے پانچ بار اپنے نیزے کی نوک سے پیتل کا ایک برتن اٹھایا۔ تماشائیوں نے بے پناہ داد دی تو مہاراجہ نے بڑھ کر لیلی کا منہ چوم لیا۔
لیلیٰ کے لیے رنجیت سنگھ کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ مصنف کرتار سنگھ دگل کے مطابق انھوں نے اپنے بیٹے شیر سنگھ کو لیلی پر بغیر اجازت سواری کرنے کی پاداش میں قریب قریب عاق ہی کر دیا تھا۔
رنجیت سنگھ نے اپنے معتمد خاص فقیر عزیزالدین سے کہا کہ وہ شیر سنگھ کو جائیداد سے عاق کرنے جا رہے ہیں۔ فقیر نے جواب میں پنجابی میں کہا: ‘جی ایہو ای سزا بن دی اے۔ شیر سنگھ نے کیہ سمجھیا اے لیلی اوہدے پیو دا مال اے؟ ( بالکل یہی سزا بنتی ہے۔ شیرسنگھ نے کیا سمجھا ہے کہ لیلی اس کے باپ کا مال ہے)۔ مہاراجہ یہ جواب سن کر ہنس پڑے اور شیر سنگھ کو معاف کر دیا۔
سر ولیم لی وارنر ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کیسے ایک ملاقات میں مہاراجہ نے گورنرجنرل کو دیگر گھوڑوں کے علاوہ لیلیٰ بھی دکھائی۔
مہاراجہ نے لیلی کو تھوڑا چلانے پھرانے کے بعد ترنگ میں آ کر مہمان کو تحفے کے طور پر دینے کی پیش کش کی۔ گورنر جنرل کو لیلی سے مہاراجہ کے عشق کا علم تھا اسی لیے انھوں نے پہلے تو یہ تحفہ قبول کیا اور پھر ایک اور لگام منگوا کر گھوڑی پر ڈال کر رنجیت سنگھ سے درخواست کی وہ اسے ان کی دوستی اور احترام کے ثبوت کے طور پر واپس قبول کر لیں۔
ولیم لی وارنر کے مطابق پھر لیلی شاہی اصطبل کی طرف واپس جا رہی تھی اور مہاراجہ کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
رنجیت سنگھ پر فالج کا حملہ ہوا تو کہا جاتا ہے کہ جب انھیں لیلی پر بٹھایا جاتا تو طبیعت بشاش بشاش ہو جاتی اور یوں لگتا جیسے وہ بیمار ہیں ہی نہیں، اپنی جون میں لوٹ آتے۔ لیلیٰ ہی آخری گھوڑی تھی جس پر مہاراجا سوارہوئے۔
ولیم بار نے لیلیٰ کو اس کے آخری دنوں میں دیکھا۔ ان کا کہنا ہے ’ہمارا مقصد یہ تھا کہ اس گھوڑی کو دیکھا جائے کہ جسے پانے کے لیے مہاراجہ نے پیسے اور جانوں کی قربانی دی۔ جب اسے ہمارے سامنے لایا گیا تو ہمیں مایوسی ہوئی۔ اگر وہ اچھی حالت میں ہوتی تو خوبصورت لگتی۔ بہترین خوراک مگر کم ورزش کے باعث اس پر چربی چڑھ چکی تھی۔‘
لیلیٰ چاہے اپنی جوانی والی گھوڑی نہیں رہی تھی لیکن رنجیت سنگھ کی اس سے انسیت وہیں کی وہیں تھی اور لیلی کے مرنے پر مہاراجہ اتنا روئے کہ چپ کروانا مشکل ہوا۔ لیلی کو ریاستی اعزاز کے ساتھ اکیس توپوں کی سلامی میں دفن کیا گیا۔
مہاراجا کے بیٹے دلیپ سنگھ کی دو بیٹیوں میں سے ایک کا نام بمبا تھا جو سدرلینڈ سے بیاہی گئیں۔ عمر کے آخری حصے میں بمبا برطانیہ سے لاہور منتقل ہو گئیں۔
وہ خود کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اکلوتی وارث سمجھتی تھیں اور ورثے میں انھیں رنجیت سنگھ کی بھس بھری گھوڑی لیلی اور اس کا ہیروں سے مزین سازوسامان ملا۔
بمبا نے سنہ 1957 میں موت سے پہلے اپنا بیشتر ورثہ حکومتِ پاکستان کے سپرد کر دیا تاکہ اس کی دیکھ بھال کی جا سکے۔ مصنف مستنصر حسین تارڑ کے مطابق اسی دوران پراسرار طور پر لیلیٰ کا ہیروں سے مزین سازوسامان چوری ہو گیا۔
تاہم لیلیٰ کا بھس بھرا وجود اور رنجیت سنگھ کے ساتھ اس تاریخی گھوڑی کی تصویر لاہور کے عجائب گھر کی سکھ گیلری میں موجود ہے اور دیکھنے والوں کو انسان اور جانور کی محبت کی کہانی سناتے ہیں۔